I
intelligent086
Guest
تین خواہشات ...... ارم ظہور
پیارے بچو!پُرانے وقتوں کی بات ہے کسی چھوٹے سے گائوں میں عبداللہ نامی شخص اپنی بیوی کے ساتھ رہتا تھا۔یہ دونوں مل کر گھر میں مٹی کے برتن بناتے اور انہیں بازار میں جا کر بیچ دیا کرتے تھے۔عبداللہ مٹی کے برتن تیار کرتا اور خشک ہونے پر اس کی بیوی ارم برتنوں پر خوبصورت رنگ کر کے انہیں سجا دیا کرتی تھی۔اکثر برتن بازار جاتے ہی ہاتھوں ہاتھ بک جایا کرتے اور کبھی کبھار کئی دنوں تک گاہک نہ ملتا۔اس کے باوجود دونوں میاں بیوی صبر شکر کر کے زندگی گزار رہے تھے۔
پچھلے کچھ دنوں سے عبداللہ زیادہ برتن بیچنے میں ناکام رہا تھااور اسی وجہ سے گھر میں خاص پیسے بھی موجود نہیں تھے۔شام کو کام سے فارغ ہو کر ارم نے گھر میں پڑے تھوڑے سے چاول اُبالے اور ساتھ دال بنا لی۔کھانا اتنا ہی تھا کہ وہ دونوں کھا کر اپنی بھوک مٹا سکتے۔ابھی انہوں نے کھانا پلیٹ میں ڈالا ہی تھا کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔ارم اپنی پلیٹ دستر خوان پر ہی رکھ کے دروازے کی جانب لپکی۔کیا دیکھتی ہے کہ دروازے پر نہایت ضعیف خاتون کھڑی ہے،جس کی کمر جھکی ہوئی ہے۔ارم کو دیکھ کر اس نے ہاتھ منہ کی طرف لے جاتے ہوئے کھانے کا اشارہ کیا اور اپنی کمزور سی آواز میں بولی’’بیٹی! میں کئی دنوں سے بھوکی ہوں،کیا مجھے کچھ کھانے کو ملے گا‘‘؟
بڑھیا کی حالت دیکھ کر ارم کو بے حد ترس آیا ۔وہ جلدی سے اندر گئی اور اپنی پلیٹ دستر خوان سے اٹھانے لگی۔عبداللہ سوالیہ نظروں سے ارم کی جانب دیکھتے ہوئے بولا’’یہ لے کر کہاں جا رہی ہو‘‘؟ارم بولی’’واپس آ کر آپ کو بتاتی ہوں‘‘۔اتنا کہہ کے ارم دروازے کی جانب بڑھی اور کھانے کی پلیٹ بڑھیا کی جانب بڑھاتے ہوئے بولی’’اماں! اس وقت جو کھانے کے لیے موجود تھا وہ میں لے آئی ہوں‘‘۔بڑھیا پلیٹ پکڑ کر مسکراتے ہوئے بولی’’میرے لیے اتنا ہی کافی ہے۔تم نیک دل کی صابر لڑکی ہو۔تم نے اپنے گھریلو حالات کے باعث کبھی شوہر سے کسی خواہش کا اظہار نہیں کیا،لیکن یاد رکھنا آج کے بعد جن بھی تین خواہشات کا اظہار کرو ،سوچ سمجھ کر کرنا‘‘۔ارم حیرت سے کھڑی بڑھیا کا مسکراتا چہرہ تک رہی تھی کہ بھلا وہ اس کے اور ان کے گھریلو حالات کے بارے میں اتنا کچھ کیسے جانتی ہے،لیکن اس سے پہلے کہ ارم کوئی سوال کر کے اپنی الجھن دور کرتی ،دیکھتے ہی دیکھتے بڑھیا نظرو ں سے اوجھل ہو گئی۔اتنے میں عبداللہ نے آواز دی’’آ بھی جائو ارم کہا ں رہ گئی ہو‘‘۔شوہر کی آواز سنتے ہی ارم تیزی سے واپس پلٹی اور جا کر اسے ساری بات بتا دی۔بیوی کی بات سن کر عبداللہ ہنسنے لگا اور بولا’’یوں لوگو ں کی خواہشات پوری ہونے لگتیں تو آج سب لوگ کھانے کی پلیٹ پکڑ کر دروازے پہ کسی مانگنے والے کا انتظار کیا کرتے‘‘۔شوہر کی بات سن کر ارم نے بھی سرجھٹک دیا کہ خدا جانے اس میں کوئی حقیقت ہے بھی یا نہیں۔
اب کھانے کے لیے صرف ایک ہی پلیٹ موجود تھی۔عبداللہ اپنی پلیٹ ارم کی جانب سرکاتے ہوئے بولا’’اب جس قدر کھانا موجود ہے دونوں اس میں سے ہی مل کے کھا لیتے ہیں‘‘۔ارم بولی’’میرا دل چاہتا ہے کہ آپ کے لیے روزانہ طرح طرح کے کھانے بنائوں لیکن کیا کروں حالات ہی اجازت نہیں دیتے۔مجبوری میں روزانہ کوئی نہ کوئی دال یا سبزی بنانی پڑتی ہے۔کاش ہمارے پاس اتنے پیسے ہوتے کہ آج ہم لذیذ پکوان کھا رہے ہوتے‘‘۔ارم کے منہ سے اس خواہش کانکلنا تھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے ان کے سامنے سات قسم کے پکوانوں کا ڈھیر لگ گیا۔حیرت سے ارم اور عبداللہ کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ان کا پورا گھر کھانوں کی خوشبو سے مہک رہا تھا۔حیرت سے عبداللہ بولا’’اس کا مطلب بڑھیا کی بات سچ تھی۔وہ ضرور کوئی نیک پری تھی جو آج ہمارا امتحا ن لینے آئی تھی،اور نیکی کرنے کے بدلے اب وہ تمہاری تین خواہشات پوری کرے گی‘‘۔ارم کے چہرے پر خوشی کے آثار تھے ۔اس نے اللہ کا شکر ادا کیا اور دونوں نے مل کر خوب پیٹ بھر کے کھانا کھایا۔جو کھانا بچ گیا وہ بھی لالچ میں آ کر بچایا نہیں بلکہ آس پڑوس میں بانٹ دیا،پھر ان دونوں نے مل کر سوچنا شروع کیا کہ اگلی دو خواہشات کیا ہونی چاہیے۔ارم بولی’’ میں بس اتنا جانتی ہوں کہ ہم جو بھی مانگیں اس میں لالچ شامل نہیں ہونا چاہیے‘‘۔عبداللہ نے بھی ارم کی بات سے اتفاق کیا ۔فیصلہ کر لینے کے بعد انہوں نے ایک اچھا گھر او ر زمین مانگ لی جس پر وہ تمام عمر کھیتی باڑی کر کے محنت سے کماتے رہیں تا کہ ان کے ذہن میں غرور نہ سمائے اور باقی کی زندگی آرام دہ گھر میں گزارسکیں۔
پیارے بچو!پُرانے وقتوں کی بات ہے کسی چھوٹے سے گائوں میں عبداللہ نامی شخص اپنی بیوی کے ساتھ رہتا تھا۔یہ دونوں مل کر گھر میں مٹی کے برتن بناتے اور انہیں بازار میں جا کر بیچ دیا کرتے تھے۔عبداللہ مٹی کے برتن تیار کرتا اور خشک ہونے پر اس کی بیوی ارم برتنوں پر خوبصورت رنگ کر کے انہیں سجا دیا کرتی تھی۔اکثر برتن بازار جاتے ہی ہاتھوں ہاتھ بک جایا کرتے اور کبھی کبھار کئی دنوں تک گاہک نہ ملتا۔اس کے باوجود دونوں میاں بیوی صبر شکر کر کے زندگی گزار رہے تھے۔
پچھلے کچھ دنوں سے عبداللہ زیادہ برتن بیچنے میں ناکام رہا تھااور اسی وجہ سے گھر میں خاص پیسے بھی موجود نہیں تھے۔شام کو کام سے فارغ ہو کر ارم نے گھر میں پڑے تھوڑے سے چاول اُبالے اور ساتھ دال بنا لی۔کھانا اتنا ہی تھا کہ وہ دونوں کھا کر اپنی بھوک مٹا سکتے۔ابھی انہوں نے کھانا پلیٹ میں ڈالا ہی تھا کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔ارم اپنی پلیٹ دستر خوان پر ہی رکھ کے دروازے کی جانب لپکی۔کیا دیکھتی ہے کہ دروازے پر نہایت ضعیف خاتون کھڑی ہے،جس کی کمر جھکی ہوئی ہے۔ارم کو دیکھ کر اس نے ہاتھ منہ کی طرف لے جاتے ہوئے کھانے کا اشارہ کیا اور اپنی کمزور سی آواز میں بولی’’بیٹی! میں کئی دنوں سے بھوکی ہوں،کیا مجھے کچھ کھانے کو ملے گا‘‘؟
بڑھیا کی حالت دیکھ کر ارم کو بے حد ترس آیا ۔وہ جلدی سے اندر گئی اور اپنی پلیٹ دستر خوان سے اٹھانے لگی۔عبداللہ سوالیہ نظروں سے ارم کی جانب دیکھتے ہوئے بولا’’یہ لے کر کہاں جا رہی ہو‘‘؟ارم بولی’’واپس آ کر آپ کو بتاتی ہوں‘‘۔اتنا کہہ کے ارم دروازے کی جانب بڑھی اور کھانے کی پلیٹ بڑھیا کی جانب بڑھاتے ہوئے بولی’’اماں! اس وقت جو کھانے کے لیے موجود تھا وہ میں لے آئی ہوں‘‘۔بڑھیا پلیٹ پکڑ کر مسکراتے ہوئے بولی’’میرے لیے اتنا ہی کافی ہے۔تم نیک دل کی صابر لڑکی ہو۔تم نے اپنے گھریلو حالات کے باعث کبھی شوہر سے کسی خواہش کا اظہار نہیں کیا،لیکن یاد رکھنا آج کے بعد جن بھی تین خواہشات کا اظہار کرو ،سوچ سمجھ کر کرنا‘‘۔ارم حیرت سے کھڑی بڑھیا کا مسکراتا چہرہ تک رہی تھی کہ بھلا وہ اس کے اور ان کے گھریلو حالات کے بارے میں اتنا کچھ کیسے جانتی ہے،لیکن اس سے پہلے کہ ارم کوئی سوال کر کے اپنی الجھن دور کرتی ،دیکھتے ہی دیکھتے بڑھیا نظرو ں سے اوجھل ہو گئی۔اتنے میں عبداللہ نے آواز دی’’آ بھی جائو ارم کہا ں رہ گئی ہو‘‘۔شوہر کی آواز سنتے ہی ارم تیزی سے واپس پلٹی اور جا کر اسے ساری بات بتا دی۔بیوی کی بات سن کر عبداللہ ہنسنے لگا اور بولا’’یوں لوگو ں کی خواہشات پوری ہونے لگتیں تو آج سب لوگ کھانے کی پلیٹ پکڑ کر دروازے پہ کسی مانگنے والے کا انتظار کیا کرتے‘‘۔شوہر کی بات سن کر ارم نے بھی سرجھٹک دیا کہ خدا جانے اس میں کوئی حقیقت ہے بھی یا نہیں۔
اب کھانے کے لیے صرف ایک ہی پلیٹ موجود تھی۔عبداللہ اپنی پلیٹ ارم کی جانب سرکاتے ہوئے بولا’’اب جس قدر کھانا موجود ہے دونوں اس میں سے ہی مل کے کھا لیتے ہیں‘‘۔ارم بولی’’میرا دل چاہتا ہے کہ آپ کے لیے روزانہ طرح طرح کے کھانے بنائوں لیکن کیا کروں حالات ہی اجازت نہیں دیتے۔مجبوری میں روزانہ کوئی نہ کوئی دال یا سبزی بنانی پڑتی ہے۔کاش ہمارے پاس اتنے پیسے ہوتے کہ آج ہم لذیذ پکوان کھا رہے ہوتے‘‘۔ارم کے منہ سے اس خواہش کانکلنا تھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے ان کے سامنے سات قسم کے پکوانوں کا ڈھیر لگ گیا۔حیرت سے ارم اور عبداللہ کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ان کا پورا گھر کھانوں کی خوشبو سے مہک رہا تھا۔حیرت سے عبداللہ بولا’’اس کا مطلب بڑھیا کی بات سچ تھی۔وہ ضرور کوئی نیک پری تھی جو آج ہمارا امتحا ن لینے آئی تھی،اور نیکی کرنے کے بدلے اب وہ تمہاری تین خواہشات پوری کرے گی‘‘۔ارم کے چہرے پر خوشی کے آثار تھے ۔اس نے اللہ کا شکر ادا کیا اور دونوں نے مل کر خوب پیٹ بھر کے کھانا کھایا۔جو کھانا بچ گیا وہ بھی لالچ میں آ کر بچایا نہیں بلکہ آس پڑوس میں بانٹ دیا،پھر ان دونوں نے مل کر سوچنا شروع کیا کہ اگلی دو خواہشات کیا ہونی چاہیے۔ارم بولی’’ میں بس اتنا جانتی ہوں کہ ہم جو بھی مانگیں اس میں لالچ شامل نہیں ہونا چاہیے‘‘۔عبداللہ نے بھی ارم کی بات سے اتفاق کیا ۔فیصلہ کر لینے کے بعد انہوں نے ایک اچھا گھر او ر زمین مانگ لی جس پر وہ تمام عمر کھیتی باڑی کر کے محنت سے کماتے رہیں تا کہ ان کے ذہن میں غرور نہ سمائے اور باقی کی زندگی آرام دہ گھر میں گزارسکیں۔