I
intelligent086
Guest
آدھی سلطنت انعام
ایک بادشاہ کافی عرصہ سے بیمار تھا‘ جب اسے بچنے کی کوئی امید باقی نہ رہی تو اس نے ایک عجیب وغریب اعلان کروا دیا کہ میرے مرنے کے بعد میری تدفین سے پہلے جو شخص ایک رات میری قبر میں گزارے گا‘ اسے آدھی سلطنت انعام میں دی جائے گی لیکن کئی بار منادی کروانے کے باوجودکوئی نہ آیا... اڑتی اڑتی یہ خبر ملک کے دور دراز علاقے میں ایک مفلوک الحال شخص تک بھی جا پہنچی جس کی کل کائنات ایک جھونپڑی اور ایک گدھا تھا۔ دن بھر وہ گدھے پر وزن لادھ کر محنت مزدوری کرتا اور شام ڈھلنے کے بعد کو جھونپڑی میں آکر پڑا رہتا۔ بادشاہ کا یہ اعلان سن کر اس نے سوچا کہ ساری زندگی فاقہ کشی اور محنت مزدوری میں گزر گئی... ایک رات ہی کی تو بات ہے، اس کے بدلے آدھی سلطنت مل گئی تو باقی زندگی عیش و آرام سے گزر سکتی ہے۔ اسی سوچ کے تحت وہ بادشاہ کے دربار جا پہنچا۔ دربانوں نے محل میں اطلاع دی کہ ایک شخص آیا ہے اور وہ بادشاہ سلامت کی قبر میں ایک رات گزارنے پر راضی ہے۔ بادشاہ نے اطلاع پاتے ہی اسے اندر بلا لیا اور اپنے وزیروں سے کہا کہ اسے شاہی مہمان بنا کر رکھا جائے اور میرا انتقال ہوتے ہی اسے میرے لیے کھودی گئی قبر میں ایک رات کے لیے لٹا دیا جائے اور صبح ہوتے ہی اسے قبر سے نکالنے کے بعد نہلا دھلا کر قیمتی پوشاک پہنائی جائے اور آدھی سلطنت اس کے حوالے کر دی جائے۔ بادشاہ کی روح قبض ہوتے ہی اس کی وصیت کے عین مطابق اس شخص کو قبر میں لٹا دیا گیا، رات کے آخری پہر میں حساب پر مامور فرشتے آ گئے، انہیں دیکھتے ہی وہ شخص اٹھ کے بیٹھ گیا اور بولا ''یہ قبر میری نہیں، میں تو یہاں صرف ایک رات کے لیے آیا ہوں، اس قبر کا اصل مکین صبح ہوتے ہی آ جائے گا‘‘۔ جواب ملا کہ اس وقت تو تم ہی موجود ہو حساب تمھیں دینا پڑے گا، وہ جب آئے گا‘ اس کا حساب تب کرلیں گے۔
خیر! اس کا حساب شروع کیا اور کہا گیا کہ تم نے فلاں وقت اپنے گدھے کو کھانا نہیں دیا تھا لہٰذا تمھیں اس ظلم پر دو سو کوڑے پڑیں گے۔ کوڑے کھا کر ابھی سیدھا ہی ہوا تھا کہ ایک اور مقدمہ تیار تھا کہ فلاں وقت گدھے پر اس کی ہمت سے کہیں زیادہ وزن لاد دیا تھا۔ ''زیادہ وزن کی وجہ سے گدھا ٹھیک سے چل بھی نہیں پا رہا تھا لیکن تم نے اس پر چابک برسائے جس پر گدھا تڑپ کر رہ گیا تھا، تمھیں اس پر ترس نہیں آیا اور تم نے اس سے اپنا پورا کام لیا۔ اس بے رحمی پر تمھیں تین سو کوڑے لگائے جائیں گے‘‘۔ مزید تین سو کوڑے کھانے کے بعد وہ اٹھنے لگا تو اسے کہا گیا کہ ابھی لیٹے رہو،ابھی تمھاری سزا باقی ہے۔ پوچھنے پر اس شخص کو بتایا گیا کہ فلاں وقت طوفانی بارش تھی اور ساری رات گدھا بھیگتا اور ٹھٹھرتا رہا لیکن تم مزے سے بستر میں سوتے رہے۔ تمھاری سفاکی پر دو سو کوڑے لگیں گے۔ مزید دو سو کوڑے کھانے کے بعد وہ ادھ موا ہوکر ایک طرف لڑھک گیا اور دل ہی دل میں دعا کرنے لگا کہ کب صبح ہو اور وہ قبر سے باہر نکلے۔ صبح ہونے سے پہلے اسے مزید سو کوڑے لگائے گئے کہ قبر میں آنے سے پہلے اس نے اپنے گدھے کو چارہ نہیں دیا جس کی وجہ سے وہ ساری رات بھوکا رہا۔
صبح ہوتے ہی بادشاہ کی وصیت کے مطابق اس شخص کو قبر سے نکالنے کے لیے قبر کھولی گئی تو کوڑے کھا کھا کر اس ادھ مرے شخص میں بجلی سی کوند گئی۔ باہر نکلتے ہی وہ سرپٹ دوڑ پڑا... وزرا اور درباری اسے آوازیں دیتے رہے لیکن اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا ۔شاہی دربانوں کو اس کے تعاقب میں دوڑایا گیا جو اسے جلد ہی پکڑ لائے تو وزیروں نے اس شخص سے کہا کہ تم شرط پوری کرکے آدھی سلطنت کے حقدار بن چکے ہو۔ اب تمھارے ٹھاٹ باٹ کے دن آئے ہیں تو تم بھاگ کیوں رہے ہو؟ وہ شخص ہاتھ جوڑ کر روتے ہوئے بولا کہ مجھے کچھ نہیں چاہیے۔ بس مجھے جانے دو! میں تو ایک گدھے کا حساب نہیں دے پایا‘ آدھی سلطنت کا حساب کیسے دوں گا؟
ایک بادشاہ کافی عرصہ سے بیمار تھا‘ جب اسے بچنے کی کوئی امید باقی نہ رہی تو اس نے ایک عجیب وغریب اعلان کروا دیا کہ میرے مرنے کے بعد میری تدفین سے پہلے جو شخص ایک رات میری قبر میں گزارے گا‘ اسے آدھی سلطنت انعام میں دی جائے گی لیکن کئی بار منادی کروانے کے باوجودکوئی نہ آیا... اڑتی اڑتی یہ خبر ملک کے دور دراز علاقے میں ایک مفلوک الحال شخص تک بھی جا پہنچی جس کی کل کائنات ایک جھونپڑی اور ایک گدھا تھا۔ دن بھر وہ گدھے پر وزن لادھ کر محنت مزدوری کرتا اور شام ڈھلنے کے بعد کو جھونپڑی میں آکر پڑا رہتا۔ بادشاہ کا یہ اعلان سن کر اس نے سوچا کہ ساری زندگی فاقہ کشی اور محنت مزدوری میں گزر گئی... ایک رات ہی کی تو بات ہے، اس کے بدلے آدھی سلطنت مل گئی تو باقی زندگی عیش و آرام سے گزر سکتی ہے۔ اسی سوچ کے تحت وہ بادشاہ کے دربار جا پہنچا۔ دربانوں نے محل میں اطلاع دی کہ ایک شخص آیا ہے اور وہ بادشاہ سلامت کی قبر میں ایک رات گزارنے پر راضی ہے۔ بادشاہ نے اطلاع پاتے ہی اسے اندر بلا لیا اور اپنے وزیروں سے کہا کہ اسے شاہی مہمان بنا کر رکھا جائے اور میرا انتقال ہوتے ہی اسے میرے لیے کھودی گئی قبر میں ایک رات کے لیے لٹا دیا جائے اور صبح ہوتے ہی اسے قبر سے نکالنے کے بعد نہلا دھلا کر قیمتی پوشاک پہنائی جائے اور آدھی سلطنت اس کے حوالے کر دی جائے۔ بادشاہ کی روح قبض ہوتے ہی اس کی وصیت کے عین مطابق اس شخص کو قبر میں لٹا دیا گیا، رات کے آخری پہر میں حساب پر مامور فرشتے آ گئے، انہیں دیکھتے ہی وہ شخص اٹھ کے بیٹھ گیا اور بولا ''یہ قبر میری نہیں، میں تو یہاں صرف ایک رات کے لیے آیا ہوں، اس قبر کا اصل مکین صبح ہوتے ہی آ جائے گا‘‘۔ جواب ملا کہ اس وقت تو تم ہی موجود ہو حساب تمھیں دینا پڑے گا، وہ جب آئے گا‘ اس کا حساب تب کرلیں گے۔
خیر! اس کا حساب شروع کیا اور کہا گیا کہ تم نے فلاں وقت اپنے گدھے کو کھانا نہیں دیا تھا لہٰذا تمھیں اس ظلم پر دو سو کوڑے پڑیں گے۔ کوڑے کھا کر ابھی سیدھا ہی ہوا تھا کہ ایک اور مقدمہ تیار تھا کہ فلاں وقت گدھے پر اس کی ہمت سے کہیں زیادہ وزن لاد دیا تھا۔ ''زیادہ وزن کی وجہ سے گدھا ٹھیک سے چل بھی نہیں پا رہا تھا لیکن تم نے اس پر چابک برسائے جس پر گدھا تڑپ کر رہ گیا تھا، تمھیں اس پر ترس نہیں آیا اور تم نے اس سے اپنا پورا کام لیا۔ اس بے رحمی پر تمھیں تین سو کوڑے لگائے جائیں گے‘‘۔ مزید تین سو کوڑے کھانے کے بعد وہ اٹھنے لگا تو اسے کہا گیا کہ ابھی لیٹے رہو،ابھی تمھاری سزا باقی ہے۔ پوچھنے پر اس شخص کو بتایا گیا کہ فلاں وقت طوفانی بارش تھی اور ساری رات گدھا بھیگتا اور ٹھٹھرتا رہا لیکن تم مزے سے بستر میں سوتے رہے۔ تمھاری سفاکی پر دو سو کوڑے لگیں گے۔ مزید دو سو کوڑے کھانے کے بعد وہ ادھ موا ہوکر ایک طرف لڑھک گیا اور دل ہی دل میں دعا کرنے لگا کہ کب صبح ہو اور وہ قبر سے باہر نکلے۔ صبح ہونے سے پہلے اسے مزید سو کوڑے لگائے گئے کہ قبر میں آنے سے پہلے اس نے اپنے گدھے کو چارہ نہیں دیا جس کی وجہ سے وہ ساری رات بھوکا رہا۔
صبح ہوتے ہی بادشاہ کی وصیت کے مطابق اس شخص کو قبر سے نکالنے کے لیے قبر کھولی گئی تو کوڑے کھا کھا کر اس ادھ مرے شخص میں بجلی سی کوند گئی۔ باہر نکلتے ہی وہ سرپٹ دوڑ پڑا... وزرا اور درباری اسے آوازیں دیتے رہے لیکن اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا ۔شاہی دربانوں کو اس کے تعاقب میں دوڑایا گیا جو اسے جلد ہی پکڑ لائے تو وزیروں نے اس شخص سے کہا کہ تم شرط پوری کرکے آدھی سلطنت کے حقدار بن چکے ہو۔ اب تمھارے ٹھاٹ باٹ کے دن آئے ہیں تو تم بھاگ کیوں رہے ہو؟ وہ شخص ہاتھ جوڑ کر روتے ہوئے بولا کہ مجھے کچھ نہیں چاہیے۔ بس مجھے جانے دو! میں تو ایک گدھے کا حساب نہیں دے پایا‘ آدھی سلطنت کا حساب کیسے دوں گا؟