I
intelligent086
Guest
انگوٹھی چور ۔۔۔۔۔ تحریر : نعمان خان
پیارے بچو!کسی گائوں میں سلیم نامی ایک مرغی فروش رہتا تھا۔گائوں چھوٹا ہونے اور آبادی کم ہونے کے سبب پورے گائوں میں مرغی کی ایک ہی دکان تھی۔
سلیم اپنے کام کا ماہر لیکن انتہائی بد اخلاق انسان تھا۔گائوں والے اسے قطعی پسند نہیں کرتے تھے ،لیکن واحد دکان ہونے کے سبب اسی سے گوشت خریدنا بھی مجبوری تھی۔مرغی کی دکان کے ساتھ ہی سلمان نامی آدمی کی مٹھائیوں کی دکان تھی،جو خوب چلتی تھی۔اس کی وجہ مٹھائی کا بہترین ذائقہ ہونے کے ساتھ ساتھ سلمان کا اخلا ق تھا۔وہ ہر گاہک سے خوش اخلاقی سے بات کرتا اور اس کی ایمانداری کا بھی پورا گائوں قائل تھا۔اس کی مٹھائی میں نہ کبھی ملاوٹ ہوتی تھی اور نہ ذائقے میں کبھی کوئی فرق محسوس ہوا تھا۔سلمان کو لوگ اس قدر پسند کرتے تھے کہ اس کے پاس اکثر اپنی امانتیں تک رکھوا جایا کرتے تھے،جبکہ دوسری جانب سلیم دن بھر مرغی کا گوشت فروخت کرتا اور پیسے کے لالچ میں رات کو اکثر چوریاں کرنے نکل جاتا۔
گائوں والے پریشا ن رہتے تھے کہ اتنے چھوٹے سے گائوں میں جہاں کوئی اجنبی نہیں ہے،وہاں بھلا کون ان کے گھر سے قیمتی سامان چراتا ہے۔گائوں کے کچھ لوگوں کا ماننا تھا کہ جنات اور بھوت یہ کام کرتے ہیں،لیکن اب تک کسی کو بھی چور کا سراغ نہیں ملا تھا۔
ایک بار ایسا ہوا کہ سلمان کے پاس گائوں کا ایک آدمی آیا۔وہ چھوٹی سے لال ڈبیا سلمان کی جانب بڑھاتے ہوئے بولا’’بھائی! میں چند روز کے لیے شہر جا رہا ہوں۔جب تک میں واپس نہیں آ جاتا تب تک برائے مہربانی میرے باپ دادا کے وقت کی یہ قیمتی انگوٹھی اپنے پاس بطور امانت رکھ لو‘‘۔سلمان نے انگوٹھی سنبھال کر رکھنے کی حامی بھر لی،لیکن اسی وقت پاس کی دکان پر بیٹھا سلیم آنکھیں موڑے چور نظروں سے سلمان کے ہاتھ میں موجود انگوٹھی والی ڈبیا دیکھ رہا تھا اور اپنے ذہن میں منصوبہ بنا رہا تھا۔سلمان نے گھر جا کر اپنی بیوی کو انگوٹھی تھمائی اور ساتھ ہی اسے سنبھال کر رکھنے کی تلقین کی۔بیوی نے وہ انگوٹھی الماری میں محفوظ مقام پر رکھ دی۔رات آدھی سے زیادہ بیت چکی تو سلیم دبے قدموں سلمان کے گھر میں داخل ہوا اور تھوڑی ہی دیر میں وہ انگوٹھی تلاش کرنے میں کامیاب بھی ہو گیا۔وہ دل ہی دل میں بیش قیمت انگوٹھی پا کر بے حد خوش تھا،اور سوچ رہا تھا کہ چند ہی روز بعد اسے شہر جا کر مہنگے داموں بیچ دے گا۔سلمان اس انگوٹھی کو کسی ایسی جگہ رکھنا چاہتا تھا جہاں کسی کا گمان بھی نہ ہو۔اچھی طرح سوچنے کے بعد اس نے انگوٹھی ڈبیا سے نکال کر مرغیوں کے دانے والے ڈبے میں باجرے کے اندر دبا دی۔
چند روز یونہی گزر گئے اور مصروفیت کے باعث سلیم شہر نہ جا سکا۔اس سے پہلے کہ وہ انگوٹھی بیچنے شہر جاتا ،ایک دن وہ دکان پر موجود تھا کہ اچانک سلمان کے پاس وہی آدمی آیا جس نے اپنی انگوٹھی بطور امانت رکھوائی تھی۔اس نے سلمان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اسے انگوٹھی واپس دینے کا کہا تو وہ اسے دکان پر ہی بٹھا کر انگوٹھی لینے گھر چلا گیا۔اپنی بیوی سے انگوٹھی لانے کو کہا تو پورا گھر چھان مارنے کے باوجودا نہیں کہیں انگوٹھی نہ ملی۔سلمان جانتا تھا کہ اس کی بیو ی لاپرواہ نہیں ہے اس لیے وہ بھی پریشان ہو گیا کہ آخر انگوٹھی کہاں گئی۔دکان پر واپس جا کے اس نے آدمی کو بتایا کہ اس کی بیوی انگوٹھی رکھ کر بھول گئی ہے اس لیے وہ کل آ کر لے جائے۔سلمان کی ایمانداری سے سبھی واقف تھے۔اس لیے وہ آدمی سلمان کو تسلی دیتے ہوئے گھر چلا گیا،لیکن انگوٹھی کو نہ ملنا تھا اور نہ ملی۔
سلیم نے ارادہ کیا کہ اس سے پہلے بات مزید پھیلے وہ آج کل میں ہی شہر جا کر انگوٹھی بیچ آئے گا،لیکن شام کو گھر جا کے جب اس نے مرغیوں کے دانے والے ڈبے میں دیکھا تو انگوٹھی غائب تھی۔پورا ڈبہ پلٹنے کے بعد اس نے الماری اور گھر بھر میں تلاش کر لیا لیکن کہیں انگوٹھی نہ ملی۔اگلے روز سلمان اپنی دکان پر پریشان بیٹھا تھا کہ امانت کھو جانے کے بارے میں کیا جواب دے گا اور دوسر ی جانب سلیم سوچوں میں گم تھا کہ آخر انگوٹھی کہاں گئی۔اتنے میں وہی آدمی دکان پر آ پہنچا لیکن سلمان کے پا س جانے سے پہلے اس نے سوچا کہ سلیم سے گھر کے لیے مرغی کاگوشت بنوا لے۔اب جو گوشت بناتے بناتے سلیم نے مرغی کو کاٹا تو اس کے پیٹ سے وہی انگوٹھی بر آمد ہوئی جو اس آدمی نے بطور امانت سلمان کے پاس رکھوائی تھی۔آس پاس موجود سب لوگ حیرت سے انگوٹھی کو دیکھ رہے تھے جبکہ سلیم،سلمان اور انگوٹھی کا مالک ساری بات سمجھ چکے تھے۔سلیم سے مرغیوں کو باجرہ ڈالتے ہوئے انگوٹھی بھی زمین پر گر گئی تھی جسے مرغی نے باجرے کے ساتھ نکل لیا تھا،اور یوں سلیم کا سارا پول کھل گیا۔
پیارے بچو!کسی گائوں میں سلیم نامی ایک مرغی فروش رہتا تھا۔گائوں چھوٹا ہونے اور آبادی کم ہونے کے سبب پورے گائوں میں مرغی کی ایک ہی دکان تھی۔
سلیم اپنے کام کا ماہر لیکن انتہائی بد اخلاق انسان تھا۔گائوں والے اسے قطعی پسند نہیں کرتے تھے ،لیکن واحد دکان ہونے کے سبب اسی سے گوشت خریدنا بھی مجبوری تھی۔مرغی کی دکان کے ساتھ ہی سلمان نامی آدمی کی مٹھائیوں کی دکان تھی،جو خوب چلتی تھی۔اس کی وجہ مٹھائی کا بہترین ذائقہ ہونے کے ساتھ ساتھ سلمان کا اخلا ق تھا۔وہ ہر گاہک سے خوش اخلاقی سے بات کرتا اور اس کی ایمانداری کا بھی پورا گائوں قائل تھا۔اس کی مٹھائی میں نہ کبھی ملاوٹ ہوتی تھی اور نہ ذائقے میں کبھی کوئی فرق محسوس ہوا تھا۔سلمان کو لوگ اس قدر پسند کرتے تھے کہ اس کے پاس اکثر اپنی امانتیں تک رکھوا جایا کرتے تھے،جبکہ دوسری جانب سلیم دن بھر مرغی کا گوشت فروخت کرتا اور پیسے کے لالچ میں رات کو اکثر چوریاں کرنے نکل جاتا۔
گائوں والے پریشا ن رہتے تھے کہ اتنے چھوٹے سے گائوں میں جہاں کوئی اجنبی نہیں ہے،وہاں بھلا کون ان کے گھر سے قیمتی سامان چراتا ہے۔گائوں کے کچھ لوگوں کا ماننا تھا کہ جنات اور بھوت یہ کام کرتے ہیں،لیکن اب تک کسی کو بھی چور کا سراغ نہیں ملا تھا۔
ایک بار ایسا ہوا کہ سلمان کے پاس گائوں کا ایک آدمی آیا۔وہ چھوٹی سے لال ڈبیا سلمان کی جانب بڑھاتے ہوئے بولا’’بھائی! میں چند روز کے لیے شہر جا رہا ہوں۔جب تک میں واپس نہیں آ جاتا تب تک برائے مہربانی میرے باپ دادا کے وقت کی یہ قیمتی انگوٹھی اپنے پاس بطور امانت رکھ لو‘‘۔سلمان نے انگوٹھی سنبھال کر رکھنے کی حامی بھر لی،لیکن اسی وقت پاس کی دکان پر بیٹھا سلیم آنکھیں موڑے چور نظروں سے سلمان کے ہاتھ میں موجود انگوٹھی والی ڈبیا دیکھ رہا تھا اور اپنے ذہن میں منصوبہ بنا رہا تھا۔سلمان نے گھر جا کر اپنی بیوی کو انگوٹھی تھمائی اور ساتھ ہی اسے سنبھال کر رکھنے کی تلقین کی۔بیوی نے وہ انگوٹھی الماری میں محفوظ مقام پر رکھ دی۔رات آدھی سے زیادہ بیت چکی تو سلیم دبے قدموں سلمان کے گھر میں داخل ہوا اور تھوڑی ہی دیر میں وہ انگوٹھی تلاش کرنے میں کامیاب بھی ہو گیا۔وہ دل ہی دل میں بیش قیمت انگوٹھی پا کر بے حد خوش تھا،اور سوچ رہا تھا کہ چند ہی روز بعد اسے شہر جا کر مہنگے داموں بیچ دے گا۔سلمان اس انگوٹھی کو کسی ایسی جگہ رکھنا چاہتا تھا جہاں کسی کا گمان بھی نہ ہو۔اچھی طرح سوچنے کے بعد اس نے انگوٹھی ڈبیا سے نکال کر مرغیوں کے دانے والے ڈبے میں باجرے کے اندر دبا دی۔
چند روز یونہی گزر گئے اور مصروفیت کے باعث سلیم شہر نہ جا سکا۔اس سے پہلے کہ وہ انگوٹھی بیچنے شہر جاتا ،ایک دن وہ دکان پر موجود تھا کہ اچانک سلمان کے پاس وہی آدمی آیا جس نے اپنی انگوٹھی بطور امانت رکھوائی تھی۔اس نے سلمان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اسے انگوٹھی واپس دینے کا کہا تو وہ اسے دکان پر ہی بٹھا کر انگوٹھی لینے گھر چلا گیا۔اپنی بیوی سے انگوٹھی لانے کو کہا تو پورا گھر چھان مارنے کے باوجودا نہیں کہیں انگوٹھی نہ ملی۔سلمان جانتا تھا کہ اس کی بیو ی لاپرواہ نہیں ہے اس لیے وہ بھی پریشان ہو گیا کہ آخر انگوٹھی کہاں گئی۔دکان پر واپس جا کے اس نے آدمی کو بتایا کہ اس کی بیوی انگوٹھی رکھ کر بھول گئی ہے اس لیے وہ کل آ کر لے جائے۔سلمان کی ایمانداری سے سبھی واقف تھے۔اس لیے وہ آدمی سلمان کو تسلی دیتے ہوئے گھر چلا گیا،لیکن انگوٹھی کو نہ ملنا تھا اور نہ ملی۔
سلیم نے ارادہ کیا کہ اس سے پہلے بات مزید پھیلے وہ آج کل میں ہی شہر جا کر انگوٹھی بیچ آئے گا،لیکن شام کو گھر جا کے جب اس نے مرغیوں کے دانے والے ڈبے میں دیکھا تو انگوٹھی غائب تھی۔پورا ڈبہ پلٹنے کے بعد اس نے الماری اور گھر بھر میں تلاش کر لیا لیکن کہیں انگوٹھی نہ ملی۔اگلے روز سلمان اپنی دکان پر پریشان بیٹھا تھا کہ امانت کھو جانے کے بارے میں کیا جواب دے گا اور دوسر ی جانب سلیم سوچوں میں گم تھا کہ آخر انگوٹھی کہاں گئی۔اتنے میں وہی آدمی دکان پر آ پہنچا لیکن سلمان کے پا س جانے سے پہلے اس نے سوچا کہ سلیم سے گھر کے لیے مرغی کاگوشت بنوا لے۔اب جو گوشت بناتے بناتے سلیم نے مرغی کو کاٹا تو اس کے پیٹ سے وہی انگوٹھی بر آمد ہوئی جو اس آدمی نے بطور امانت سلمان کے پاس رکھوائی تھی۔آس پاس موجود سب لوگ حیرت سے انگوٹھی کو دیکھ رہے تھے جبکہ سلیم،سلمان اور انگوٹھی کا مالک ساری بات سمجھ چکے تھے۔سلیم سے مرغیوں کو باجرہ ڈالتے ہوئے انگوٹھی بھی زمین پر گر گئی تھی جسے مرغی نے باجرے کے ساتھ نکل لیا تھا،اور یوں سلیم کا سارا پول کھل گیا۔
Anghothi Chor By Nauman Khan