I
intelligent086
Guest
عقلمند بھینسا(پہلی قسط) ۔۔۔۔ نعمان خان
پیارے بچو!دور کسی علاقے میں ایک کسان رہتا تھا۔اس کے پاس ایک بھینسا تھا جس سے وہ کھیتی باڑی کرنے اور زمین پر ہل چلانے کے لیے مدد لیتا تھا۔یہ بھینسا نہایت ہی طاقتور اور اپنے مالک کا وفادار بھی تھا۔کئی سال یونہی گزر گئے تو ایک روز کسان نے محسوس کیا کہ اب اس کا بھینسا بوڑھا ہونے لگا ہے اور اس میں پہلے جیسی ہمت باقی نہیں رہی۔
وہ تھوڑی دیر ہی ہل چلانے کے بعد ہانپنے لگتا تھا،اور کسان کو اپنے پیارے جانور کی اس حالت پر ترس آنے لگتا۔آخر ایک روز اس نے فیصلہ کیا کہ وہ بھینسے کو باقی کی زندگی صرف آرام کروائے گا۔اگلے دن ہی وہ باڑے میں آیا اور بھینسے کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا’’میرے پیارے جانور!تم نے میرا بہت ساتھ دیا ہے۔اس کے لیے میں تمہارا بے حد مشکور بھی ہوں،لیکن اب مزید میں تم سے کوئی کام نہیں لینا چاہتا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ اب تمہارے آرام کرنے کے دن ہیں۔اس لیے چاہتا ہوں کہ باقی زندگی تم گھوم پھر کر مستی کرتے ہوئے گزارو‘‘۔
بھینسا گردن موڑ کر اپنے مالک کی جانب دیکھنے لگا تو کسان پھر گویا ہوا’’میرے گھر کے دروازے تمہارے لیے ہمیشہ کھلے رہیں گے تم جب چاہو یہاں واپس آ سکتے ہو،اور ایسا ہر گز مت سوچنا کہ تم اب میرے کام کے نہیں رہے اورمیں تم سے جان چھڑوا رہا ہوں،میں بس اتنا چاہتا ہوں کہ تم جو آج تک اس چھوٹے سے گائوں میں ہی رہے ہو تو اب باہر گھوم پھر کر دیکھ سکو کہ دنیا کتنی حسین ہے اور جنگلوں کی زندگی کیسی ہوتی ہے ۔ گھومنے کے بعد تم جب چاہو میرے پاس واپس آ سکتے ہو‘‘۔
بھینسااپنے مالک سے بے حد محبت کرتا تھا اور تمام عمر اسی کے پاس رہنے کی وجہ سے اسے گائوں سے بھی لگائو ہو گیا تھا۔دل سے وہ خود بھی باہر کی دنیا دیکھنے کا سوچ کر خوش تھا لیکن اندر ہی اندر اُداسی بھی محسوس کر رہا تھا۔رات بھر وہ باڑے میں بیٹھا سوچتا رہا کہ کیا،کیا جائے اور آخر کار ایک نتیجے پر پہنچ کر سو گیا۔
اگلے روز بھینسا اپنے مالک سے ملنے کے بعد گائوں سے باہر کی جانب چل پڑا۔اسے نئے راستوں پر چلنا اچھا لگ رہا تھا۔جہاں دل کرتا وہاں رک کر پانی پی لیتا۔جہاں بھوک محسوس کرتا وہاں کچھ کھانے کو ڈھونڈ لیتا۔اسی طرح چلتے چلتے وہ ایک گھنے جنگل میں جا پہنچا۔اس کی خوبصورتی دیکھ کر بھینسا حیران رہ گیا۔جگہ جگہ تناور گھنے درخت تھے،جن کی چھائوں سخت گرم موسم میں بھی راحت دینے والی تھی۔ جھیل میں رُکا ہوا پانی بھی بے حدلذیذاور ٹھنڈا تھا ۔پورے جنگل میں ہر تھوڑے فاصلے پر رنگ برنگے پھول کھلے تھے۔درختوں پر اتنی قسم کے پھل موجود تھے کہ بھینسا سوچنے لگا ایسے پھل چکھنا تو دور انہیں تو اس نے زندگی میں کبھی دیکھا تک نہیں تھا۔
ٹھنڈی فضاء سے لطف اندو ز ہوتا،پانی سے اپنی پیاس بجھاتا اور قدرت کی لذیذ نعمتیں کھاتا ہوا بھینسا آگے بڑھتا جا رہا تھا۔دن بھر چلتے رہنے کی وجہ سے اب اسے تھکن محسوس ہونے لگی تھی اور ساتھ شام کے سائے بھی گہرے ہو رہے تھے۔بھینسے نے چاہے ساری زندگی گائوں میں گزاری تھی لیکن اس نے جنگل کی زندگی کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا۔وہ بخوبی جانتا تھا کہ جنگل دیکھنے میں جس قدر خوبصورت ہے یہاں اسی قدر خطرہ بھی ہوتا ہے۔جنگلوں میں خوفناک جانور جگہ جگہ گھات لگائے شکار کی تلاش میں بیٹھے ہوتے ہیں۔یہی سوچ کر بھینسا اب اپنے لیے کوئی محفوظ مقام تلاش کرر ہا تھا جہاں وہ پُر سکون ہو کر رات بسر کر سکے۔
چلتے چلتے اُس کی نظر ایک غار پر پڑی جو خالی معلوم ہو رہا تھا۔بھینسے نے سوچا ابھی دن کی روشنی باقی ہے تو کیوں نہ غار کے اندر جا کر دیکھ لیا جائے کہ یہاں رہنا محفوظ ہے یا نہیں آہستگی سے چلتا ہوا بھینسا غار کے اندر جانے لگا ۔یہاں سے کسی قسم کی آواز نہیں آ رہی تھی تب اسے یقین ہونے لگا کہ غار کے اندر کوئی موجود نہیں ہے۔آگے بڑھتے ہوئے اس نے قدرے محفوظ کونہ ڈھونڈا ،تاکہ رات میں اگر کوئی جنگلی جانور غار میں داخل ہو بھی تو اس کی نظر بھینسے پر نہ پڑے۔(جاری ہے)
پیارے بچو!دور کسی علاقے میں ایک کسان رہتا تھا۔اس کے پاس ایک بھینسا تھا جس سے وہ کھیتی باڑی کرنے اور زمین پر ہل چلانے کے لیے مدد لیتا تھا۔یہ بھینسا نہایت ہی طاقتور اور اپنے مالک کا وفادار بھی تھا۔کئی سال یونہی گزر گئے تو ایک روز کسان نے محسوس کیا کہ اب اس کا بھینسا بوڑھا ہونے لگا ہے اور اس میں پہلے جیسی ہمت باقی نہیں رہی۔
وہ تھوڑی دیر ہی ہل چلانے کے بعد ہانپنے لگتا تھا،اور کسان کو اپنے پیارے جانور کی اس حالت پر ترس آنے لگتا۔آخر ایک روز اس نے فیصلہ کیا کہ وہ بھینسے کو باقی کی زندگی صرف آرام کروائے گا۔اگلے دن ہی وہ باڑے میں آیا اور بھینسے کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا’’میرے پیارے جانور!تم نے میرا بہت ساتھ دیا ہے۔اس کے لیے میں تمہارا بے حد مشکور بھی ہوں،لیکن اب مزید میں تم سے کوئی کام نہیں لینا چاہتا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ اب تمہارے آرام کرنے کے دن ہیں۔اس لیے چاہتا ہوں کہ باقی زندگی تم گھوم پھر کر مستی کرتے ہوئے گزارو‘‘۔
بھینسا گردن موڑ کر اپنے مالک کی جانب دیکھنے لگا تو کسان پھر گویا ہوا’’میرے گھر کے دروازے تمہارے لیے ہمیشہ کھلے رہیں گے تم جب چاہو یہاں واپس آ سکتے ہو،اور ایسا ہر گز مت سوچنا کہ تم اب میرے کام کے نہیں رہے اورمیں تم سے جان چھڑوا رہا ہوں،میں بس اتنا چاہتا ہوں کہ تم جو آج تک اس چھوٹے سے گائوں میں ہی رہے ہو تو اب باہر گھوم پھر کر دیکھ سکو کہ دنیا کتنی حسین ہے اور جنگلوں کی زندگی کیسی ہوتی ہے ۔ گھومنے کے بعد تم جب چاہو میرے پاس واپس آ سکتے ہو‘‘۔
بھینسااپنے مالک سے بے حد محبت کرتا تھا اور تمام عمر اسی کے پاس رہنے کی وجہ سے اسے گائوں سے بھی لگائو ہو گیا تھا۔دل سے وہ خود بھی باہر کی دنیا دیکھنے کا سوچ کر خوش تھا لیکن اندر ہی اندر اُداسی بھی محسوس کر رہا تھا۔رات بھر وہ باڑے میں بیٹھا سوچتا رہا کہ کیا،کیا جائے اور آخر کار ایک نتیجے پر پہنچ کر سو گیا۔
اگلے روز بھینسا اپنے مالک سے ملنے کے بعد گائوں سے باہر کی جانب چل پڑا۔اسے نئے راستوں پر چلنا اچھا لگ رہا تھا۔جہاں دل کرتا وہاں رک کر پانی پی لیتا۔جہاں بھوک محسوس کرتا وہاں کچھ کھانے کو ڈھونڈ لیتا۔اسی طرح چلتے چلتے وہ ایک گھنے جنگل میں جا پہنچا۔اس کی خوبصورتی دیکھ کر بھینسا حیران رہ گیا۔جگہ جگہ تناور گھنے درخت تھے،جن کی چھائوں سخت گرم موسم میں بھی راحت دینے والی تھی۔ جھیل میں رُکا ہوا پانی بھی بے حدلذیذاور ٹھنڈا تھا ۔پورے جنگل میں ہر تھوڑے فاصلے پر رنگ برنگے پھول کھلے تھے۔درختوں پر اتنی قسم کے پھل موجود تھے کہ بھینسا سوچنے لگا ایسے پھل چکھنا تو دور انہیں تو اس نے زندگی میں کبھی دیکھا تک نہیں تھا۔
ٹھنڈی فضاء سے لطف اندو ز ہوتا،پانی سے اپنی پیاس بجھاتا اور قدرت کی لذیذ نعمتیں کھاتا ہوا بھینسا آگے بڑھتا جا رہا تھا۔دن بھر چلتے رہنے کی وجہ سے اب اسے تھکن محسوس ہونے لگی تھی اور ساتھ شام کے سائے بھی گہرے ہو رہے تھے۔بھینسے نے چاہے ساری زندگی گائوں میں گزاری تھی لیکن اس نے جنگل کی زندگی کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا۔وہ بخوبی جانتا تھا کہ جنگل دیکھنے میں جس قدر خوبصورت ہے یہاں اسی قدر خطرہ بھی ہوتا ہے۔جنگلوں میں خوفناک جانور جگہ جگہ گھات لگائے شکار کی تلاش میں بیٹھے ہوتے ہیں۔یہی سوچ کر بھینسا اب اپنے لیے کوئی محفوظ مقام تلاش کرر ہا تھا جہاں وہ پُر سکون ہو کر رات بسر کر سکے۔
چلتے چلتے اُس کی نظر ایک غار پر پڑی جو خالی معلوم ہو رہا تھا۔بھینسے نے سوچا ابھی دن کی روشنی باقی ہے تو کیوں نہ غار کے اندر جا کر دیکھ لیا جائے کہ یہاں رہنا محفوظ ہے یا نہیں آہستگی سے چلتا ہوا بھینسا غار کے اندر جانے لگا ۔یہاں سے کسی قسم کی آواز نہیں آ رہی تھی تب اسے یقین ہونے لگا کہ غار کے اندر کوئی موجود نہیں ہے۔آگے بڑھتے ہوئے اس نے قدرے محفوظ کونہ ڈھونڈا ،تاکہ رات میں اگر کوئی جنگلی جانور غار میں داخل ہو بھی تو اس کی نظر بھینسے پر نہ پڑے۔(جاری ہے)