I
intelligent086
Guest
باپ کے قصیدے .... تحریر : ظفر اقبال ظفر
اپنی ہی کمائی سے بنائی ہوئی چیزوں کے طریقۂ استعمال کو بتانے والا باپ کہ دیکھو میرے بچواحتیاط کرنا کہ کہیں کوئی نقصان نہ ہو جائے۔خون پسینے کی کمائی اور اپنے ہی خون کی فکر کون سا باپ نہیں کرتااس تناظر میں کی گئی تاکید اولاد کے پاس جا کر تذلیل کیوں بن جاتی ہے پھر یہی باپ اپنے دُکھ کسی ہمدرد سے سانجھے کرتا ہے تو سننے والا اگر اسی اولاد کو سمجھانے کی کوشش کرے تو یہ گھر آ کر کہتے ہیں پہلے ہمیں گھر میں چین سے جینے نہیں دیتے ہو اب باہر کے لوگوں میںذلیل کرتے ہو۔ بیوی یعنی بچوں کی ماں اپوزیشن لیڈر بن کر کہتی ہے کہ اس نے ساری زندگی مجھے سکھ نہیں لینے دیا اب یہ تمہارے پیچھے پڑا ہے۔باپ حق بات پر بچوں سے متفق ہوتا ہے جبکہ ماں دل و مزاج کی نرمی سے مجبور اولاد کی ہر اچھی بری بات کی حمایت کرتی ہے تو باپ سے زیادہ قریب لگتی ہے اسی جذبے کی بنیاد پر ماں کی محبت کے قصیدے اکثریت میں پڑھے جاتے ہیں مگر باپ کی عظمت بیان کرنے میں کنجوسی کیوں کی جاتی ہے ؟
یہ سچ ہے کہ باپ موت کی آمد کے یقین میں مرگ بستر پربھی پڑا ہوتواپنی آخرت کی بجائے اولاد کی دنیا کی فکر میں مگن ہوتا ہے باپ وہ ہستی ہے جو اپنے بچوں میں مالی کمزوری دیکھتے ہوئے موت سے فریاد کرتا ہے کہ مجھے کچھ عرصے کی مہلت دے دے میری کوشش ہے کہ بچے کسی قابل ہو جائیں۔ باپ بچوں کے مستقبل کے لیے اپنے ہی خونی رشتوں سے بغاوت بھی کر جاتا ہے۔ میں نے ایک غریب باپ کو سردیوں کی راتوں میں کولر میں رکھے گرم انڈے بیچتے دیکھا ہے جو جاگتی آنکھوں میں اطمینان رکھتاہے کہ اس کے بچے سکون کی نیند سو رہے ہیں۔ہوٹل پر لوگوں کے برتن دھوتا باپ خوش ہے کہ اسکے بچوں نے کھانا کھایا ہے ۔لوگوں کے کپڑے استری کرتا دھوبی باپ مطمئن ہے کہ اس کے بچوں کے تن پر لباس ہے۔خطرناک اوزاروں سے اُلجھ کر محنت کرتا باپ اپنے وجود پر زخموں کے نشان قبول کرلیتا ہے کہ اسکے بچوں کا مستقبل صاف ستھرا قائم ہو سکے ۔ خود انگوٹھا چھاپ ہے مگر بچوں کو تعلیم دلا رہا ہے، اپنی دوائیوں کے پیسے بھی بچوں کیلئے چھپا کے رکھتا ہواغریب باپ اپنی بیوی سے پورے یقین کے ساتھ جھوٹ بولتا ہے کہ میں ٹھیک ہوں یہ ایسا کیوں کرتا ہے؟ پوچھیں تو اپنے بازو سے آنسو صاف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں باپ ہوں ۔مگر جب اس کے اپنے ہی بچے اس کی تذلیل کریں شکوے شکایت کریں تو یہ ٹوٹ جاتا ہے، جیتے جی مر جاتا ہے جن بچوں کیلئے دن رات کمائی کی وہ اسکی آنکھوں کے سامنے ضائع بھی کر دیتے تو ان سے رشتہ نہ توڑتا تھا آج وہی بچے اس سے اپنی کمائی کا حساب مانگیں تو یہ رُوح پر زخم کھاتا ہوا صفائیاں دیتاہے ۔
ایسے ہی ایک بچے نے حضور اکرم ؐ کی بارگاہ میں شکایت کی کہ میرا باپ مجھ سے پوچھتا نہیں اور میرا مال خرچ کر دیتا ہے ۔آپ ﷺ نے اس کے والد کو بلوایا۔ جب اس باپ کو پتا چلا کہ میرے بیٹے نے رسول اللہ ﷺ سے شکایت کی ہے تو رنجیدہ ہوا رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضری کو روانہ ہوا۔راستے میں دُکھی کیفیت میں کچھ اشعار ذہن میں کہتا ہوا پہنچا۔بارگاہ رسالتؐ میں پہنچنے سے پہلے حضرت جبرئیلؑ حاضر ہوئے اور عرض کی، یارسول اللہ ﷺ! اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ان کا معاملہ بعد میں سُنیے گا پہلے وہ اشعار سنیں جو وہ سوچتے آ رہا تھا ۔وہ باپ مخلص صحابیؓ تھا یہ سن کر رونے لگا کہ جو اشعار ابھی تک میری زبان سے ادا نہیں ہوئے میرے اپنے کانوں نے ابھی تک نہیں سنے رب نے سُن لییاور آپ ﷺ کو بتا بھی دئیے۔یہ اشعار سناتے سناتے باپ کی نظریں اللہ کے رسول ﷺ کے چہرے پر پڑیںتو دیکھا کہ آپﷺ اتنا روئے کہ داڑھی مبارک آنسوئوں سے تر ہو گئی آپﷺ جلال میں اپنی جگہ سے اُٹھے اور بیٹے کو فرمایا''تو اور تیرا سب کچھ تیرے باپ کا ہے۔‘‘
ماں سے محبت ضرور کریں مگر اپنی اس جنت کو نظرانداز کرنا یا کم اہمیت دینا رب کے حضور سوال بھی بن جائے گا جواب میں شرمندگی رکھنے کی بجائے باپ کو اس کا حقیقی مقام دیں ۔
اپنی ہی کمائی سے بنائی ہوئی چیزوں کے طریقۂ استعمال کو بتانے والا باپ کہ دیکھو میرے بچواحتیاط کرنا کہ کہیں کوئی نقصان نہ ہو جائے۔خون پسینے کی کمائی اور اپنے ہی خون کی فکر کون سا باپ نہیں کرتااس تناظر میں کی گئی تاکید اولاد کے پاس جا کر تذلیل کیوں بن جاتی ہے پھر یہی باپ اپنے دُکھ کسی ہمدرد سے سانجھے کرتا ہے تو سننے والا اگر اسی اولاد کو سمجھانے کی کوشش کرے تو یہ گھر آ کر کہتے ہیں پہلے ہمیں گھر میں چین سے جینے نہیں دیتے ہو اب باہر کے لوگوں میںذلیل کرتے ہو۔ بیوی یعنی بچوں کی ماں اپوزیشن لیڈر بن کر کہتی ہے کہ اس نے ساری زندگی مجھے سکھ نہیں لینے دیا اب یہ تمہارے پیچھے پڑا ہے۔باپ حق بات پر بچوں سے متفق ہوتا ہے جبکہ ماں دل و مزاج کی نرمی سے مجبور اولاد کی ہر اچھی بری بات کی حمایت کرتی ہے تو باپ سے زیادہ قریب لگتی ہے اسی جذبے کی بنیاد پر ماں کی محبت کے قصیدے اکثریت میں پڑھے جاتے ہیں مگر باپ کی عظمت بیان کرنے میں کنجوسی کیوں کی جاتی ہے ؟
یہ سچ ہے کہ باپ موت کی آمد کے یقین میں مرگ بستر پربھی پڑا ہوتواپنی آخرت کی بجائے اولاد کی دنیا کی فکر میں مگن ہوتا ہے باپ وہ ہستی ہے جو اپنے بچوں میں مالی کمزوری دیکھتے ہوئے موت سے فریاد کرتا ہے کہ مجھے کچھ عرصے کی مہلت دے دے میری کوشش ہے کہ بچے کسی قابل ہو جائیں۔ باپ بچوں کے مستقبل کے لیے اپنے ہی خونی رشتوں سے بغاوت بھی کر جاتا ہے۔ میں نے ایک غریب باپ کو سردیوں کی راتوں میں کولر میں رکھے گرم انڈے بیچتے دیکھا ہے جو جاگتی آنکھوں میں اطمینان رکھتاہے کہ اس کے بچے سکون کی نیند سو رہے ہیں۔ہوٹل پر لوگوں کے برتن دھوتا باپ خوش ہے کہ اسکے بچوں نے کھانا کھایا ہے ۔لوگوں کے کپڑے استری کرتا دھوبی باپ مطمئن ہے کہ اس کے بچوں کے تن پر لباس ہے۔خطرناک اوزاروں سے اُلجھ کر محنت کرتا باپ اپنے وجود پر زخموں کے نشان قبول کرلیتا ہے کہ اسکے بچوں کا مستقبل صاف ستھرا قائم ہو سکے ۔ خود انگوٹھا چھاپ ہے مگر بچوں کو تعلیم دلا رہا ہے، اپنی دوائیوں کے پیسے بھی بچوں کیلئے چھپا کے رکھتا ہواغریب باپ اپنی بیوی سے پورے یقین کے ساتھ جھوٹ بولتا ہے کہ میں ٹھیک ہوں یہ ایسا کیوں کرتا ہے؟ پوچھیں تو اپنے بازو سے آنسو صاف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں باپ ہوں ۔مگر جب اس کے اپنے ہی بچے اس کی تذلیل کریں شکوے شکایت کریں تو یہ ٹوٹ جاتا ہے، جیتے جی مر جاتا ہے جن بچوں کیلئے دن رات کمائی کی وہ اسکی آنکھوں کے سامنے ضائع بھی کر دیتے تو ان سے رشتہ نہ توڑتا تھا آج وہی بچے اس سے اپنی کمائی کا حساب مانگیں تو یہ رُوح پر زخم کھاتا ہوا صفائیاں دیتاہے ۔
ایسے ہی ایک بچے نے حضور اکرم ؐ کی بارگاہ میں شکایت کی کہ میرا باپ مجھ سے پوچھتا نہیں اور میرا مال خرچ کر دیتا ہے ۔آپ ﷺ نے اس کے والد کو بلوایا۔ جب اس باپ کو پتا چلا کہ میرے بیٹے نے رسول اللہ ﷺ سے شکایت کی ہے تو رنجیدہ ہوا رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضری کو روانہ ہوا۔راستے میں دُکھی کیفیت میں کچھ اشعار ذہن میں کہتا ہوا پہنچا۔بارگاہ رسالتؐ میں پہنچنے سے پہلے حضرت جبرئیلؑ حاضر ہوئے اور عرض کی، یارسول اللہ ﷺ! اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ان کا معاملہ بعد میں سُنیے گا پہلے وہ اشعار سنیں جو وہ سوچتے آ رہا تھا ۔وہ باپ مخلص صحابیؓ تھا یہ سن کر رونے لگا کہ جو اشعار ابھی تک میری زبان سے ادا نہیں ہوئے میرے اپنے کانوں نے ابھی تک نہیں سنے رب نے سُن لییاور آپ ﷺ کو بتا بھی دئیے۔یہ اشعار سناتے سناتے باپ کی نظریں اللہ کے رسول ﷺ کے چہرے پر پڑیںتو دیکھا کہ آپﷺ اتنا روئے کہ داڑھی مبارک آنسوئوں سے تر ہو گئی آپﷺ جلال میں اپنی جگہ سے اُٹھے اور بیٹے کو فرمایا''تو اور تیرا سب کچھ تیرے باپ کا ہے۔‘‘
ماں سے محبت ضرور کریں مگر اپنی اس جنت کو نظرانداز کرنا یا کم اہمیت دینا رب کے حضور سوال بھی بن جائے گا جواب میں شرمندگی رکھنے کی بجائے باپ کو اس کا حقیقی مقام دیں ۔