Badshah Ka Anokha Sawaal By Nauman Khan

I

intelligent086

Guest
بادشاہ کا انوکھا سوال ..... نعمان خان

badshah-ka-anokha-sawal-jpg.jpg

صدیوں پہلے کی بات ہے کسی ملک پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔وہ اپنی رعایا کا بڑا خیر خواہ تھا۔تمام عمر اُ س نے اپنی سلطنت کے انتظامات نہایت خوش اسلوبی سے سنبھالے تھے،لیکن اب بادشاہ بوڑھا ہو چکا تھااور چونکہ اس کا کوئی بیٹا نہ تھا لہٰذا اُسے یہ فکر ستانے لگی کہ اُس کے مرنے کے بعد سلطنت کے انتظامات کو کون دیکھے گا اور کون اُس کا جانشین بنے گا۔
بادشاہ چاہتا تھا کہ اپنی زندگی میں ہی اپنا جانشین مقرر کر لے جو اُس کے مرنے کے بعد رعایا کا اسی طرح خیال رکھے جیسے و ہ اپنے دورِ حکومت میں رکھتا آیا تھا۔اگر بادشاہ چاہتا تو وہ اپنے وزیروں اور مشیروں میں سے کسی کو اپنا جانشین مقرر کر سکتا تھا مگر اس نے ایسا نہ کیا۔وہ بخوبی جانتا تھا کہ سبھی وزیر اور مشیر خوشامدی ہیں اور انہیں اپنی جیبیں بھرنے کے سوا کوئی کام نہیں ہے۔بادشاہ اپنی سلطنت کو بہادر،خوش اخلاق،اچھائی اور بُرائی میں فرق کرنے والا بادشاہ نوازنا چاہتا تھا،بہت سوچ وبچار کرنے کے بعد اس نے فیصلہ کیا کہ اپنی رعایا میں سے کسی کو جانشین بنایا جائے جو عام انسان کے بارے میں بھی سوچے۔

بادشاہ کے ذہن میں ایک ترکیب آئی اور اس نے پوری سلطنت میں اعلان کروا دیا کہ جو اس سوال یعنی''ہماری سلطنت کیسی ہے اور اسے کیسا ہونا چاہیے''کا متاثر کن جواب دے گااُسے ہی اس سلطنت کی ذمہ داری سونپی جائے گی۔کئی دنوں تک لوگ بادشاہ کے حضور حاضر ہوتے رہے اور قسمت آزماتے رہے مگر کوئی کامیاب نہ ہوا۔ایک دن حسبِ معمول بادشاہ کے دربار میں جواب دینے والوں کا ہجوم جمع تھا،اسی دوران بادشاہ کی نظر ایک نوجوان لڑکے پر پڑی جس کے ہاتھ میں دو تربوز تھے۔اس کا لباس کئی جگہوں سے پھٹا ہوا تھا۔بادشاہ نے اس نوجوان کو پاس بُلایا اور اُس نے تربوز ہاتھ میں اٹھائے چپ چاپ کھڑے رہنے کی وجہ پوچھی تو وہ گویا ہوا’’حضور اگر آپ مجھ غریب کو اس قابل سمجھیں تو میں آپ کے سوال کا جواب ان دو پھلوں سے دینا چاہوں گا‘‘۔بادشاہ سمیت دربار میں موجود تمام لوگ حیرت اور دلچسپی سے نوجوان کی جانب دیکھنے لگے۔بادشاہ کی جانب سے اجازت پا کر نوجوان نے جیب سے چھُری نکالی اور دونوں تربوز کاٹ ڈالے۔جن میں سے ایک کا خول تو مضبوط تھا مگر اس کے بیج کالے تھے اور اندر سے تھوڑا خراب بھی تھا،مگر دوسرا تربوز بالکل ٹھیک تھا نہ ہی اس کے بیج کالے تھے اور نہ ہی وہ اندر سے خراب تھا۔بادشاہ یہ سب دیکھ رہا تھا تب نوجوان گویا ہوا’’بادشاہ سلامت یہ ہے آپ کے سوال کا جواب‘‘۔بادشاہ نے حیران ہو کر پوچھا’’اس کا کیا مطلب ہوا میں سمجھا نہیں‘‘۔یہ سن کر نوجوان بولا’’اس سلطنت کی مثال تربوز کی مانند ہے۔اُس نے خراب تربوز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مضبوط خوال اس بات کی علامت ہے کہ ہماری سلطنت کی سرحدیں مضبوط اور محفوظ ہیں۔ہمارے نگہبان بڑی ایمانداری سے اس سلطنت کی حفاطت کر رہے ہیں۔جس کی وجہ سے ہمیں بیرونی ممالک کی جانب سے کوئی خطرہ نہیں ہے،لیکن اس تربوز کے کالے بیج اُن چوروں اور لٹیروں کی وجہ سے ہیں جنہوں نے غریبوں کی جائیدادیں ضبط کر رکھے ہیں اور انہیں اپنا غلام بنا لیا ہے۔چونکہ غریب کسی بھی ملک کے ستون اور بیج کی حیثیت رکھتے ہیں ،ایسے میں ظالم لوگ ان بیجوں کو کالا کر رہے ہیں یعنی غریب کی صلاحیتیں منتشر کر رہے ہیں تا کہ غریب آگے بڑھ کر کچھ نہ کر سکے۔ایسے میں ملک اپنے دشمنوں سے محفوظ ہونے کے باوجود اندر سے کھوکھلا ہو رہا ہے۔اگر ایسے ہی حالات رہے اور حکومت کی طرف سے غریبوں کو ملنے والی امداد امیر کھاتے رہے تو مستقبل میں حکومت نہ صرف کمزور ہو سکتی ہے بلکہ اس خراب ہوتے ہوئے تربوز کی طرح ہمارے ملک کی زمین بھی امراء کی تحویل میں ہونے کے باعث کاشت نہیں ہو گی اور بنجر ہوتی جائے گی۔جبکہ یہی زمین اگر غریبوں کو دے دی جائے تو وہ اپنی محنت سے نہ صرف اسے کاشت کر کے ملک میں خوشحالی لائیں گے بلکہ انہیں روزگار ملے گا اور وہ اپنی زندگی بھی ہنسی خوشی بسر کر سکیں گے۔

اس کے بعد دوسرے تربوز کی طرف غور فرمائیے۔یہ مکمل طور پر ٹھیک ہے۔جس طرح اس کی نشوو نما ٹھیک طرح سے کی گئی ہے،اسی طرح اگر پوری سلطنت کی جائیداد اور زمین کی منصفانہ تقسیم ہو تو امیری اور غریبی کے الفاظ ختم ہو جائیں گے اورملک خوشحال ہو گا۔غریب بھی اس قابل ہو جائے گا کہ وہ حکومت کو بیرونی خطرات سے بچانے اور مضبوط بنانے میں اپنا کردار ادا کر سکے۔جب زمین سے کالے بیج ختم ہو جائیں گے تو ملک کی رعایا اپنی کامیابیوں سے آسمان کی بلندیوں کو چھو لے گی‘‘۔

بادشاہ اس نوجوان کے مشورے سے بے حد متاثر ہوا اور اس نے سوچا کہ اگر یہ چھوٹے سے تربوز کو اتنی بڑی سلطنت سے مشابہت دے سکتا ہے تو اس ملک کے استحکام کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے۔بادشاہ نے سوچا یہ نوجوان اس سلطنت کے لیے یقینا فائدے مند ثابت ہو گا اور اس کے ساتھ ہی بادشاہ نے اُسے اپنا جانشین بنانے کا اعلان کر دیا۔تمام رعایا بھی بادشاہ کے اس فیصلے پر بے حد خوش تھی۔






 
Top Bottom