I
intelligent086
Guest
بڑوں کی برکت ....... تحریر : نجف زہرا تقوی
جمال پریشانی کے عالم میں سر پکڑے چارپائی پر بیٹھا تھا۔لاکھ سوچنے کے باوجود اسے حالات سدھارنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا تھا۔جمال کو یوں پریشان بیٹھے دیکھ کر اس کے والدین بھی فکر مند ہو گئے اور قریب بیٹھ کر پوچھنے لگے کہ آخر کیا وجہ ہے جو وہ اس قدر سنجیدہ نظر آ رہا ہے؟جس پر جمال نے جواب دیا کہ ''وہ اب بڑا ہو چکا ہے اس لیے چاہتا ہے کہ اپنے ماں،باپ کی خدمت کرے اور انہیں گھر بٹھا کر کھلائے لیکن غربت کے سبب پڑھائی وہ پوری نہیں کر سکا اس لیے کوئی نوکری کرنے کے قابل نہیں اور ایسا کوئی چھوٹا موٹاکاروبار اس کی سمجھ میں نہیں آتا جسے شروع کر کے وہ پیسے کما سکے‘‘۔جمال کی بات سن کر اس کے والدین بھی سوچنے لگے کہ آخر خرچے پورے کیسے کیے جائیں۔اچانک اس کی والدہ کے ذہن میں ایک خیال آیا اوروہ بولیں ''بیٹا!اگر میں ایک ترکیب بتائوں تو کیا اس پر عمل کرو گے؟‘‘
جمال بولا''جی ہاں! اگر اس سے کمائی کا اچھا سبب بنتا ہوا تو ضرور مانوں گا۔‘‘
جمال کی امی بولیں''میرے ہاتھ کے ذائقے سے تو تم واقف ہی ہو،تو کیوں نہ میں گھر پر تمہیں مختلف قسم کے پکوڑے بنا کر دیاکروں اور بازار میں کوئی چھوٹا سا سٹال لگا کر وہاں تم بیچ آیا کرو۔‘‘
ماں کی بات جمال کو بھی پسند آئی کیوں کہ اس میں زیادہ خرچے والی کوئی بات نہیں تھی اور اس کی ماں کے پکے کھانے حقیقتاً بے حد لذیذ ہوتے تھے ۔ جمال اور اس کے والد دونوں نے اس بات سے اتفاق کیا اور اگلے ہی دن سے جمال نے گھر کے بنے پکوڑے بازار میں بیچنا شروع کر دئیے۔چند دنوں میں ہی اس کے خریداروں میں بڑی حد تک اضافہ ہو گیا۔جونہی وہ سٹال پر جا کر بیٹھتا چند گھنٹوں میں ہی اس کے پکوڑے ہاتھوں ہاتھ بک جاتے۔خُدا نے اس کے کام میں بر کت ڈالی اور دیکھتے ہی دیکھتے جمال نے بازار میں سٹال کی جگہ اپنا ہوٹل بنا لیا ۔ اب جمال ماں سے بڑی مقدار میں پکوڑوں کا آمیزہ بنوا کر ہوٹل پر لے جاتا جہاں اس کے ملازم لڑکے پکوڑے تل کر گاہکوں کو بیچ دیتے۔آہستہ آہستہ ماں کی ترکیب اس نے لڑکوں کو سکھا دی اور یوں اس کا کام ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھنے لگا۔
جمال کے والدین بیٹے کو ترقی کرتے دیکھ کر بہت خوش تھے۔انہوں نے جمال کے لیے اچھے گھر کی خوبصورت لڑکی دیکھ کر اس کی شادی بھی کر دی ۔ جمال گھرپر بیوی اور ماں،باپ کو بھی کچھ وقت دیتا لیکن اس کا زیادہ وقت اب کاروبار سنبھالنے میں گزر جاتا تھا۔جمال کو اللہ نے اولاد کی نعمت سے بھی نواز دیا ۔3 سال میں اس کے ہاں ایک بیٹی اور پھر بیٹا پیدا ہوا۔جس کے بعد جمال کی بیوی نے فرمائش کی کہ بچوں کے ہوتے ہوئے یہ گھر اب اس کے لیے چھوٹا پڑنے لگا ہے سو وہ اسے اور بچوں کو علیحدہ گھر خرید کر دے۔
جمال نے بیوی کی بات مانتے ہوئے بغیر یہ سوچے کہ بڑھاپے میں بھلا اس کے ماں،باپ اکیلے کیسے رہیں گے بیوی کو الگ گھر خرید دیا ۔ بیٹے کے اس فیصلے نے جمال کے والدین کو بے حد دکھی کیا لیکن وہ خاموش رہے اب نوبت یہ آ گئی تھی کہ جمال ہر مہینے چند گھنٹوں کے لیے آتا اور ماں ،باپ کو ان کے خرچ کے لیے پیسے دے کر چلا جاتا۔بوڑھے والدین سارا سارا دن گھر میں اکیلے بیٹھے بیٹے اور پوتا پوتی کی راہ تکتے رہتے۔
وقت کا پہیہ گھوما اور جما ل کے بچے بڑے ہو گئے تب تک ا س کے پاس اتنی دولت جمع ہو چکی تھی کہ اب وہ ساری زندگی بیٹھ کر بھی کھا سکتا تھا ۔ اس لیے وہ کاروبار کو پہلے کی نسبت کم وقت دینے لگا کیونکہ اب وہ کام کرتے کرتے تھکنے لگا تھا اور کچھ آرام کرنا چاہتا تھا۔
جمال گھر پر وقت گزارنے لگا تو اس نے محسوس کیا کہ اس کے اپنے ہی گھر والوں کے پاس اسے دینے کے لیے وقت نہیں ہے۔بچے اپنے کالج اور دوستوں کے ساتھ مصروف رہتے۔ باپ کے ساتھ وقت گزارنے کی انہیں کبھی عادت ہی نہیں ہوئی تھی اور بیوی تھی تو وہ اپنی سہیلیوں کی دعوتوںاور خریداری وغیرہ کر کے وقت گزارنا پسند کرتی۔
تب ایک دن جمال کو خیال آیا کہ سب کچھ ہونے کے باوجود بھی اس کے گھر میں بر کت ، خوشی اور اپنائیت کی کس قدر کمی ہے کیونکہ برکت تو بزرگوں سے ہوتی ہے جنہیں اس نے خو د اپنے آپ سے دور کر دیا ۔وہ والدین جن کی محنت سے وہ آج اس قدر امیر ہو چکا تھاانہیں دینے کے لیے اس کے پاس وقت تک نہیں تھا۔ایسے میں وہ دونوں بزرگ کس قدر تنہائی اور اکیلا پن محسوس کرتے ہوں گے جو اپنی مرضی سے زیادہ دیر چل پھر تک نہیں سکتے۔آج جن والدین کو سب کچھ پانے کے بعد اس نے اکیلا چھوڑا ہے ،کل کو اگر اس کے بچوں نے بھی بڑی عمر میں اسے تنہا چھوڑ دیا تو وہ کیا کرے گا۔
یہ سوچ کر جمال کی روح کانپ گئی۔اس نے گاڑی نکالی اور ماں،باپ کے پاس جا کر ان کے قدموں میں گر کر معافی مانگنے لگا۔ماں،باپ کا دل تو اولاد کے لیے ہمیشہ موم سا نرم ہوتا ہے۔انہوںنے بغیر کوئی شکوہ کیے اسی وقت جمال کو سینے سے لگا لیا اور جب سے جمال اپنے والدین کو گھر لے آیا تھا تب سے اس کے گھر میں برکت اور خوشیاں تو تھیں ہی،ساتھ کام سے واپس آنے پر ہمیشہ والدین شدت سے اس کی راہ تکتے رہتے۔ جمال آج سمجھ چکا تھا کہ گھر میں بڑوں سے ہی برکت ہوتی ہے۔
جمال پریشانی کے عالم میں سر پکڑے چارپائی پر بیٹھا تھا۔لاکھ سوچنے کے باوجود اسے حالات سدھارنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا تھا۔جمال کو یوں پریشان بیٹھے دیکھ کر اس کے والدین بھی فکر مند ہو گئے اور قریب بیٹھ کر پوچھنے لگے کہ آخر کیا وجہ ہے جو وہ اس قدر سنجیدہ نظر آ رہا ہے؟جس پر جمال نے جواب دیا کہ ''وہ اب بڑا ہو چکا ہے اس لیے چاہتا ہے کہ اپنے ماں،باپ کی خدمت کرے اور انہیں گھر بٹھا کر کھلائے لیکن غربت کے سبب پڑھائی وہ پوری نہیں کر سکا اس لیے کوئی نوکری کرنے کے قابل نہیں اور ایسا کوئی چھوٹا موٹاکاروبار اس کی سمجھ میں نہیں آتا جسے شروع کر کے وہ پیسے کما سکے‘‘۔جمال کی بات سن کر اس کے والدین بھی سوچنے لگے کہ آخر خرچے پورے کیسے کیے جائیں۔اچانک اس کی والدہ کے ذہن میں ایک خیال آیا اوروہ بولیں ''بیٹا!اگر میں ایک ترکیب بتائوں تو کیا اس پر عمل کرو گے؟‘‘
جمال بولا''جی ہاں! اگر اس سے کمائی کا اچھا سبب بنتا ہوا تو ضرور مانوں گا۔‘‘
جمال کی امی بولیں''میرے ہاتھ کے ذائقے سے تو تم واقف ہی ہو،تو کیوں نہ میں گھر پر تمہیں مختلف قسم کے پکوڑے بنا کر دیاکروں اور بازار میں کوئی چھوٹا سا سٹال لگا کر وہاں تم بیچ آیا کرو۔‘‘
ماں کی بات جمال کو بھی پسند آئی کیوں کہ اس میں زیادہ خرچے والی کوئی بات نہیں تھی اور اس کی ماں کے پکے کھانے حقیقتاً بے حد لذیذ ہوتے تھے ۔ جمال اور اس کے والد دونوں نے اس بات سے اتفاق کیا اور اگلے ہی دن سے جمال نے گھر کے بنے پکوڑے بازار میں بیچنا شروع کر دئیے۔چند دنوں میں ہی اس کے خریداروں میں بڑی حد تک اضافہ ہو گیا۔جونہی وہ سٹال پر جا کر بیٹھتا چند گھنٹوں میں ہی اس کے پکوڑے ہاتھوں ہاتھ بک جاتے۔خُدا نے اس کے کام میں بر کت ڈالی اور دیکھتے ہی دیکھتے جمال نے بازار میں سٹال کی جگہ اپنا ہوٹل بنا لیا ۔ اب جمال ماں سے بڑی مقدار میں پکوڑوں کا آمیزہ بنوا کر ہوٹل پر لے جاتا جہاں اس کے ملازم لڑکے پکوڑے تل کر گاہکوں کو بیچ دیتے۔آہستہ آہستہ ماں کی ترکیب اس نے لڑکوں کو سکھا دی اور یوں اس کا کام ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھنے لگا۔
جمال کے والدین بیٹے کو ترقی کرتے دیکھ کر بہت خوش تھے۔انہوں نے جمال کے لیے اچھے گھر کی خوبصورت لڑکی دیکھ کر اس کی شادی بھی کر دی ۔ جمال گھرپر بیوی اور ماں،باپ کو بھی کچھ وقت دیتا لیکن اس کا زیادہ وقت اب کاروبار سنبھالنے میں گزر جاتا تھا۔جمال کو اللہ نے اولاد کی نعمت سے بھی نواز دیا ۔3 سال میں اس کے ہاں ایک بیٹی اور پھر بیٹا پیدا ہوا۔جس کے بعد جمال کی بیوی نے فرمائش کی کہ بچوں کے ہوتے ہوئے یہ گھر اب اس کے لیے چھوٹا پڑنے لگا ہے سو وہ اسے اور بچوں کو علیحدہ گھر خرید کر دے۔
جمال نے بیوی کی بات مانتے ہوئے بغیر یہ سوچے کہ بڑھاپے میں بھلا اس کے ماں،باپ اکیلے کیسے رہیں گے بیوی کو الگ گھر خرید دیا ۔ بیٹے کے اس فیصلے نے جمال کے والدین کو بے حد دکھی کیا لیکن وہ خاموش رہے اب نوبت یہ آ گئی تھی کہ جمال ہر مہینے چند گھنٹوں کے لیے آتا اور ماں ،باپ کو ان کے خرچ کے لیے پیسے دے کر چلا جاتا۔بوڑھے والدین سارا سارا دن گھر میں اکیلے بیٹھے بیٹے اور پوتا پوتی کی راہ تکتے رہتے۔
وقت کا پہیہ گھوما اور جما ل کے بچے بڑے ہو گئے تب تک ا س کے پاس اتنی دولت جمع ہو چکی تھی کہ اب وہ ساری زندگی بیٹھ کر بھی کھا سکتا تھا ۔ اس لیے وہ کاروبار کو پہلے کی نسبت کم وقت دینے لگا کیونکہ اب وہ کام کرتے کرتے تھکنے لگا تھا اور کچھ آرام کرنا چاہتا تھا۔
جمال گھر پر وقت گزارنے لگا تو اس نے محسوس کیا کہ اس کے اپنے ہی گھر والوں کے پاس اسے دینے کے لیے وقت نہیں ہے۔بچے اپنے کالج اور دوستوں کے ساتھ مصروف رہتے۔ باپ کے ساتھ وقت گزارنے کی انہیں کبھی عادت ہی نہیں ہوئی تھی اور بیوی تھی تو وہ اپنی سہیلیوں کی دعوتوںاور خریداری وغیرہ کر کے وقت گزارنا پسند کرتی۔
تب ایک دن جمال کو خیال آیا کہ سب کچھ ہونے کے باوجود بھی اس کے گھر میں بر کت ، خوشی اور اپنائیت کی کس قدر کمی ہے کیونکہ برکت تو بزرگوں سے ہوتی ہے جنہیں اس نے خو د اپنے آپ سے دور کر دیا ۔وہ والدین جن کی محنت سے وہ آج اس قدر امیر ہو چکا تھاانہیں دینے کے لیے اس کے پاس وقت تک نہیں تھا۔ایسے میں وہ دونوں بزرگ کس قدر تنہائی اور اکیلا پن محسوس کرتے ہوں گے جو اپنی مرضی سے زیادہ دیر چل پھر تک نہیں سکتے۔آج جن والدین کو سب کچھ پانے کے بعد اس نے اکیلا چھوڑا ہے ،کل کو اگر اس کے بچوں نے بھی بڑی عمر میں اسے تنہا چھوڑ دیا تو وہ کیا کرے گا۔
یہ سوچ کر جمال کی روح کانپ گئی۔اس نے گاڑی نکالی اور ماں،باپ کے پاس جا کر ان کے قدموں میں گر کر معافی مانگنے لگا۔ماں،باپ کا دل تو اولاد کے لیے ہمیشہ موم سا نرم ہوتا ہے۔انہوںنے بغیر کوئی شکوہ کیے اسی وقت جمال کو سینے سے لگا لیا اور جب سے جمال اپنے والدین کو گھر لے آیا تھا تب سے اس کے گھر میں برکت اور خوشیاں تو تھیں ہی،ساتھ کام سے واپس آنے پر ہمیشہ والدین شدت سے اس کی راہ تکتے رہتے۔ جمال آج سمجھ چکا تھا کہ گھر میں بڑوں سے ہی برکت ہوتی ہے۔