I
intelligent086
Guest
بے ایمان دوکاندار ۔۔۔۔ انعم خالد
کسی گائوں میں منیر نامی گوالا رہتا تھا جو روزانہ صبح سویرے گائے کا دودھ نکال کر گائوں کے لوگوں کو بیچا کرتا تھا۔پورے گائو ں میں مشہور تھا کہ منیر کا بیچا ہوا دودھ بے حد خالص اور صاف ستھرا ہوتا ہے،لیکن منیر کے پاس2ہی گائے تھیں وہ ان کی خوب دیکھ بھال کرتا اور ان سے حاصل ہونے والا دودھ 4,3 دکانوں پر جا کے بیچ آتا۔
اس طرح وہ گھر ،گھر جا کے دودھ بیچنے کے جھنجھٹ سے بھی بچا رہتا اور اچھا منافع بھی کما لیتا تھا۔منیر سیدھا سادہ آدمی تھا،چالاکی نہ وہ خود کرتا تھا اور نہ دوسروں کی سمجھ پاتا تھا۔منیر کی اسی کمزوری کا فائدہ گائوں میں موجود واحد لسی کی دکان والا اٹھاتا تھا۔منیر کے بیچے گئے دودھ کی سبھی تعریف کرتے جبکہ لسی والا ہر دوسرے روز کوئی نہ کوئی نئی شکایت سوچ کر بیٹھا ہوتا۔وہ کبھی منیر سے کہتا کہ اس کے دئیے ہوئے دودھ میں سے بدبو آ رہی تھی تو کبھی دودھ پتلا ہونے کی شکایت کرتا ۔منیر کے والدین نے اس کی اچھی تربیت کی تھی اور ہمیشہ یہی سکھایا تھا کہ کبھی ناپ تول میں کمی مت کرنا اور یہی کوشش کرنا کہ کسی کے ساتھ زیادتی نہ ہو چاہے اس میں اپنا نقصان ہی کیوں نہ ہو جائے۔
والدین کی اسی بات کو منیر نے پلے باندھ لیا تھا ، اس لیے جب بھی لسی والا ا س سے دودھ کے بارے میں کوئی شکایت کرتا تو منیر بدلے میں اسے مفت اضافی دودھ دے دیتا۔لسی والے کا اصل مقصد بھی یہی تھا۔وہ منیر کی سادگی سے واقف تھا ،اسی وجہ سے روزانہ کوئی نیا بہانہ سوچ کر مفت دودھ حاصل کیا کرتا تھا۔اس طرح منیر اپنا ضمیر تو مطمئن کر لیتا لیکن اکثر اگلی دکانوں پر دینے کے لیے دودھ کم پڑ جاتا۔پہلے پہل تو لسی والا چند روز گزرنے کے بعد شکایت کیا کرتا تھا،لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس کی طبیعت میں لالچ بڑھتا گیا اور وہ اب روزانہ ہی مفت دودھ حاصل کرنے کے چکر میں نئی شکایت کرنے لگا تھا۔جب اگلی دکانوں پر دینے کے لیے روزانہ دودھ کم پڑنے لگ گیا تو ایک دن مٹھائی کی دکان والے نے منیر سے پوچھ ہی لیا کہ آخر کیا وجہ ہے جو اب وہ کم دودھ بیچنے لگا ہے،کیا اس کی گائے بیمار رہنے لگی ہے یا گھر میں کوئی اور پریشانی ہے؟جواب میں منیر نے لسی والے کی شکایات مٹھائی والے کو سنا دیں،اور ساتھ یہ بھی کہا کہ وہ خود پریشان ہے کہ بھلا ایک ہی دکان والا ایسی شکایت کیوں کرتا ہے؟مٹھائی والا،لسی والے کی لالچی طبیعت سے اچھی طرح واقف تھا وہ ذہن میں منصوبہ بنانے کے بعد بولا’’ منیر بھائی!میری ایک بات مانو۔تم چند روز کے لیے لسی والے کو دودھ بیچنا بند کر دو اور اپنی گائے کے دودھ سے خود لسی تیار کر کے بیچو،پھر دیکھو لوگ پسند کرتے ہیں یا نہیں‘‘۔منیر کو مشورہ پسند آیا اور اگلے ہی روز وہ ایک ریڑھی تیار کر کے اس پر دودھ کے ساتھ لسی بھی رکھ کر بیچنے لگا۔صبح سے دوپہر ہونے کو آئی تھی لیکن اب تک کسی ایک بھی گاہک نے لسی کے پتلے ہونے کی شکایت نہیں کی تھی بلکہ گاڑھی لسی ہاتھوں،ہاتھ بک رہی تھی۔چلتے،چلتے منیر کا گزر لسی والے کی دکان کے سامنے سے ہوا تو وہ غصے سے منیر سے مخاطب ہوتے ہوئے بولا’’صبح سے تمہارا انتظار کر رہا ہوں اور تم یہاں لسی بیچتے پھر رہے ہو‘‘۔جس پر منیر ساری بات سمجھتے ہوئے اطمینان سے بولا’’بھائی!میں معذرت خواہ ہوں کہ اتنے سالوں میں بھی اپنے گاہک کو تسلی بخش چیز نہیں بیچ سکا ،لیکن امید کرتا ہوں کہ آپ کو ضرور کوئی خالص دودھ بیچنے والا مل جائے گا‘‘۔اتنا کہہ کر منیر آگے بڑھ گیا ،اور لسی والا شرمندگی سے سر جھکائے کھڑا رہ گیا۔
کسی گائوں میں منیر نامی گوالا رہتا تھا جو روزانہ صبح سویرے گائے کا دودھ نکال کر گائوں کے لوگوں کو بیچا کرتا تھا۔پورے گائو ں میں مشہور تھا کہ منیر کا بیچا ہوا دودھ بے حد خالص اور صاف ستھرا ہوتا ہے،لیکن منیر کے پاس2ہی گائے تھیں وہ ان کی خوب دیکھ بھال کرتا اور ان سے حاصل ہونے والا دودھ 4,3 دکانوں پر جا کے بیچ آتا۔
اس طرح وہ گھر ،گھر جا کے دودھ بیچنے کے جھنجھٹ سے بھی بچا رہتا اور اچھا منافع بھی کما لیتا تھا۔منیر سیدھا سادہ آدمی تھا،چالاکی نہ وہ خود کرتا تھا اور نہ دوسروں کی سمجھ پاتا تھا۔منیر کی اسی کمزوری کا فائدہ گائوں میں موجود واحد لسی کی دکان والا اٹھاتا تھا۔منیر کے بیچے گئے دودھ کی سبھی تعریف کرتے جبکہ لسی والا ہر دوسرے روز کوئی نہ کوئی نئی شکایت سوچ کر بیٹھا ہوتا۔وہ کبھی منیر سے کہتا کہ اس کے دئیے ہوئے دودھ میں سے بدبو آ رہی تھی تو کبھی دودھ پتلا ہونے کی شکایت کرتا ۔منیر کے والدین نے اس کی اچھی تربیت کی تھی اور ہمیشہ یہی سکھایا تھا کہ کبھی ناپ تول میں کمی مت کرنا اور یہی کوشش کرنا کہ کسی کے ساتھ زیادتی نہ ہو چاہے اس میں اپنا نقصان ہی کیوں نہ ہو جائے۔
والدین کی اسی بات کو منیر نے پلے باندھ لیا تھا ، اس لیے جب بھی لسی والا ا س سے دودھ کے بارے میں کوئی شکایت کرتا تو منیر بدلے میں اسے مفت اضافی دودھ دے دیتا۔لسی والے کا اصل مقصد بھی یہی تھا۔وہ منیر کی سادگی سے واقف تھا ،اسی وجہ سے روزانہ کوئی نیا بہانہ سوچ کر مفت دودھ حاصل کیا کرتا تھا۔اس طرح منیر اپنا ضمیر تو مطمئن کر لیتا لیکن اکثر اگلی دکانوں پر دینے کے لیے دودھ کم پڑ جاتا۔پہلے پہل تو لسی والا چند روز گزرنے کے بعد شکایت کیا کرتا تھا،لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس کی طبیعت میں لالچ بڑھتا گیا اور وہ اب روزانہ ہی مفت دودھ حاصل کرنے کے چکر میں نئی شکایت کرنے لگا تھا۔جب اگلی دکانوں پر دینے کے لیے روزانہ دودھ کم پڑنے لگ گیا تو ایک دن مٹھائی کی دکان والے نے منیر سے پوچھ ہی لیا کہ آخر کیا وجہ ہے جو اب وہ کم دودھ بیچنے لگا ہے،کیا اس کی گائے بیمار رہنے لگی ہے یا گھر میں کوئی اور پریشانی ہے؟جواب میں منیر نے لسی والے کی شکایات مٹھائی والے کو سنا دیں،اور ساتھ یہ بھی کہا کہ وہ خود پریشان ہے کہ بھلا ایک ہی دکان والا ایسی شکایت کیوں کرتا ہے؟مٹھائی والا،لسی والے کی لالچی طبیعت سے اچھی طرح واقف تھا وہ ذہن میں منصوبہ بنانے کے بعد بولا’’ منیر بھائی!میری ایک بات مانو۔تم چند روز کے لیے لسی والے کو دودھ بیچنا بند کر دو اور اپنی گائے کے دودھ سے خود لسی تیار کر کے بیچو،پھر دیکھو لوگ پسند کرتے ہیں یا نہیں‘‘۔منیر کو مشورہ پسند آیا اور اگلے ہی روز وہ ایک ریڑھی تیار کر کے اس پر دودھ کے ساتھ لسی بھی رکھ کر بیچنے لگا۔صبح سے دوپہر ہونے کو آئی تھی لیکن اب تک کسی ایک بھی گاہک نے لسی کے پتلے ہونے کی شکایت نہیں کی تھی بلکہ گاڑھی لسی ہاتھوں،ہاتھ بک رہی تھی۔چلتے،چلتے منیر کا گزر لسی والے کی دکان کے سامنے سے ہوا تو وہ غصے سے منیر سے مخاطب ہوتے ہوئے بولا’’صبح سے تمہارا انتظار کر رہا ہوں اور تم یہاں لسی بیچتے پھر رہے ہو‘‘۔جس پر منیر ساری بات سمجھتے ہوئے اطمینان سے بولا’’بھائی!میں معذرت خواہ ہوں کہ اتنے سالوں میں بھی اپنے گاہک کو تسلی بخش چیز نہیں بیچ سکا ،لیکن امید کرتا ہوں کہ آپ کو ضرور کوئی خالص دودھ بیچنے والا مل جائے گا‘‘۔اتنا کہہ کر منیر آگے بڑھ گیا ،اور لسی والا شرمندگی سے سر جھکائے کھڑا رہ گیا۔