I
intelligent086
Guest
بھلائی ۔۔۔۔۔ سدرہ منیر
ایک دفعہ کا ذکر ہے ۔ایک بطخ دریا کے کنارے رہتی تھی ۔ وہ ہمیشہ بیمار رہتی تھی۔ ایک دن طبیعت زیادہ خراب ہو گئی ۔بندر نے اسے بتایا کہ تم جلد مر جاؤ گی۔ اسے یہ سن کر صدمہ ہوا کیونکہ اس کے انڈے سے جلد ہی بچہ نکلنے والا تھا، وہ پریشان ہو گئی کہ اگر مر گئی تو انڈے کا کیا ہو گا اور بچے کو کون سنبھالے گا۔ لہٰذا وہ اپنے دوستوں کے پاس گئی اور انہیں ساری کہانی سنائی ۔دوستوں نے مدد کرنے سے انکار کر دیا۔ بیچاری بطخ نے کافی منتیں کیں کہ لیکن کسی نے بچے کا ساتھ دینے کی بات نہ مانی ۔ بطخ کو خیال آیا کہ کیوں نہ میں اپنے بھائی مرغے کے پاس جاؤں ، وہ ضرور میری مدد کرے گا ، وہ مرغے کے پاس گئی ، اسے سارا قصہ سناکر منت کی کہ ’’آپ میرے بچے کے ماموں جیسے ہو، پلیز! آپ ہی بچے کو اپنا سایہ دینا‘‘۔
مرغا بولا ! ’’میں تمہارے بچے کو رکھ لیتا لیکن میری مرغی یہ بات نہیں مانے گی ۔ مجھے افسوس ہے ، میں کوئی مدد نہیں کر سکتا ، تم مجھے معاف کر دینا‘‘۔بطخ ادھر سے مایوس ہو کر اپنے دڑبے میں واپس آ گئی اور سوچنا شروع کر دیا کہ اب کیا کیا جائے۔ اچانک اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی اور اس نے موقع ڈھونڈ کر اپنا انڈا مرغی کے انڈوں میں رکھ دیا۔پھرخود ایک درخت کے کنارے بیٹھ گئی۔ اس کے بعد بطخ کی طبیعت ایسی بگڑی کہ اس کی موت واقع ہو گئی۔
جب انڈوں میں سے مرغی کے بچے باہر نکلے تو ان میں ایک بچہ بطخ کا بھی تھا۔ مرغا تو سب جا ن گیا تھا لیکن اس نے مرغی کو بتانا مناسب نہ سمجھا۔ مرغی نے کافی شور شرابہ کیا اور بولی : ’’میرے بچوں کے ساتھ بطخ کا بچہ نہیں رہے گا‘‘۔مرغے نے کافی سمجھایا لیکن مرغی نے اس کا کہنا نہیں مانا اور اپنے بچوں کو بطخ کے بچوں کے ساتھ کھیلنے کودنے سے منع کر دیا۔ دو چوزوں نے اپنی ماں کی بات نہ مانی اور وہ اپنے حصے میں سے کچھ بچا کر بطخ کے بچے کو بھی کھلادیتے تھے۔ مگر مرغی بطخ کے بچے کو دیکھنا بھی پسند نہیں کرتی تھی۔
ایک دن مرغی نے کہا کہ ’’ہم سب مل کرسیر کے لئے دریا کے کنارے پر جائیں گے اور واپسی پر بطخ کے بچے کو وہیں چھوڑ آئیں گے۔ اس طرح سے جان چھوٹ جائے گی‘‘۔
وہ سب سیر کو نکلے۔ وہاں پہنچتے ہی ایک چوزہ دریا کے کنارے چلا گیا اور تیز پانی میں ڈوبنے لگا۔ یہ دیکھ کر مرغی زور زور سے چیخنے چلانے لگی چونکہ بطخ کے بچے کو تیرنا آتا تھا ، اس نے فوراً دریا میں جا کر بچے کو بچا لیا۔ جس پر مرغی شرمندہ ہو گئی اور یوں اسے بھی اپنے بچوں جیسا سمجھنے لگی۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے ۔ایک بطخ دریا کے کنارے رہتی تھی ۔ وہ ہمیشہ بیمار رہتی تھی۔ ایک دن طبیعت زیادہ خراب ہو گئی ۔بندر نے اسے بتایا کہ تم جلد مر جاؤ گی۔ اسے یہ سن کر صدمہ ہوا کیونکہ اس کے انڈے سے جلد ہی بچہ نکلنے والا تھا، وہ پریشان ہو گئی کہ اگر مر گئی تو انڈے کا کیا ہو گا اور بچے کو کون سنبھالے گا۔ لہٰذا وہ اپنے دوستوں کے پاس گئی اور انہیں ساری کہانی سنائی ۔دوستوں نے مدد کرنے سے انکار کر دیا۔ بیچاری بطخ نے کافی منتیں کیں کہ لیکن کسی نے بچے کا ساتھ دینے کی بات نہ مانی ۔ بطخ کو خیال آیا کہ کیوں نہ میں اپنے بھائی مرغے کے پاس جاؤں ، وہ ضرور میری مدد کرے گا ، وہ مرغے کے پاس گئی ، اسے سارا قصہ سناکر منت کی کہ ’’آپ میرے بچے کے ماموں جیسے ہو، پلیز! آپ ہی بچے کو اپنا سایہ دینا‘‘۔
مرغا بولا ! ’’میں تمہارے بچے کو رکھ لیتا لیکن میری مرغی یہ بات نہیں مانے گی ۔ مجھے افسوس ہے ، میں کوئی مدد نہیں کر سکتا ، تم مجھے معاف کر دینا‘‘۔بطخ ادھر سے مایوس ہو کر اپنے دڑبے میں واپس آ گئی اور سوچنا شروع کر دیا کہ اب کیا کیا جائے۔ اچانک اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی اور اس نے موقع ڈھونڈ کر اپنا انڈا مرغی کے انڈوں میں رکھ دیا۔پھرخود ایک درخت کے کنارے بیٹھ گئی۔ اس کے بعد بطخ کی طبیعت ایسی بگڑی کہ اس کی موت واقع ہو گئی۔
جب انڈوں میں سے مرغی کے بچے باہر نکلے تو ان میں ایک بچہ بطخ کا بھی تھا۔ مرغا تو سب جا ن گیا تھا لیکن اس نے مرغی کو بتانا مناسب نہ سمجھا۔ مرغی نے کافی شور شرابہ کیا اور بولی : ’’میرے بچوں کے ساتھ بطخ کا بچہ نہیں رہے گا‘‘۔مرغے نے کافی سمجھایا لیکن مرغی نے اس کا کہنا نہیں مانا اور اپنے بچوں کو بطخ کے بچوں کے ساتھ کھیلنے کودنے سے منع کر دیا۔ دو چوزوں نے اپنی ماں کی بات نہ مانی اور وہ اپنے حصے میں سے کچھ بچا کر بطخ کے بچے کو بھی کھلادیتے تھے۔ مگر مرغی بطخ کے بچے کو دیکھنا بھی پسند نہیں کرتی تھی۔
ایک دن مرغی نے کہا کہ ’’ہم سب مل کرسیر کے لئے دریا کے کنارے پر جائیں گے اور واپسی پر بطخ کے بچے کو وہیں چھوڑ آئیں گے۔ اس طرح سے جان چھوٹ جائے گی‘‘۔
وہ سب سیر کو نکلے۔ وہاں پہنچتے ہی ایک چوزہ دریا کے کنارے چلا گیا اور تیز پانی میں ڈوبنے لگا۔ یہ دیکھ کر مرغی زور زور سے چیخنے چلانے لگی چونکہ بطخ کے بچے کو تیرنا آتا تھا ، اس نے فوراً دریا میں جا کر بچے کو بچا لیا۔ جس پر مرغی شرمندہ ہو گئی اور یوں اسے بھی اپنے بچوں جیسا سمجھنے لگی۔