I
intelligent086
Guest
چھوٹے بندر کا بڑا کام ۔۔۔۔ یمنی خان
مٹکو ہاتھی جنگل کے دوسرے جانوروں کے ساتھ بیٹھا خوش گپیوں میں مصروف تھا۔یہ لوگ آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ اس بارجنگل کے سالانہ کھیلوں میں کون کون شرکت کرے گا۔ان کے جنگل میں رواج تھا کہ ہر سال بہار کے خوشگوار موسم میں سب جانور مل کر جشن منایا کرتے تھے،جس میں مختلف کھیلوں کا بھی انعقاد کیا جاتا تھا۔سب جانور اپنی مرضی کے مطابق کھیلوں میں نا م لکھوا دیا کرتے۔
انہی جانوروں میں ایک مٹکو نامی ہاتھی بھی تھا۔جو نہایت طاقتور اور چُست ہاتھی تھا،ہرسال یہ مختلف مقابلوں میں حصہ لیتا جن میں سے زیادہ تر جیت بھی جاتا۔مٹکو کی یوں تو سبھی جانوروں سے دوستی تھی بس اس میں ایک بُری عادت تھی کہ وہ صرف بڑے ڈیل ڈول والے جانوروں کو ہی اہمیت دیتا۔چھوٹے جانوروں کی اس کی نظر میں کوئی خاص اہمیت نہیں تھی۔وہ نہ فیصلوں میں ان سے کوئی مشورہ کرتا اور نہ انہیں کسی قابل سمجھتا۔مٹکو کا خیال تھا کہ بڑے جانوروں کی وجہ سے ہی چھوٹے جانور سکون سے زندگی گزار رہے ہیں،ورنہ یہ نہ اپنی حفاظت کر سکتے ہیں اور نہ جنگل کے معاملات میں کوئی خاص کردار ادا کر سکتے ہیں۔اسی لیے کھیلوں میں نام لکھواتے ہوئے جب منکی بندر نے وزن اٹھانے کے مقابلے میں اپنا نام لکھوایا تو مٹکو کی ہنسی نکل گئی۔منکی خفا نظروں سے مٹکو کو دیکھنے لگا تو وہ مُسکراتا ہوا کچھ کہے بغیر گھر کی جانب چل پڑا۔منکی ،مٹکو کی عادت سے بخوبی واقف تھا اور اس کی طنزیہ مسکراہٹ دیکھ کر سمجھ گیا تھا کہ اسے چھوٹا جانور سمجھتے ہوئے وہ یقینا سوچ رہا ہو گا کہ بھلا میرا اس مقابلے میں کیا کام ۔اس کے باوجود منکی خامو ش رہااور صبر کا گھونٹ پی گیا۔
ایک روزمٹکو ہاتھی اپنی مستی میں جنگل کی سیر کر رہا تھا۔آج موسم بے حد خوبصورت تھا اور مٹکو ہلکی برستی بارش میں یہاں وہاں گھوم رہا تھا۔چلتے چلتے اسے اندازہ ہی نہ ہوا کہ وہ جنگل سے تھوڑا دور نکل گیا۔وہ نہیں جانتا تھا کہ جنگل سے تھوڑا باہر چند شکاریوں نے جانور پکڑنے کے لیے نہایت گہرا گڑھا کھود رکھا ہے۔اتفا ق سے وہ شکاری بارش ہونے کے سبب گڑھے کے قریب موجود نہیں تھے اور تھوڑا دور اپنے خیمے میں جا چکے تھے۔چلتے ہوئے مٹکو کاپائوں بے دھیانی میں گڑھے کے اوپر پڑا اور وہ دھڑام سے گہرے گڑھے میں جا گرا۔مٹکو پریشانی کے عالم میں آوازیں نکالنے لگا۔اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہاں سے باہر کیسے نکلے۔اتفاقاً اسی وقت قریب سے منکی بندر اپنے دوستوں کے ساتھ گزر رہا تھا۔مٹکو کی آوازیں سن کر جو اس نے گڑھے میں جھانک کر دیکھا تو پریشان ہو کر پوچھنے لگا کہ وہ یہاں کیسے پہنچا؟تب مٹکو نے اسے ساری بات بتائی۔اب بجائے اس کے کہ منکی ،مٹکو کا مذاق اُڑاتا یا اس کی مدد کیے بغیر وہاں سے چلا جاتااس نے جلدی سے اپنے دوستوں سے مل کر مشورہ کیا کہ ہاتھی کو یہاں سے باہر کیسے نکالا جائے؟
منکی اور اس کے دوستوں کی بات سن کر مٹکو کہنے لگا ’’برائے مہربانی میرے جیسے کسی بڑے جانور کو بُلا لائو جو یہاں سے باہر نکلنے میں میری مد د کر سکے‘‘۔مٹکو کی بات سُن کر منکی بولا’’بھائی!فکر مت کرو ہم خود ہی تمہاری مدد کرنے کے لیے کافی ہیں‘‘۔منکی کی بات سُن کر مٹکو خاموش ہو رہا۔منکی نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر گڑھے میںمٹی پھینکنا شروع کی۔ان کے ہاتھ چھوٹے ضرور تھے لیکن وہ بلا کے پھُرتیلے بندر تھے۔دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے گڑھے کا آدھا حصہ مٹی سے اس قدر بھر دیاکہ ہاتھی اس پر چڑھ کر با آسانی گڑھے سے باہر نکل سکتا تھا۔اس کام میں منکی اور اس کے ساتھیوں کو کافی وقت لگ گیا لیکن با لآخر مٹکو گڑھے سے باہر آنے میں کامیاب ہو گیا۔باہر آکر مٹکو کا سر ندامت سے جھُکا ہوا تھا۔اس نے سب سے پہلے منکی اور اس کے ساتھیوں سے اپنے رویے کی معافی مانگی اور بولا کہ ’’وہ آج تک غلط سوچتا تھا۔خدا کی بنائی ہوئی ہر مخلو ق میں کوئی نہ کوئی صلاحیت پوشیدہ ہے۔اسے آج سمجھ آئی ہے کہ جسامت میں بڑا ہوانے کے باوجود اپنے جسم کے وزن سے وہ گہرائی سے اونچائی تک نہیں جا سکتا ،جبکہ ایک چھوٹا سا بندر لمحوں میں چھلانگیں لگا کر میلوں کا فاصلہ طے کر لیتا ہے‘‘۔اس نے خود سے عہد کیا کہ آج کے بعد وہ کبھی دوسروں کا تمسخر نہیں اُڑائے گا اور خُدا کی بنائی ہر مخلوق کی عزت کرے گا۔
مٹکو ہاتھی جنگل کے دوسرے جانوروں کے ساتھ بیٹھا خوش گپیوں میں مصروف تھا۔یہ لوگ آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ اس بارجنگل کے سالانہ کھیلوں میں کون کون شرکت کرے گا۔ان کے جنگل میں رواج تھا کہ ہر سال بہار کے خوشگوار موسم میں سب جانور مل کر جشن منایا کرتے تھے،جس میں مختلف کھیلوں کا بھی انعقاد کیا جاتا تھا۔سب جانور اپنی مرضی کے مطابق کھیلوں میں نا م لکھوا دیا کرتے۔
انہی جانوروں میں ایک مٹکو نامی ہاتھی بھی تھا۔جو نہایت طاقتور اور چُست ہاتھی تھا،ہرسال یہ مختلف مقابلوں میں حصہ لیتا جن میں سے زیادہ تر جیت بھی جاتا۔مٹکو کی یوں تو سبھی جانوروں سے دوستی تھی بس اس میں ایک بُری عادت تھی کہ وہ صرف بڑے ڈیل ڈول والے جانوروں کو ہی اہمیت دیتا۔چھوٹے جانوروں کی اس کی نظر میں کوئی خاص اہمیت نہیں تھی۔وہ نہ فیصلوں میں ان سے کوئی مشورہ کرتا اور نہ انہیں کسی قابل سمجھتا۔مٹکو کا خیال تھا کہ بڑے جانوروں کی وجہ سے ہی چھوٹے جانور سکون سے زندگی گزار رہے ہیں،ورنہ یہ نہ اپنی حفاظت کر سکتے ہیں اور نہ جنگل کے معاملات میں کوئی خاص کردار ادا کر سکتے ہیں۔اسی لیے کھیلوں میں نام لکھواتے ہوئے جب منکی بندر نے وزن اٹھانے کے مقابلے میں اپنا نام لکھوایا تو مٹکو کی ہنسی نکل گئی۔منکی خفا نظروں سے مٹکو کو دیکھنے لگا تو وہ مُسکراتا ہوا کچھ کہے بغیر گھر کی جانب چل پڑا۔منکی ،مٹکو کی عادت سے بخوبی واقف تھا اور اس کی طنزیہ مسکراہٹ دیکھ کر سمجھ گیا تھا کہ اسے چھوٹا جانور سمجھتے ہوئے وہ یقینا سوچ رہا ہو گا کہ بھلا میرا اس مقابلے میں کیا کام ۔اس کے باوجود منکی خامو ش رہااور صبر کا گھونٹ پی گیا۔
ایک روزمٹکو ہاتھی اپنی مستی میں جنگل کی سیر کر رہا تھا۔آج موسم بے حد خوبصورت تھا اور مٹکو ہلکی برستی بارش میں یہاں وہاں گھوم رہا تھا۔چلتے چلتے اسے اندازہ ہی نہ ہوا کہ وہ جنگل سے تھوڑا دور نکل گیا۔وہ نہیں جانتا تھا کہ جنگل سے تھوڑا باہر چند شکاریوں نے جانور پکڑنے کے لیے نہایت گہرا گڑھا کھود رکھا ہے۔اتفا ق سے وہ شکاری بارش ہونے کے سبب گڑھے کے قریب موجود نہیں تھے اور تھوڑا دور اپنے خیمے میں جا چکے تھے۔چلتے ہوئے مٹکو کاپائوں بے دھیانی میں گڑھے کے اوپر پڑا اور وہ دھڑام سے گہرے گڑھے میں جا گرا۔مٹکو پریشانی کے عالم میں آوازیں نکالنے لگا۔اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہاں سے باہر کیسے نکلے۔اتفاقاً اسی وقت قریب سے منکی بندر اپنے دوستوں کے ساتھ گزر رہا تھا۔مٹکو کی آوازیں سن کر جو اس نے گڑھے میں جھانک کر دیکھا تو پریشان ہو کر پوچھنے لگا کہ وہ یہاں کیسے پہنچا؟تب مٹکو نے اسے ساری بات بتائی۔اب بجائے اس کے کہ منکی ،مٹکو کا مذاق اُڑاتا یا اس کی مدد کیے بغیر وہاں سے چلا جاتااس نے جلدی سے اپنے دوستوں سے مل کر مشورہ کیا کہ ہاتھی کو یہاں سے باہر کیسے نکالا جائے؟
منکی اور اس کے دوستوں کی بات سن کر مٹکو کہنے لگا ’’برائے مہربانی میرے جیسے کسی بڑے جانور کو بُلا لائو جو یہاں سے باہر نکلنے میں میری مد د کر سکے‘‘۔مٹکو کی بات سُن کر منکی بولا’’بھائی!فکر مت کرو ہم خود ہی تمہاری مدد کرنے کے لیے کافی ہیں‘‘۔منکی کی بات سُن کر مٹکو خاموش ہو رہا۔منکی نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر گڑھے میںمٹی پھینکنا شروع کی۔ان کے ہاتھ چھوٹے ضرور تھے لیکن وہ بلا کے پھُرتیلے بندر تھے۔دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے گڑھے کا آدھا حصہ مٹی سے اس قدر بھر دیاکہ ہاتھی اس پر چڑھ کر با آسانی گڑھے سے باہر نکل سکتا تھا۔اس کام میں منکی اور اس کے ساتھیوں کو کافی وقت لگ گیا لیکن با لآخر مٹکو گڑھے سے باہر آنے میں کامیاب ہو گیا۔باہر آکر مٹکو کا سر ندامت سے جھُکا ہوا تھا۔اس نے سب سے پہلے منکی اور اس کے ساتھیوں سے اپنے رویے کی معافی مانگی اور بولا کہ ’’وہ آج تک غلط سوچتا تھا۔خدا کی بنائی ہوئی ہر مخلو ق میں کوئی نہ کوئی صلاحیت پوشیدہ ہے۔اسے آج سمجھ آئی ہے کہ جسامت میں بڑا ہوانے کے باوجود اپنے جسم کے وزن سے وہ گہرائی سے اونچائی تک نہیں جا سکتا ،جبکہ ایک چھوٹا سا بندر لمحوں میں چھلانگیں لگا کر میلوں کا فاصلہ طے کر لیتا ہے‘‘۔اس نے خود سے عہد کیا کہ آج کے بعد وہ کبھی دوسروں کا تمسخر نہیں اُڑائے گا اور خُدا کی بنائی ہر مخلوق کی عزت کرے گا۔