I
intelligent086
Guest
کورونا کی دوسری لہر ۔۔۔۔ نعمان خان
آمنہ اور مومنہ دونوں ہم جماعت تھیں اوران کی اچھی دوستی بھی تھی۔یہ دونوں ساتویں جماعت میں پڑھتی تھیں اور دن بھر اکٹھے ہی گزارتیں ۔آمنہ بے حد سجھدار جبکہ مومنہ قدرے لاپرواہ اور نٹ کھٹ سی لڑکی تھی۔
کورونا کی پہلی لہر کے بعد جب سے انہوں نے دوبارہ سکول جانا شروع کیا تھا تو سکول کی جانب سے ماسک لگانے اور ایک دوسرے سے فاصلہ رکھنے کی خاص ہدایات تھیں۔جن پر آمنہ تو بھر پور عمل کرتی تھی لیکن مومنہ قدرے لاپرواہی برت جاتی۔دن میں کئی بار مومنہ بات کرنے کے دوران چہرے سے ماسک اُتار دیتی تو آمنہ اسے فوراً چہرہ ڈھکنے کو کہتی۔شروع،شروع میں تو مومنہ بے دھیانی میں ایسا کر جاتی تھی لیکن جب اس نے دیکھا کہ جونہی وہ ذرا سی بے احتیاطی کرتی ہے تو آمنہ فوراً اسے ڈانٹنے لگتی ہے۔اب اسے ایسا کرنے میں مزہ آنے لگا تھا اور کبھی کبھار وہ جان بوجھ کر صرف آمنہ کو چڑانے کے لیے بھی ماسک اُتار کے آمنہ کا بھی ماسک کھینچ دیتی یا زبردستی اس کا ہاتھ پکڑ لیتی۔آمنہ نے کئی بار اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ ایسے مذاق کا نتیجہ خطر ناک ہو سکتا ہے،لیکن مومنہ پھر بھی باز نہ آتی۔
ایک دن معمول کے مطابق مومنہ سکول پہنچی تو یہ دیکھ کر اسے حیرت ہوئی کہ آمنہ اب تک سکول نہیں آئی تھی۔جبکہ آمنہ کا گھر سکول سے زیادہ دور نہیں تھا اور وہ وقت کی بھی پابند تھی۔عموماً وہ مومنہ سے پہلے سکول پہنچ جاتی تھی،پھر اس نے سوچا کہ شاید گھر پر کوئی کام پڑ گیا ہو اس لیے سکول نہ آ پائی ہو،سو کل ملاقات ہو جائے گی،لیکن جب آمنہ اگلے دن بھی سکول سے غیر حاضر رہی تو مومنہ کو تشویش ہونے لگی کہ بھلا ایسی کیا بات ہوئی ہو گی جو وہ بغیر بتائے دو د ن سے غیر حاضر ہے۔اس نے ارادہ کیا کہ آج جب ابو اسے سکول سے لینے آئیں گے تو وہ واپسی پر ضرور آمنہ سے ملنے جائے گی۔
ارادے کے مطابق جب وہ آمنہ کے گھر کے قریب پہنچی تو وجہ جان کر پریشانی سے اس کا رنگ زرد پڑنے لگا۔آمنہ کا گھر باہر سے سیل کیا جا چکا تھا۔طبیعت خراب ہونے پر آمنہ اور اس کے گھر والو ں کا ٹیسٹ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ ان کے جسم میں کورونا کے جراثیم موجود ہیں۔مومنہ کے والد نے فوراً اس سے پوچھا کہ کیا وہ اور آمنہ ہاتھ ملاتے یا گلے ملتے تھے جس پر مومنہ نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے چہرہ نیچے کر لیا۔اس کے بعد مومنہ کا ٹیسٹ کروایا گیا تو اس کے جسم میں بھی کورونا کے جراثیم موجود تھے،لیکن طبیعت میں کچھ خاص خرابی محسوس نہیں ہو رہی تھی۔اس کے باوجود اگلے 15 دن نہ صرف آمنہ بلکہ مومنہ اور اس کے گھر والوں کو بھی گھر میں قرنطینہ کر دیا گیا۔
مومنہ کو اب احساس ہو رہا تھا کہ اس کے چھوٹے سے مذاق نے دو گھروں کے لیے کس قدر سنگین مسئلہ پیدا کر دیا تھا۔وہ جان گئی تھی کہ کورونا کی بیماری کوئی مذاق نہیں ہے۔ٹی وی پر اور ڈاکٹرز کی جانب سے بار ،بار ایک دوسرے سے سماجی فاصلہ رکھنے اور ہاتھ نہ ملانے کا پیغام ایک دوسرے کی حفاظت کے لیے دیا جا رہا ہے۔خود محفوظ رہنے اور دوسروں کی حفاظت کے لیے اتنا کافی نہیں کہ آپ دن بھر تو ماسک لگائے رکھیں لیکن چند منٹوں کے لیے بات کرنے کے دوران چہرے سے ماسک اُتار دیں ،یا چہرہ تو ڈھکا ہو لیکن ایک دوسرے سے ہاتھ بھی ملائے جائیں اور گلے بھی ملا جائے۔موجودہ حالات میں نہ صرف خود بچے رہنے بلکہ دوسروں کی حفاظت کے لیے بھی ضروری ہے کہ جب کبھی آپ کے آس پاس لوگ موجود ہوں اس دوران آپ کا چہرہ لازمی ڈھکا رہے اور ہاتھ ملا نے کی بجائے منہ سے سلام کرنے کو ترجیح دیں۔بعض اوقات کورونا کی علاما ت جسم میں موجود ہوتے ہوئے بھی یہ ظاہر نہیں ہوتیں ایسے میں چند لمحوں کی بے احتیاطی بھی کسی کے لیے جان کا خطرہ بن سکتی ہے۔یہ جراثیم چند سیکنڈز میں ہی آپ کے سانس کے ذریعے ایک سے دوسرے میں منتقل ہو سکتا ہے،لہٰذا ہر ممکن حد تک پرہیز کریں اور اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کی حفاظت بھی یقینی بنائیں۔
آمنہ اور مومنہ دونوں ہم جماعت تھیں اوران کی اچھی دوستی بھی تھی۔یہ دونوں ساتویں جماعت میں پڑھتی تھیں اور دن بھر اکٹھے ہی گزارتیں ۔آمنہ بے حد سجھدار جبکہ مومنہ قدرے لاپرواہ اور نٹ کھٹ سی لڑکی تھی۔
کورونا کی پہلی لہر کے بعد جب سے انہوں نے دوبارہ سکول جانا شروع کیا تھا تو سکول کی جانب سے ماسک لگانے اور ایک دوسرے سے فاصلہ رکھنے کی خاص ہدایات تھیں۔جن پر آمنہ تو بھر پور عمل کرتی تھی لیکن مومنہ قدرے لاپرواہی برت جاتی۔دن میں کئی بار مومنہ بات کرنے کے دوران چہرے سے ماسک اُتار دیتی تو آمنہ اسے فوراً چہرہ ڈھکنے کو کہتی۔شروع،شروع میں تو مومنہ بے دھیانی میں ایسا کر جاتی تھی لیکن جب اس نے دیکھا کہ جونہی وہ ذرا سی بے احتیاطی کرتی ہے تو آمنہ فوراً اسے ڈانٹنے لگتی ہے۔اب اسے ایسا کرنے میں مزہ آنے لگا تھا اور کبھی کبھار وہ جان بوجھ کر صرف آمنہ کو چڑانے کے لیے بھی ماسک اُتار کے آمنہ کا بھی ماسک کھینچ دیتی یا زبردستی اس کا ہاتھ پکڑ لیتی۔آمنہ نے کئی بار اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ ایسے مذاق کا نتیجہ خطر ناک ہو سکتا ہے،لیکن مومنہ پھر بھی باز نہ آتی۔
ایک دن معمول کے مطابق مومنہ سکول پہنچی تو یہ دیکھ کر اسے حیرت ہوئی کہ آمنہ اب تک سکول نہیں آئی تھی۔جبکہ آمنہ کا گھر سکول سے زیادہ دور نہیں تھا اور وہ وقت کی بھی پابند تھی۔عموماً وہ مومنہ سے پہلے سکول پہنچ جاتی تھی،پھر اس نے سوچا کہ شاید گھر پر کوئی کام پڑ گیا ہو اس لیے سکول نہ آ پائی ہو،سو کل ملاقات ہو جائے گی،لیکن جب آمنہ اگلے دن بھی سکول سے غیر حاضر رہی تو مومنہ کو تشویش ہونے لگی کہ بھلا ایسی کیا بات ہوئی ہو گی جو وہ بغیر بتائے دو د ن سے غیر حاضر ہے۔اس نے ارادہ کیا کہ آج جب ابو اسے سکول سے لینے آئیں گے تو وہ واپسی پر ضرور آمنہ سے ملنے جائے گی۔
ارادے کے مطابق جب وہ آمنہ کے گھر کے قریب پہنچی تو وجہ جان کر پریشانی سے اس کا رنگ زرد پڑنے لگا۔آمنہ کا گھر باہر سے سیل کیا جا چکا تھا۔طبیعت خراب ہونے پر آمنہ اور اس کے گھر والو ں کا ٹیسٹ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ ان کے جسم میں کورونا کے جراثیم موجود ہیں۔مومنہ کے والد نے فوراً اس سے پوچھا کہ کیا وہ اور آمنہ ہاتھ ملاتے یا گلے ملتے تھے جس پر مومنہ نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے چہرہ نیچے کر لیا۔اس کے بعد مومنہ کا ٹیسٹ کروایا گیا تو اس کے جسم میں بھی کورونا کے جراثیم موجود تھے،لیکن طبیعت میں کچھ خاص خرابی محسوس نہیں ہو رہی تھی۔اس کے باوجود اگلے 15 دن نہ صرف آمنہ بلکہ مومنہ اور اس کے گھر والوں کو بھی گھر میں قرنطینہ کر دیا گیا۔
مومنہ کو اب احساس ہو رہا تھا کہ اس کے چھوٹے سے مذاق نے دو گھروں کے لیے کس قدر سنگین مسئلہ پیدا کر دیا تھا۔وہ جان گئی تھی کہ کورونا کی بیماری کوئی مذاق نہیں ہے۔ٹی وی پر اور ڈاکٹرز کی جانب سے بار ،بار ایک دوسرے سے سماجی فاصلہ رکھنے اور ہاتھ نہ ملانے کا پیغام ایک دوسرے کی حفاظت کے لیے دیا جا رہا ہے۔خود محفوظ رہنے اور دوسروں کی حفاظت کے لیے اتنا کافی نہیں کہ آپ دن بھر تو ماسک لگائے رکھیں لیکن چند منٹوں کے لیے بات کرنے کے دوران چہرے سے ماسک اُتار دیں ،یا چہرہ تو ڈھکا ہو لیکن ایک دوسرے سے ہاتھ بھی ملائے جائیں اور گلے بھی ملا جائے۔موجودہ حالات میں نہ صرف خود بچے رہنے بلکہ دوسروں کی حفاظت کے لیے بھی ضروری ہے کہ جب کبھی آپ کے آس پاس لوگ موجود ہوں اس دوران آپ کا چہرہ لازمی ڈھکا رہے اور ہاتھ ملا نے کی بجائے منہ سے سلام کرنے کو ترجیح دیں۔بعض اوقات کورونا کی علاما ت جسم میں موجود ہوتے ہوئے بھی یہ ظاہر نہیں ہوتیں ایسے میں چند لمحوں کی بے احتیاطی بھی کسی کے لیے جان کا خطرہ بن سکتی ہے۔یہ جراثیم چند سیکنڈز میں ہی آپ کے سانس کے ذریعے ایک سے دوسرے میں منتقل ہو سکتا ہے،لہٰذا ہر ممکن حد تک پرہیز کریں اور اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کی حفاظت بھی یقینی بنائیں۔
Corona Ki Dosri Lehar By Nauman Khan