I
intelligent086
Guest
ڈرنا نہیں پڑھتے رہنا ۔۔۔۔۔ ایمن خان
’’یار یہ کیمسٹری کتنا مشکل مضمون ہے نا ‘‘ ؟ ابراہیم نے اپنے دوست بابر سے باتیں کرتے ہوئے کہا۔’’ہاں یار!لیکن محنت کے آگے کچھ مشکل نہیں ہوتا‘‘بابر نے اپنے دوست ابراہیم کو دلاسہ دینے کی کوشش کی۔اگرچہ ابراہیم ایک قابل اور لائق بچہ تھا لیکن اس کو کیمسٹری کے مضمون سے شدید نفرت تھی۔بابر سمجھتا تھا کہ ابراہیم کیمسٹری کو سمجھنے کی کوشش بھی کرتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ دوسرے مضامین کی طرح اسے پوری طرح سمجھنے میں نا کام رہتا ہے ۔ بابر کبھی سمجھ نہیں پایا تھا کہ آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ باقی مضامین میں اس قد ر لائق لڑکا محض ایک مضمون کو بالکل سمجھ نہیں پاتا۔
ابھی وہ دونوں باتیں ہی کر رہے تھے کہ سر ذوالفقار کلاس میں داخل ہوئے۔انہیں دیکھتے ہی ابراہیم اپنی جگہ سہم سا گیا اور کتاب پر اس قدر جھک گیا کہ سر ذوالفقار اس کا چہرہ نہ دیکھ پائیں۔کلاس میں آنے کے بعد سر نے سب کی حاضری لگائی اور لیکچر دینا شروع کر دیا۔ابراہیم دل ہی دل میں دعائیں کر رہا تھا کہ کسی طرح40 منٹ کا پیریڈ گزر جائے اور سر کی نظر اس پر نہ پڑے۔اس کا دماغ لیکچر سننے کی بجائے یہی سوچنے میں مصروف تھا،لیکن یہ بھلا کیسے ممکن تھا کہ سر ذوالفقار کی نظر اپنی کلاس کے سب سے کمزور بچے پر نہ پڑتی۔انہوں نے جب پوری کلاس میں ابراہیم کو کتاب میں چہرہ چھپائے دیکھا تو گہری سانس لیتے ہوئے لیکچر روک دیا،اور قدرے رعب دار آواز میں ابراہیم کا نام پکارتے ہوئے اسے چہرہ اٹھانے کو کہا۔ابراہیم کی اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے ہی رہ گئی۔بابر بھی سمجھ گیا تھا کہ روزانہ کی طرح آج بھی اس کے دوست کی شامت پکی ہے۔ابراہیم نے ڈرتے ڈرتے چہرہ اٹھا کر سر دوالفقار کی جانب یکھا تو وہ بغور اسے ہی دیکھ رہے تھے۔انہوں نے انگلی کے اشار ے سے اسے پاس آنے کو کہا۔ابراہیم سمجھ گیا تھا کہ آج بھی پوری کلاس کے سامنے اس کی بے عزتی پکی ہے،حالانکہ سر ذوالفقار کوئی ایسے سخت مزاج استاد نہیں تھے،لیکن ان کے چہرے پر موجود رعب دیکھ کر جانے کیوں ابراہیم کی سانس رکنے لگتی تھی۔
سر ذوالفقار نے ابراہیم کی جانب بورڈ مارکر بڑھاتے ہوئے کہا کہ ا ب تک لیکچر میں جو کچھ وہ بتا چکے ہیں وہی سب کلاس کو لکھ کر سمجھائے۔مرے مرے ہاتھوں سے بورڈ مارکر پکڑتے ہوئے ابراہیم نے سر جھکائے ہی نظریں اٹھا کر سر ذوالفقار کو دیکھا اور چند لمحے یونہی کھڑے رہنے کے بعد پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔سر ذوالفقار اس کی امید نہیں کر رہے تھے۔اچانک ہی وہ پریشان ہوتے ہوئے گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گئے اور ابراہیم کو دلاسہ دیتے ہوئے چپ کروانے کی کوشش کرنے لگے۔انہوں نے ابراہیم سے اکیلے میں بات کرنے کا فیصلہ کیا اور اسے خاموش کروا کے واپس اپنی کرسی پر بیٹھنے کو کہا۔چہرہ صاف کرتے ہوئے ابراہیم واپس آگیا۔وہ اندر ہی اندر شرمندگی بھی محسوس کر رہا تھا کہ یہ آخر اسے کیا ہو گیا تھا۔
۔40 منٹ بعد پیریڈ ختم ہو ا تو واپس جاتے ہوئے سر ذوالفقار ،ابراہیم کی کرسی کے پاس رک کر بولے’’آج بریک ٹائم میں مجھ سے آفس آ کر ملنا۔‘‘جواب میں ابراہیم نے اثبا ت میں سر ہلا دیا۔وہ اندر ہی اندر خوفزدہ بھی تھا لیکن با لآخر ہمت کر کے سر سے ملنے چلا گیا۔خوش قسمتی سے اس وقت سر آفس میں اکیلے ہی بیٹھے تھے۔ابراہیم نے اندر آنے کی اجازت چاہی تو انہوں نے مسکراتے ہوئے اسے پاس کی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ابراہیم سوالیہ نظروں سے سر کی جانب دیکھ رہا تھا۔اتنے میں سر ذوالفقار اپنے مخصوص رعب دار لہجے میں لیکن قدرے نرمی سے بولے’’بیٹا! میں جانتا ہوں کہ تم نالائق لڑکے نہیں ہو۔تمہارے باقی مضامین کے استاد ہمیشہ تمہاری تعریف کرتے ہیں،پھر آخر کیاوجہ ہے کہ کیمسٹری میں تم بمشکل پاس ہو پاتے ہو‘‘؟
جواب میں ابراہیم اپنی تمام تر ہمت جمع کرتے ہوئے بولا’’سر!مجھے آپ سے ڈر لگتا ہے۔‘‘
ابراہیم کا جواب سن کر سر کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی اور وہ مسئلے کی وجہ سمجھتے ہوئے گویا ہوئے’’یہی وجہ ہے کہ تم میرے لیکچر پر دھیان نہیں دے پاتے۔بیٹا!آپ محنتی لڑکے ہو اور محنت کرنے والوں کو اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرنا چاہیے۔آپ کو اپنے اساتذہ کا احترام ضرور کرنا چاہیے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ اس مضمون کو اپنے لیے مشکل بنا لیں۔ایسے میں آپ کا ذہن کچھ بھی یاد کرنے کی بجائے خوف کو اپنے اوپر طاری کیے رکھے گا۔بیٹا!آپ کے ماں ،باپ کی طرح ہم بھی آپ کے روحانی والدین ہیں۔کسی بھی پریشانی کی صورت میں آپ کو چاہیے کہ اپنے اساتذہ سے بات کر کے اس کا حل تلاش کریں ،کیونکہ آپ ہمارے لیے اپنے بچوں کی طرح ہو۔‘‘
ابراہیم نے جب یہ باتیں سنیں تو اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور اس کا ڈر بھی ختم ہو گیا۔اس نے سر ذوالفقار سے وعدہ کیا کہ وہ آج سے کیمسٹری کو بغیر کسی ڈر اور خوف کے یاد کرے گا اور اسے سمجھنے کی کوشش کرے گا۔
’’یار یہ کیمسٹری کتنا مشکل مضمون ہے نا ‘‘ ؟ ابراہیم نے اپنے دوست بابر سے باتیں کرتے ہوئے کہا۔’’ہاں یار!لیکن محنت کے آگے کچھ مشکل نہیں ہوتا‘‘بابر نے اپنے دوست ابراہیم کو دلاسہ دینے کی کوشش کی۔اگرچہ ابراہیم ایک قابل اور لائق بچہ تھا لیکن اس کو کیمسٹری کے مضمون سے شدید نفرت تھی۔بابر سمجھتا تھا کہ ابراہیم کیمسٹری کو سمجھنے کی کوشش بھی کرتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ دوسرے مضامین کی طرح اسے پوری طرح سمجھنے میں نا کام رہتا ہے ۔ بابر کبھی سمجھ نہیں پایا تھا کہ آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ باقی مضامین میں اس قد ر لائق لڑکا محض ایک مضمون کو بالکل سمجھ نہیں پاتا۔
ابھی وہ دونوں باتیں ہی کر رہے تھے کہ سر ذوالفقار کلاس میں داخل ہوئے۔انہیں دیکھتے ہی ابراہیم اپنی جگہ سہم سا گیا اور کتاب پر اس قدر جھک گیا کہ سر ذوالفقار اس کا چہرہ نہ دیکھ پائیں۔کلاس میں آنے کے بعد سر نے سب کی حاضری لگائی اور لیکچر دینا شروع کر دیا۔ابراہیم دل ہی دل میں دعائیں کر رہا تھا کہ کسی طرح40 منٹ کا پیریڈ گزر جائے اور سر کی نظر اس پر نہ پڑے۔اس کا دماغ لیکچر سننے کی بجائے یہی سوچنے میں مصروف تھا،لیکن یہ بھلا کیسے ممکن تھا کہ سر ذوالفقار کی نظر اپنی کلاس کے سب سے کمزور بچے پر نہ پڑتی۔انہوں نے جب پوری کلاس میں ابراہیم کو کتاب میں چہرہ چھپائے دیکھا تو گہری سانس لیتے ہوئے لیکچر روک دیا،اور قدرے رعب دار آواز میں ابراہیم کا نام پکارتے ہوئے اسے چہرہ اٹھانے کو کہا۔ابراہیم کی اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے ہی رہ گئی۔بابر بھی سمجھ گیا تھا کہ روزانہ کی طرح آج بھی اس کے دوست کی شامت پکی ہے۔ابراہیم نے ڈرتے ڈرتے چہرہ اٹھا کر سر دوالفقار کی جانب یکھا تو وہ بغور اسے ہی دیکھ رہے تھے۔انہوں نے انگلی کے اشار ے سے اسے پاس آنے کو کہا۔ابراہیم سمجھ گیا تھا کہ آج بھی پوری کلاس کے سامنے اس کی بے عزتی پکی ہے،حالانکہ سر ذوالفقار کوئی ایسے سخت مزاج استاد نہیں تھے،لیکن ان کے چہرے پر موجود رعب دیکھ کر جانے کیوں ابراہیم کی سانس رکنے لگتی تھی۔
سر ذوالفقار نے ابراہیم کی جانب بورڈ مارکر بڑھاتے ہوئے کہا کہ ا ب تک لیکچر میں جو کچھ وہ بتا چکے ہیں وہی سب کلاس کو لکھ کر سمجھائے۔مرے مرے ہاتھوں سے بورڈ مارکر پکڑتے ہوئے ابراہیم نے سر جھکائے ہی نظریں اٹھا کر سر ذوالفقار کو دیکھا اور چند لمحے یونہی کھڑے رہنے کے بعد پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔سر ذوالفقار اس کی امید نہیں کر رہے تھے۔اچانک ہی وہ پریشان ہوتے ہوئے گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گئے اور ابراہیم کو دلاسہ دیتے ہوئے چپ کروانے کی کوشش کرنے لگے۔انہوں نے ابراہیم سے اکیلے میں بات کرنے کا فیصلہ کیا اور اسے خاموش کروا کے واپس اپنی کرسی پر بیٹھنے کو کہا۔چہرہ صاف کرتے ہوئے ابراہیم واپس آگیا۔وہ اندر ہی اندر شرمندگی بھی محسوس کر رہا تھا کہ یہ آخر اسے کیا ہو گیا تھا۔
۔40 منٹ بعد پیریڈ ختم ہو ا تو واپس جاتے ہوئے سر ذوالفقار ،ابراہیم کی کرسی کے پاس رک کر بولے’’آج بریک ٹائم میں مجھ سے آفس آ کر ملنا۔‘‘جواب میں ابراہیم نے اثبا ت میں سر ہلا دیا۔وہ اندر ہی اندر خوفزدہ بھی تھا لیکن با لآخر ہمت کر کے سر سے ملنے چلا گیا۔خوش قسمتی سے اس وقت سر آفس میں اکیلے ہی بیٹھے تھے۔ابراہیم نے اندر آنے کی اجازت چاہی تو انہوں نے مسکراتے ہوئے اسے پاس کی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ابراہیم سوالیہ نظروں سے سر کی جانب دیکھ رہا تھا۔اتنے میں سر ذوالفقار اپنے مخصوص رعب دار لہجے میں لیکن قدرے نرمی سے بولے’’بیٹا! میں جانتا ہوں کہ تم نالائق لڑکے نہیں ہو۔تمہارے باقی مضامین کے استاد ہمیشہ تمہاری تعریف کرتے ہیں،پھر آخر کیاوجہ ہے کہ کیمسٹری میں تم بمشکل پاس ہو پاتے ہو‘‘؟
جواب میں ابراہیم اپنی تمام تر ہمت جمع کرتے ہوئے بولا’’سر!مجھے آپ سے ڈر لگتا ہے۔‘‘
ابراہیم کا جواب سن کر سر کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی اور وہ مسئلے کی وجہ سمجھتے ہوئے گویا ہوئے’’یہی وجہ ہے کہ تم میرے لیکچر پر دھیان نہیں دے پاتے۔بیٹا!آپ محنتی لڑکے ہو اور محنت کرنے والوں کو اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرنا چاہیے۔آپ کو اپنے اساتذہ کا احترام ضرور کرنا چاہیے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ اس مضمون کو اپنے لیے مشکل بنا لیں۔ایسے میں آپ کا ذہن کچھ بھی یاد کرنے کی بجائے خوف کو اپنے اوپر طاری کیے رکھے گا۔بیٹا!آپ کے ماں ،باپ کی طرح ہم بھی آپ کے روحانی والدین ہیں۔کسی بھی پریشانی کی صورت میں آپ کو چاہیے کہ اپنے اساتذہ سے بات کر کے اس کا حل تلاش کریں ،کیونکہ آپ ہمارے لیے اپنے بچوں کی طرح ہو۔‘‘
ابراہیم نے جب یہ باتیں سنیں تو اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور اس کا ڈر بھی ختم ہو گیا۔اس نے سر ذوالفقار سے وعدہ کیا کہ وہ آج سے کیمسٹری کو بغیر کسی ڈر اور خوف کے یاد کرے گا اور اسے سمجھنے کی کوشش کرے گا۔
Darna Nahin Parhtay Rehna By Ayman Khan