M
Maria-Noor
Guest
عاقل سمجھا کہ کوئی ڈاکو اس سے اس کا مال لوٹنا چاہتا ہے۔ نقاب پوش نے کوئی جواب دینے کے بجائے اپنے چہرے سے نقاب ہٹا دیا۔ عاقل نے فوراََ باقر کو پہچان لیا۔
باقر بولا'' میں تمھارا پرانادوست باقر ہوں۔ تم کیسا ہی بھیس بدل لومیں تمھیں پہچاننے میں غلطی نہیں کر سکتا ، کیوں کہ جتنا تم خود کو جانتے ہو میں دعوے سے کہ سکتا ہوں اتنا ہی میں تمھیں جانتا ہوں''۔
''چلو! میں اقرار کرتا ہوں کہ میں عاقل ہوں ، مگر تم میرے تعاقب میں کیوں ہو''؟
عاقل نے اعتراف کرتے ہوئے پوچھا۔
''تمھیں نہیں معلوم ، بادشاہ کو تمھاری تلاش ہے''؟
''کیوں میرا جرم کیا ہے ؟ یہی ناکہ وزراء کی ناراضگی سے بچنے کے لیے میں چپ چاپ دربار چھوڑدیا'' عاقل نے آزردگی سے کہا۔
''نہیں میرے دوست ! تمھارے اچانک بغیر بتائے دربار چھوڑدینے کی وجہ سے وزیر نے تم پر شاہی خزانے سے زر و جواہر چوری کرکے فرار ہونے کا الزام لگایا ہے۔میرے علاوہ بھی بادشاہ کے کئی کارندے تمھیں تلاش کررہے ہیں۔ مجھے تو خاص طور پر بادشاہ سلامت نے حکم دیا ہے ، جب کہ میں تمھاری تلاش میں آنا نہیں چاہتا تھا ، کیوں کہ میں تمھیں اچھی طرح جانتا ہوں کہ تم سدا کے فضول خرچ ہومگر چور ہرگز نہیں ہو۔ وزیر تم پر چوری کا الزام لگا کر تمھیں بادشاہ کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اْتار کر ہمیشہ کے لیے تم سے نجات چاہتا ہے'' باقر نے اس کے تعاقب میں آنے کی اپنی مجبوری بیان کی۔
عاقل نے جب یہ دیکھا کہ بادشاہ کے حکم کی وجہ سے باقر کسی صورت میرا پیچھا نہیں چھوڑے گا تو اس نے باقر کو ایک قیمتی ہار دیتے ہوئے کہا ''دیکھو ، یہ بادشاہ کی طرف سے ملنے والے انعام سے کہیں زیادہ قیمتی ہے۔ یہ لے لواور مفت میں میرا خون اپنے سر نہ لو''۔
باقر نے ہار واپس کرتے ہوئے کہا '' عاقل! تم میرے ایک سوال کا جواب دو،میں نے ہمیشہ تمھیں فضول خرچیوں سے روکا،جب کہ تم نے ہمیشہ مجھے کنجوس ، تنگ دل اور لالچی سمجھا۔ یہ بتاؤ تم مجھے اس ہار کی صورت کیا اپنی تمام جمع پونجی بخش رہے ہو'' ؟
''نہیں ، ایک ہار اور بھی میرے پاس ہے''۔ عاقل یہ بتاتے ہوئے سوچ رہاتھا کہ اب باقر دوسرے ہار کا بھی مطالبہ کرے گا۔
باقر نے کہا '' تم جانتے ہو کہ بادشاہ کی طرف سے مجھے ہرماہ بیس درہم اْجرت ملتی ہے اور اس ہار کی قیمت لاکھوں میں ہے۔ اب تم اپنے مقابلے میں میری سخاوت دیکھو، میں یہ ہار اور تمھاری جان تمھیں بخش کر واپس جارہاہوں۔ میری دعا ہے ، جہاں رہو ، خوش رہو۔ اب تم خود فیصلہ کر لو کہ زیادہ سخی کون ہے ؟ اور کیا میں کنجوس ، بخیل اور لالچی ہوں''۔
اتنا کہہ کر باقر نے گھوڑے کا رخ موڑا اور جدھر سے آیا تھا ، اسی طرف چلا گیا۔(ختم شُد)
باقر بولا'' میں تمھارا پرانادوست باقر ہوں۔ تم کیسا ہی بھیس بدل لومیں تمھیں پہچاننے میں غلطی نہیں کر سکتا ، کیوں کہ جتنا تم خود کو جانتے ہو میں دعوے سے کہ سکتا ہوں اتنا ہی میں تمھیں جانتا ہوں''۔
''چلو! میں اقرار کرتا ہوں کہ میں عاقل ہوں ، مگر تم میرے تعاقب میں کیوں ہو''؟
عاقل نے اعتراف کرتے ہوئے پوچھا۔
''تمھیں نہیں معلوم ، بادشاہ کو تمھاری تلاش ہے''؟
''کیوں میرا جرم کیا ہے ؟ یہی ناکہ وزراء کی ناراضگی سے بچنے کے لیے میں چپ چاپ دربار چھوڑدیا'' عاقل نے آزردگی سے کہا۔
''نہیں میرے دوست ! تمھارے اچانک بغیر بتائے دربار چھوڑدینے کی وجہ سے وزیر نے تم پر شاہی خزانے سے زر و جواہر چوری کرکے فرار ہونے کا الزام لگایا ہے۔میرے علاوہ بھی بادشاہ کے کئی کارندے تمھیں تلاش کررہے ہیں۔ مجھے تو خاص طور پر بادشاہ سلامت نے حکم دیا ہے ، جب کہ میں تمھاری تلاش میں آنا نہیں چاہتا تھا ، کیوں کہ میں تمھیں اچھی طرح جانتا ہوں کہ تم سدا کے فضول خرچ ہومگر چور ہرگز نہیں ہو۔ وزیر تم پر چوری کا الزام لگا کر تمھیں بادشاہ کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اْتار کر ہمیشہ کے لیے تم سے نجات چاہتا ہے'' باقر نے اس کے تعاقب میں آنے کی اپنی مجبوری بیان کی۔
عاقل نے جب یہ دیکھا کہ بادشاہ کے حکم کی وجہ سے باقر کسی صورت میرا پیچھا نہیں چھوڑے گا تو اس نے باقر کو ایک قیمتی ہار دیتے ہوئے کہا ''دیکھو ، یہ بادشاہ کی طرف سے ملنے والے انعام سے کہیں زیادہ قیمتی ہے۔ یہ لے لواور مفت میں میرا خون اپنے سر نہ لو''۔
باقر نے ہار واپس کرتے ہوئے کہا '' عاقل! تم میرے ایک سوال کا جواب دو،میں نے ہمیشہ تمھیں فضول خرچیوں سے روکا،جب کہ تم نے ہمیشہ مجھے کنجوس ، تنگ دل اور لالچی سمجھا۔ یہ بتاؤ تم مجھے اس ہار کی صورت کیا اپنی تمام جمع پونجی بخش رہے ہو'' ؟
''نہیں ، ایک ہار اور بھی میرے پاس ہے''۔ عاقل یہ بتاتے ہوئے سوچ رہاتھا کہ اب باقر دوسرے ہار کا بھی مطالبہ کرے گا۔
باقر نے کہا '' تم جانتے ہو کہ بادشاہ کی طرف سے مجھے ہرماہ بیس درہم اْجرت ملتی ہے اور اس ہار کی قیمت لاکھوں میں ہے۔ اب تم اپنے مقابلے میں میری سخاوت دیکھو، میں یہ ہار اور تمھاری جان تمھیں بخش کر واپس جارہاہوں۔ میری دعا ہے ، جہاں رہو ، خوش رہو۔ اب تم خود فیصلہ کر لو کہ زیادہ سخی کون ہے ؟ اور کیا میں کنجوس ، بخیل اور لالچی ہوں''۔
اتنا کہہ کر باقر نے گھوڑے کا رخ موڑا اور جدھر سے آیا تھا ، اسی طرف چلا گیا۔(ختم شُد)