I
intelligent086
Guest
گھر رہو،محفوظ رہو ..... تحریر : نعمان خان
''امی اس وقت تو باہر کوئی بھی نہیں ہو گا۔آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ کچھ ہی دیر کھیل کر واپس آ جائوں گا‘‘نومی اپنی امی سے درخواست کرتے ہوئے بولا۔نومی پانچویں جماعت کا طالب علم تھا اور اسے باسکٹ بال کھیلنے کا بے حد شوق تھا۔جب تک سکول کھلے تھے تب تک تو وہ سکول کے گرائونڈ میں ہی باسکٹ بال کی مشق کر لیا کرتا تھا،لیکن جب سے سکول بند ہوئے تھے اسے مشق کرنے کا موقع نہیں مل رہا تھا۔پچھلے کئی دنوں سے وہ اپنی امی کو اس بات کے لیے منانے کی کوشش کر رہا تھا کہ وہ اسے کچھ دیر کے لیے ہی اپنے دوستوں کے ساتھ گھر کے قریب موجود گرائونڈ میں باسکٹ بال کھیلنے کے لیے جانے دیں لیکن ہر بار وہ آہستگی سے انکار کر دیتی تھیں۔ان کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کے سبب ایک دوسرے سے میل جول رکھنا ٹھیک نہیں ہے۔جب حالات بہتر ہو جائیں گے تو وہ پھر سے اپنا کھیل شروع کر سکتا ہے۔
کئی دن تک تو نومی نے خود پر جبر کیے رکھا لیکن اب وہ گھر میں رہتے ہوئے شدید بور ہونے لگا تھا اورنہ کھیل سکنے کا بھی اسے شدید دُکھ تھا۔آج اس نے سوچا کہ اب تو موسم گرم ہو گیا ہے ایسے میں دوپہر کو باہر کوئی بھی نہیں ہو گا تو دوستوں کے ساتھ نہ سہی لیکن اکیلے تو مشق کرنے کے لیے گرائونڈ میں جایا جا ہی سکتا ہے۔اس بات کا ذکر جب اس نے اپنی امی سے کیا تو اب کی بار بھی انہوں نے صاف انکار کر دیا جس پر نومی کا موڈ خراب ہو گیااور وہ امی سے بحث کرتے ہوئے بولا ''لیکن امی!آپ کا ہی کہنا تھا کہ جراثیم سے بچنے کے لیے ایک دوسرے سے دور رہنا ضروری ہے پھر آپ مجھے اکیلے کیوں نہیں جانے دے رہیں‘‘؟
نومی کی بات سن کر اس کی امی نے پیار سے سر سہلاتے ہوئے اسے پاس بٹھایا اور سمجھاتے ہوئے بولیںــ''بیٹا!میں آپ کو باہر جانے سے اس لیے روک رہی ہوں کیونکہ اس وقت اکیلے گھر سے باہر نکلنا بھی آپ کی صحت کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتا ہے‘‘۔نومی سوالیہ انداز میں بولا''وہ کیسے‘‘؟
جس پر نومی کی امی جواب دیتے ہوئے بولیں''بیٹا!آپ نے دیکھا ہو گا کہ دُنیا بھر کے ٹی وی چینلز اور ہماری اپنی حکومت کی جانب سے بھی بار بار گھروں کے اندر رہنے کی تلقین کی جا رہی ہے۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کورونا کا خطر ناک جراثیم صرف ایک سے دوسرے میں ہی منتقل نہیں ہو رہا بلکہ اس کا اثر فضا میں موجود رہتا ہے۔یہ سانس لینے ،کھانسنے اور چھینکنے سے بھی ایک سے دوسرے میں با آسانی منتقل ہو سکتا ہے۔ایسے میں چاہے کوئی آپ کے قریب موجود نہیں ہے لیکن تھوڑی دوری سے بھی کسی کی ذرا سی بے احتیاطی آپ کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔اس وقت آپ کے لیے سب سے مناسب یہی ہے کہ جس قدر ہو سکے گھر کے اندر ہی رہا جائے ۔اسی میں ہم سب کا فائدہ ہے۔چند روز گھروں میں خود کو قید کر لینے سے یہ جراثیم ایک سے دوسرے میں منتقل ہونا بند ہو جائے گا اور یوں انشاء اللہ جلد ہی اس کا خاتمہ ہو جائے گا۔تب آپ پھر سے سکول بھی جانا اور چاہو تو گرائونڈ میں بھی جا کر کھیلنا،لیکن آج اگر ہم کسی نہ کسی وجہ سے باہر نکلتے رہے تو ممکن ہے کہ اس پر قابو نہ پایا جا سکے اور مزید کئی دنوں تک ہماری وجہ سے دوسروں کو بھی گھروں میں قید رہنا پڑے‘‘۔
امی کی بات نومی کی سمجھ میں آ چکی تھی او ر اس نے دل میں تہیہ کیا کہ جب تک حالات مکمل طور پر بہتر نہیں ہو جاتے تب تک وہ گھر میں ہی رہے گا تا کہ خود بھی محفوظ رہے اور کورونا سے بھی جلد نجات ملے۔
''امی اس وقت تو باہر کوئی بھی نہیں ہو گا۔آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ کچھ ہی دیر کھیل کر واپس آ جائوں گا‘‘نومی اپنی امی سے درخواست کرتے ہوئے بولا۔نومی پانچویں جماعت کا طالب علم تھا اور اسے باسکٹ بال کھیلنے کا بے حد شوق تھا۔جب تک سکول کھلے تھے تب تک تو وہ سکول کے گرائونڈ میں ہی باسکٹ بال کی مشق کر لیا کرتا تھا،لیکن جب سے سکول بند ہوئے تھے اسے مشق کرنے کا موقع نہیں مل رہا تھا۔پچھلے کئی دنوں سے وہ اپنی امی کو اس بات کے لیے منانے کی کوشش کر رہا تھا کہ وہ اسے کچھ دیر کے لیے ہی اپنے دوستوں کے ساتھ گھر کے قریب موجود گرائونڈ میں باسکٹ بال کھیلنے کے لیے جانے دیں لیکن ہر بار وہ آہستگی سے انکار کر دیتی تھیں۔ان کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کے سبب ایک دوسرے سے میل جول رکھنا ٹھیک نہیں ہے۔جب حالات بہتر ہو جائیں گے تو وہ پھر سے اپنا کھیل شروع کر سکتا ہے۔
کئی دن تک تو نومی نے خود پر جبر کیے رکھا لیکن اب وہ گھر میں رہتے ہوئے شدید بور ہونے لگا تھا اورنہ کھیل سکنے کا بھی اسے شدید دُکھ تھا۔آج اس نے سوچا کہ اب تو موسم گرم ہو گیا ہے ایسے میں دوپہر کو باہر کوئی بھی نہیں ہو گا تو دوستوں کے ساتھ نہ سہی لیکن اکیلے تو مشق کرنے کے لیے گرائونڈ میں جایا جا ہی سکتا ہے۔اس بات کا ذکر جب اس نے اپنی امی سے کیا تو اب کی بار بھی انہوں نے صاف انکار کر دیا جس پر نومی کا موڈ خراب ہو گیااور وہ امی سے بحث کرتے ہوئے بولا ''لیکن امی!آپ کا ہی کہنا تھا کہ جراثیم سے بچنے کے لیے ایک دوسرے سے دور رہنا ضروری ہے پھر آپ مجھے اکیلے کیوں نہیں جانے دے رہیں‘‘؟
نومی کی بات سن کر اس کی امی نے پیار سے سر سہلاتے ہوئے اسے پاس بٹھایا اور سمجھاتے ہوئے بولیںــ''بیٹا!میں آپ کو باہر جانے سے اس لیے روک رہی ہوں کیونکہ اس وقت اکیلے گھر سے باہر نکلنا بھی آپ کی صحت کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتا ہے‘‘۔نومی سوالیہ انداز میں بولا''وہ کیسے‘‘؟
جس پر نومی کی امی جواب دیتے ہوئے بولیں''بیٹا!آپ نے دیکھا ہو گا کہ دُنیا بھر کے ٹی وی چینلز اور ہماری اپنی حکومت کی جانب سے بھی بار بار گھروں کے اندر رہنے کی تلقین کی جا رہی ہے۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کورونا کا خطر ناک جراثیم صرف ایک سے دوسرے میں ہی منتقل نہیں ہو رہا بلکہ اس کا اثر فضا میں موجود رہتا ہے۔یہ سانس لینے ،کھانسنے اور چھینکنے سے بھی ایک سے دوسرے میں با آسانی منتقل ہو سکتا ہے۔ایسے میں چاہے کوئی آپ کے قریب موجود نہیں ہے لیکن تھوڑی دوری سے بھی کسی کی ذرا سی بے احتیاطی آپ کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔اس وقت آپ کے لیے سب سے مناسب یہی ہے کہ جس قدر ہو سکے گھر کے اندر ہی رہا جائے ۔اسی میں ہم سب کا فائدہ ہے۔چند روز گھروں میں خود کو قید کر لینے سے یہ جراثیم ایک سے دوسرے میں منتقل ہونا بند ہو جائے گا اور یوں انشاء اللہ جلد ہی اس کا خاتمہ ہو جائے گا۔تب آپ پھر سے سکول بھی جانا اور چاہو تو گرائونڈ میں بھی جا کر کھیلنا،لیکن آج اگر ہم کسی نہ کسی وجہ سے باہر نکلتے رہے تو ممکن ہے کہ اس پر قابو نہ پایا جا سکے اور مزید کئی دنوں تک ہماری وجہ سے دوسروں کو بھی گھروں میں قید رہنا پڑے‘‘۔
امی کی بات نومی کی سمجھ میں آ چکی تھی او ر اس نے دل میں تہیہ کیا کہ جب تک حالات مکمل طور پر بہتر نہیں ہو جاتے تب تک وہ گھر میں ہی رہے گا تا کہ خود بھی محفوظ رہے اور کورونا سے بھی جلد نجات ملے۔