M
Maria-Noor
Guest
حق کی فکر
(پریم چند کی ایک کہانی)
ٹامی یوں دیکھنے میں تو بہت تگڑا تھا۔ بھونکتا تو سننے والوں کے کانوں کے پردے پھٹ جاتے۔ ڈیل ڈول بھی ایسا تھا کہ اندھیری رات میں اس پر گدھے کا شبہ ہوتا، لیکن اس کی دلیری کسی معرکے میں کبھی ظاہر نہ ہوتی تھی۔
دو چار بار جب بازار کے لیڈروں نے اسے للکارا تو وہ جسارت کا مزہ چکھانے کے لیے میدان میں آیا۔ دیکھنے والوں کا کہنا ہے کہ جب تک لڑا جیوٹ سے لڑا۔ پنجے اور دانتوں سے زیادہ چوٹیں اس کی دُم نے کیں۔ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ بالآخر میدان کس کے ہاتھ رہا، لیکن جب فریق مخالف کو اپنی حمایت کے لیے اور کمک منگانی پڑی تو جنگی اصول کے مطابق فتح کا سہرا ٹامی کے سَر رکھنا زیادہ منصفانہ معلوم ہوتا ہے۔
ٹامی نے اس وقت مصلحت سے کام لیا اور دانت نکال دیے جو صلح کی علامت تھی۔ اس نے ایسے بے اصولوں اور بے راہ رقیبوں کو منہ نہ لگایا۔
اتنا صلح پسند ہونے پر بھی ٹامی کے رقیبوں کی تعداد روز بروز بڑھتی جاتی تھی۔ اس کے برابر والے تو اس سے اس لیے جلتے تھے کہ یہ اتنا موٹا تازہ ہو کر بھی اس قدر صلح پسند کیوں ہے۔ اتنے دشمنوں کے بیچ میں رہ کر ٹامی کی زندگی دشوار ہو جاتی تھی۔ مہینوں گزر جاتے اور پیٹ بھر کھانا نہ ملتا۔
دو تین بار اسے من مانا کھانا کھانے کی ایسی شدید خواہش ہو گئی کہ اس نے غلط طریقوں سے اسے پورا کرنے کی کوشش کی، مگر نتیجہ امید کے خلاف ہوا اور مزے دار کھانوں کے بدلے اسے ثقیل چیزیں بھر پیٹ کھانے کو ملیں جن سے پیٹ کے بدلے پیٹھ میں کئی دن تک درد ہوتا رہا تو اس نے مجبور ہو کر مل جل کر کھانے کی روش پھر اختیار کر لی۔
ڈنڈوں سے پیٹ چاہے بھر گیا ہو، لیکن ہوس ختم نہ ہوئی۔ وہ کسی ایسی جگہ جانا چاہتا تھا جہاں خوب شکار ملے، ہرن اور خرگوش اور بھیڑوں کے بچے میدانوں میں چرتے ہوں۔ جہاں ان کا کوئی مالک نہ ہو، کسی رقیب کا اندیشہ تک نہ ہو۔ آرام کرنے کو گھنے درختوں کا سایہ ہو۔ پینے کو ندی کا صاف ستھرا پانی ہو، وہاں من مانا شکار کروں، کھاؤں اور میٹھی نیند سوؤں۔
چاروں طرف میری دھاک جم جائے، سب پر ایسا رعب چھا جائے کہ مجھی کو اپنا راجا سمجھنے لگیں اور دھیرے دھیرے میرا ایسا سکہ بیٹھ جائے کہ کسی وقت کسی رقیب کو ادھر آنے کی ہمت نہ ہو۔
اتفاق سے ایک دن وہ انہی خیالوں کے سرور میں سر جھکائے سڑک چھوڑ کر گلیوں میں سے چلا جا رہا تھا کہ دفعتاً ایک جواں ہمت حریف سے اس کی مڈبھیڑ ہوگئی۔ ٹامی نے چاہا کہ بچ کر نکل جائے مگر وہ بدمعاش اتنا امن پسند نہ تھا، اس نے فورا جھپٹ کر ٹامی کی گردن پکڑ لی۔
آخر میں ہار کر ٹامی نے نہایت بے کسانہ انداز سے فریاد کرنی شروع کی۔ یہ سن کر محلے کے دو چار نیتا جمع ہوگئے لیکن بجائے اس کے کہ اس کی بے کسی پر رحم کریں، وہ الٹے ٹامی پر ہی ٹوٹ پڑے۔ اس غیرمنصفانہ برتاؤ نے ٹامی کا دل توڑ دیا۔ وہ جان چھڑا کر بھاگا، لیکن ان ظالموں نے بہت دور تک اس کا تعاقب کیا، یہاں تک کہ راستے میں ایک ندی پڑ گئی اور ٹامی نے اس میں کود کر اپنی جان بچائی۔
کہتے ہیں کہ ایک دن سب کے دن پھرتے ہیں۔ ٹامی کے دن بھی ندی میں کودتے ہی پھر گئے۔ تیرتا ہوا اس پار پہنچا تو وہاں تمناؤں کی کلیاں کھلی ہوئی تھیں۔
یہ نہایت وسیع میدان تھا۔ جہاں تک نگاہ جاتی تھی، ہریالی ہی ہریالی نظر آتی۔ کہیں جھرنا بہنے کا دھیما ترنم تھا تو کہیں درختوں کے جھنڈ تھے اور ریت کے سپاٹ میدان۔ بڑا ہی دل فریب منظر تھا۔ بھانت بھانت کے پرندے اور چوپائے نظر آئے، بعض ایسے لمبے چوڑے کہ ٹامی انہیں دیکھ کر تھرا اٹھا۔ بعض ایسے خونخوار کہ ان کی آنکھ سے شعلے نکل رہے تھے۔
وہ آپس میں اکثر لڑا کرتے تھے اور اکثر خون کی ندی بہتی تھی۔ ٹامی نے دیکھا کہ وہ ان خوف ناک دشمنوں سے پیش نہ پاسکے گا، اس لیے اس نے مصلحت سے کام لینا شروع کیا۔ جب دو لڑنے والوں میں ایک زخمی یا مردہ ہو کر گر پڑتا تو ٹامی لپک کر گوشت کا ٹکڑا لے بھاگتا اور تنہائی میں بیٹھ کر کھاتا۔ فاتح جانور اپنی کام یابی کے نشے میں اسے حقیر سمجھ کر کچھ نہ کہتا۔
تھوڑے ہی دنوں میں قوت بخش کھانوں نے ٹامی پر جادو کا سا اثر پیدا کیا۔ وہ پہلے سے کہیں زیادہ لحیم شحیم، دراز قد اور خوف ناک ہو گیا۔ چھلانگیں بھرتا اور کسی چھوٹے موٹے جانوروں کا شکار اب وہ خود بھی کر لیتا۔ جنگل کے جانور اب چونکے اور اسے وہاں سے بھگا دینے کی کوشش کرنے لگے۔
ٹامی نے اب ایک نئی چال چلی۔ وہ کبھی کسی جانور سے کہتا تمہارا فلاں دشمن تمہیں مار ڈالنے کی تیاری کررہا ہے، کسی سے کہتا فلاں تم کو گالی دیتا تھا۔ جنگل کے جانور اس کے چکمے میں آ آکر آپس میں لڑ جاتے اور ٹامی کی چاندی ہو جاتی۔
آخر میں نوبت یہاں تک پہنچی کہ بڑے بڑے جانوروں کا صفایا ہوگیا۔ چھوٹے چھوٹے جانوروں کو اس سے مقابلہ کرنے کی ہمت ہی نہ ہوتی تھی۔ وہ اب بڑی شان سے چاروں طرف فخریہ نظروں سے تاکتا ہوا گھومتا پھراکرتا۔
ٹامی کو کوئی فکر تھی تو یہ کہ اس دیش میں کوئی میرارقیب نہ اٹھ کھڑا ہو۔ جوں جوں دن گزرتے تھے، عیش وعشرت کا چسکا بڑھتا جاتا تھا اور اس کی فکر بھی ویسے ویسے بڑھتی جاتی تھی۔ جانوروں سے کہتا کہ خدا نہ کرے تم کسی دوسرے حکم راں کے پنجے میں پھنس جاؤ۔ وہ تمہیں پیس ڈالے گا۔ میں تمہارا خیرخواہ ہوں۔ ہمیشہ تمہاری بھلائی میں لگا رہتا ہوں۔ کسی دوسرے سے یہ امید مت رکھنا۔ سب جانور ایک آواز ہو کر کہتے ’’جب تک جییں گے آپ کے وفادار رہیں۔‘‘
آخرکار یہ ہوا کہ ٹامی کو لمحہ بھر بھی اطمینان سے بیٹھنا مشکل ہوگیا۔ وہ رات رات بھر اور دن دن بھر ندی کے کنارے ادھر سے ادھر چکر لگایا کرتا۔ دوڑتے دوڑتے ہانپنے لگتا، بے دَم ہو جاتا مگر ذہنی سکون نہ ملتا۔ کہیں کوئی دشمن نہ گھس آئے، بس یہی فکر رہتی۔
ایک دن اس کا دل خوف سے اتنا بے چین ہوا کہ وہ بڑے جوش سے ندی کے کنارے آیا اور ادھر سے ادھر دوڑنے لگا۔ دن بیت گیا، رات بیت گئی مگر اس نے آرام نہ کیا۔ دوسرا دن آیا اور گیا، لیکن ٹامی بھوکا پیاسا ندی کے کنارے چکر لگاتا رہا۔ اس طرح پانچ دن بیت گئے، ٹامی کے پیر لڑکھڑانے لگے۔ آنکھوں تلے اندھیرا چھانے لگا، آنتیں سکڑ گئیں، بھوک سے بے قرار ہو کر گر گر پڑتا مگر وہ اندیشہ کسی طرح دور نہ ہوتا۔
آخر میں ساتویں دن وہ نامراد ٹامی اپنے حق کی فکر سے پریشان اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔
جنگل کا کوئی جانور اس کے قریب نہ آیا، کسی نے اس کی بات نہ پوچھی، کسی نے اس کی لاش پر آنسو نہ بہائے۔ کئی دن تک اس پر گدھ اور کوے منڈلاتے رہے۔ آخر میں ہڈیوں کے پنجر کے سوا اور کچھ نہ رہ گیا۔
( سیاست سے سماج تک پریم چند نے اپنی کہانیوں اور افسانوں کے ذریعے کئی حقیقتوں کو ہمارے سامنے پیش کیا ہے، یہ کہانی بھی مصنف کی بامقصد اور اصلاحی فکر کا نتیجہ ہے)
(پریم چند کی ایک کہانی)
ٹامی یوں دیکھنے میں تو بہت تگڑا تھا۔ بھونکتا تو سننے والوں کے کانوں کے پردے پھٹ جاتے۔ ڈیل ڈول بھی ایسا تھا کہ اندھیری رات میں اس پر گدھے کا شبہ ہوتا، لیکن اس کی دلیری کسی معرکے میں کبھی ظاہر نہ ہوتی تھی۔
دو چار بار جب بازار کے لیڈروں نے اسے للکارا تو وہ جسارت کا مزہ چکھانے کے لیے میدان میں آیا۔ دیکھنے والوں کا کہنا ہے کہ جب تک لڑا جیوٹ سے لڑا۔ پنجے اور دانتوں سے زیادہ چوٹیں اس کی دُم نے کیں۔ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ بالآخر میدان کس کے ہاتھ رہا، لیکن جب فریق مخالف کو اپنی حمایت کے لیے اور کمک منگانی پڑی تو جنگی اصول کے مطابق فتح کا سہرا ٹامی کے سَر رکھنا زیادہ منصفانہ معلوم ہوتا ہے۔
ٹامی نے اس وقت مصلحت سے کام لیا اور دانت نکال دیے جو صلح کی علامت تھی۔ اس نے ایسے بے اصولوں اور بے راہ رقیبوں کو منہ نہ لگایا۔
اتنا صلح پسند ہونے پر بھی ٹامی کے رقیبوں کی تعداد روز بروز بڑھتی جاتی تھی۔ اس کے برابر والے تو اس سے اس لیے جلتے تھے کہ یہ اتنا موٹا تازہ ہو کر بھی اس قدر صلح پسند کیوں ہے۔ اتنے دشمنوں کے بیچ میں رہ کر ٹامی کی زندگی دشوار ہو جاتی تھی۔ مہینوں گزر جاتے اور پیٹ بھر کھانا نہ ملتا۔
دو تین بار اسے من مانا کھانا کھانے کی ایسی شدید خواہش ہو گئی کہ اس نے غلط طریقوں سے اسے پورا کرنے کی کوشش کی، مگر نتیجہ امید کے خلاف ہوا اور مزے دار کھانوں کے بدلے اسے ثقیل چیزیں بھر پیٹ کھانے کو ملیں جن سے پیٹ کے بدلے پیٹھ میں کئی دن تک درد ہوتا رہا تو اس نے مجبور ہو کر مل جل کر کھانے کی روش پھر اختیار کر لی۔
ڈنڈوں سے پیٹ چاہے بھر گیا ہو، لیکن ہوس ختم نہ ہوئی۔ وہ کسی ایسی جگہ جانا چاہتا تھا جہاں خوب شکار ملے، ہرن اور خرگوش اور بھیڑوں کے بچے میدانوں میں چرتے ہوں۔ جہاں ان کا کوئی مالک نہ ہو، کسی رقیب کا اندیشہ تک نہ ہو۔ آرام کرنے کو گھنے درختوں کا سایہ ہو۔ پینے کو ندی کا صاف ستھرا پانی ہو، وہاں من مانا شکار کروں، کھاؤں اور میٹھی نیند سوؤں۔
چاروں طرف میری دھاک جم جائے، سب پر ایسا رعب چھا جائے کہ مجھی کو اپنا راجا سمجھنے لگیں اور دھیرے دھیرے میرا ایسا سکہ بیٹھ جائے کہ کسی وقت کسی رقیب کو ادھر آنے کی ہمت نہ ہو۔
اتفاق سے ایک دن وہ انہی خیالوں کے سرور میں سر جھکائے سڑک چھوڑ کر گلیوں میں سے چلا جا رہا تھا کہ دفعتاً ایک جواں ہمت حریف سے اس کی مڈبھیڑ ہوگئی۔ ٹامی نے چاہا کہ بچ کر نکل جائے مگر وہ بدمعاش اتنا امن پسند نہ تھا، اس نے فورا جھپٹ کر ٹامی کی گردن پکڑ لی۔
آخر میں ہار کر ٹامی نے نہایت بے کسانہ انداز سے فریاد کرنی شروع کی۔ یہ سن کر محلے کے دو چار نیتا جمع ہوگئے لیکن بجائے اس کے کہ اس کی بے کسی پر رحم کریں، وہ الٹے ٹامی پر ہی ٹوٹ پڑے۔ اس غیرمنصفانہ برتاؤ نے ٹامی کا دل توڑ دیا۔ وہ جان چھڑا کر بھاگا، لیکن ان ظالموں نے بہت دور تک اس کا تعاقب کیا، یہاں تک کہ راستے میں ایک ندی پڑ گئی اور ٹامی نے اس میں کود کر اپنی جان بچائی۔
کہتے ہیں کہ ایک دن سب کے دن پھرتے ہیں۔ ٹامی کے دن بھی ندی میں کودتے ہی پھر گئے۔ تیرتا ہوا اس پار پہنچا تو وہاں تمناؤں کی کلیاں کھلی ہوئی تھیں۔
یہ نہایت وسیع میدان تھا۔ جہاں تک نگاہ جاتی تھی، ہریالی ہی ہریالی نظر آتی۔ کہیں جھرنا بہنے کا دھیما ترنم تھا تو کہیں درختوں کے جھنڈ تھے اور ریت کے سپاٹ میدان۔ بڑا ہی دل فریب منظر تھا۔ بھانت بھانت کے پرندے اور چوپائے نظر آئے، بعض ایسے لمبے چوڑے کہ ٹامی انہیں دیکھ کر تھرا اٹھا۔ بعض ایسے خونخوار کہ ان کی آنکھ سے شعلے نکل رہے تھے۔
وہ آپس میں اکثر لڑا کرتے تھے اور اکثر خون کی ندی بہتی تھی۔ ٹامی نے دیکھا کہ وہ ان خوف ناک دشمنوں سے پیش نہ پاسکے گا، اس لیے اس نے مصلحت سے کام لینا شروع کیا۔ جب دو لڑنے والوں میں ایک زخمی یا مردہ ہو کر گر پڑتا تو ٹامی لپک کر گوشت کا ٹکڑا لے بھاگتا اور تنہائی میں بیٹھ کر کھاتا۔ فاتح جانور اپنی کام یابی کے نشے میں اسے حقیر سمجھ کر کچھ نہ کہتا۔
تھوڑے ہی دنوں میں قوت بخش کھانوں نے ٹامی پر جادو کا سا اثر پیدا کیا۔ وہ پہلے سے کہیں زیادہ لحیم شحیم، دراز قد اور خوف ناک ہو گیا۔ چھلانگیں بھرتا اور کسی چھوٹے موٹے جانوروں کا شکار اب وہ خود بھی کر لیتا۔ جنگل کے جانور اب چونکے اور اسے وہاں سے بھگا دینے کی کوشش کرنے لگے۔
ٹامی نے اب ایک نئی چال چلی۔ وہ کبھی کسی جانور سے کہتا تمہارا فلاں دشمن تمہیں مار ڈالنے کی تیاری کررہا ہے، کسی سے کہتا فلاں تم کو گالی دیتا تھا۔ جنگل کے جانور اس کے چکمے میں آ آکر آپس میں لڑ جاتے اور ٹامی کی چاندی ہو جاتی۔
آخر میں نوبت یہاں تک پہنچی کہ بڑے بڑے جانوروں کا صفایا ہوگیا۔ چھوٹے چھوٹے جانوروں کو اس سے مقابلہ کرنے کی ہمت ہی نہ ہوتی تھی۔ وہ اب بڑی شان سے چاروں طرف فخریہ نظروں سے تاکتا ہوا گھومتا پھراکرتا۔
ٹامی کو کوئی فکر تھی تو یہ کہ اس دیش میں کوئی میرارقیب نہ اٹھ کھڑا ہو۔ جوں جوں دن گزرتے تھے، عیش وعشرت کا چسکا بڑھتا جاتا تھا اور اس کی فکر بھی ویسے ویسے بڑھتی جاتی تھی۔ جانوروں سے کہتا کہ خدا نہ کرے تم کسی دوسرے حکم راں کے پنجے میں پھنس جاؤ۔ وہ تمہیں پیس ڈالے گا۔ میں تمہارا خیرخواہ ہوں۔ ہمیشہ تمہاری بھلائی میں لگا رہتا ہوں۔ کسی دوسرے سے یہ امید مت رکھنا۔ سب جانور ایک آواز ہو کر کہتے ’’جب تک جییں گے آپ کے وفادار رہیں۔‘‘
آخرکار یہ ہوا کہ ٹامی کو لمحہ بھر بھی اطمینان سے بیٹھنا مشکل ہوگیا۔ وہ رات رات بھر اور دن دن بھر ندی کے کنارے ادھر سے ادھر چکر لگایا کرتا۔ دوڑتے دوڑتے ہانپنے لگتا، بے دَم ہو جاتا مگر ذہنی سکون نہ ملتا۔ کہیں کوئی دشمن نہ گھس آئے، بس یہی فکر رہتی۔
ایک دن اس کا دل خوف سے اتنا بے چین ہوا کہ وہ بڑے جوش سے ندی کے کنارے آیا اور ادھر سے ادھر دوڑنے لگا۔ دن بیت گیا، رات بیت گئی مگر اس نے آرام نہ کیا۔ دوسرا دن آیا اور گیا، لیکن ٹامی بھوکا پیاسا ندی کے کنارے چکر لگاتا رہا۔ اس طرح پانچ دن بیت گئے، ٹامی کے پیر لڑکھڑانے لگے۔ آنکھوں تلے اندھیرا چھانے لگا، آنتیں سکڑ گئیں، بھوک سے بے قرار ہو کر گر گر پڑتا مگر وہ اندیشہ کسی طرح دور نہ ہوتا۔
آخر میں ساتویں دن وہ نامراد ٹامی اپنے حق کی فکر سے پریشان اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔
جنگل کا کوئی جانور اس کے قریب نہ آیا، کسی نے اس کی بات نہ پوچھی، کسی نے اس کی لاش پر آنسو نہ بہائے۔ کئی دن تک اس پر گدھ اور کوے منڈلاتے رہے۔ آخر میں ہڈیوں کے پنجر کے سوا اور کچھ نہ رہ گیا۔
( سیاست سے سماج تک پریم چند نے اپنی کہانیوں اور افسانوں کے ذریعے کئی حقیقتوں کو ہمارے سامنے پیش کیا ہے، یہ کہانی بھی مصنف کی بامقصد اور اصلاحی فکر کا نتیجہ ہے)