I
intelligent086
Guest
حسد نہیں محنت کریں ...ام محمد عبداللہ
معلم صاحب نے کمرہ جماعت میں آتے ہی طالبات کو پہاڑ کی ڈرائنگ بنانے کا کہا اور کمرہ جماعت میں گھومتے پھرتے بچوں کی کارکردگی کا جائزہ لینے لگے۔ ارسلان کاپی پر نہایت مہارت سے لائنیں کھینچ رہا تھا۔ اس کی ڈرائنگ واضح اور خوبصورت تھی۔ ارسلان کے ساتھ بیٹھے زبیر کی ڈرائنگ واجبی سی تھی۔ اس نے تھوڑی سی ڈرائنگ کر کے ارسلان کی کاپی پر نگاہ ڈالی تو اس کا منہ بن گیا۔ ''ہونہہ یہ اتنی اچھی تصویر کیسے بنا لیتا ہے؟ کاش اس کی پنسل کی نوک ٹوٹ جائے۔‘‘ ایک گندی سی خواہش اس کے دل میں ابھری تھی۔
سب بچے تصویر بنا چکے تو معلم صاحب نے تصویر کے ساتھ علامہ اقبالؒ کی نظم ایک پہاڑ اور گلہری لکھنے کے لیے دے دی۔ بچے ایک بار پھر مصروف ہو گئے۔ زبیر بھی لکھنے میں مشغول ہو گیا لیکن تھوڑی ہی دیر بعد اپنی عادت سے مجبور ہو کر اس نے سامنے بیٹھے واصف کی کاپی دیکھی۔ اس کا خط کیا خوب تھا۔ زبیر کو اپنا آپ بہت کم تر محسوس ہوا۔ ''نہ میرا خط اچھا ہے نہ ڈرائنگ۔‘‘ اس کا دل گھٹن سے بھر گیا۔ ''کیا ہی اچھا ہو ارسلان اور واصف کی پنسلیں گم ہو جائیں۔‘‘ عجیب و غریب خیالات اس کے دماغ میں چل رہے تھے۔ خیالات کے تابع چہرے کے نقوش بھی بن بگڑ رہے تھے۔ ''اب بچے یہ نظم خوبصورت ادائیگی اور تلفظ سے پڑھ کر سنائیں۔‘‘ زبیر کا چہرہ یکدم خوشی سے کھل اٹھا سب جانتے تھے اس سے اچھا نظمیں پڑھنے والا جماعت میں کوئی دوسرا نہیں تھا۔
معلم صاحب نے کلاس کے اختتام پر نتائج بورڈ پر لکھے۔ ڈرائنگ اول پوزیشن ارسلان احمد، لکھائی میں اول پوزیشن واصف خان اور ادائیگی اور تلفظ میں اول پوزیشن محمد زبیر نے حاصل کی۔ معلم صاحب جو اپنے طلبہ کی علمی و شخصی خوبیوں خامیوں کے نبض شناس تھے کہنے لگے۔ ''اللہ پاک نے یہ دنیا رنگا رنگ پیدا کی ہے۔ ہر کسی کو مختلف صلاحتیوں، ماحول اور نعمتوں سے نوازا ہے۔ جب ہم اپنی اپنی صلاحیتوں پر غور و فکر کرتے اور ان کو نکھارتے ہیں تو بہت سے مسائل سے بچے رہتے ہیں لیکن جیسے ہی ہم دوسروں سے اپنا موازنہ کرتے ہیں اور ان کو کہیں اپنے سے اچھا دیکھ کر دل کی تنگی کا شکار ہوتے ہیں تو حسد کی اخلاقی بیماری جنم لیتی ہے اور یہ ہماری اور جس سے ہم حسد کرنے لگتے ہیں اس کی صحت اور دنیا اور آخرت کی خوشیاں برباد کرنے کا باعث بننے لگتی ہے۔
اسی لیے عزیز طلبہ ہمارے پیارے رسول خاتم النبیین حضرت محمدﷺ نے فرمایا ہے۔ ''حسد نہ کرو‘‘ اس لیے پیارے بچو! اپنا موازنہ صرف خود سے کرتے ہوئے ہر دن خود کو بہتر بنائیں تاکہ آپ کے دل میں کسی کے خلاف حسد پیدا نہ ہو اور اللہ کے ذکر کو اپنے معمول کا حصہ بنائیں تاکہ کسی کا حسد آپ کا کچھ بگاڑ نہ پائے۔ معلم صاحب بات مکمل کر کے مسکرائے تو سب ہی طلبہ بھی مسکرا دئیے۔ زبیر نے بھی حسد کرنے کے بجائے اب مزید محنت کرنے کا ارادہ کرلیا تھا۔
معلم صاحب نے کمرہ جماعت میں آتے ہی طالبات کو پہاڑ کی ڈرائنگ بنانے کا کہا اور کمرہ جماعت میں گھومتے پھرتے بچوں کی کارکردگی کا جائزہ لینے لگے۔ ارسلان کاپی پر نہایت مہارت سے لائنیں کھینچ رہا تھا۔ اس کی ڈرائنگ واضح اور خوبصورت تھی۔ ارسلان کے ساتھ بیٹھے زبیر کی ڈرائنگ واجبی سی تھی۔ اس نے تھوڑی سی ڈرائنگ کر کے ارسلان کی کاپی پر نگاہ ڈالی تو اس کا منہ بن گیا۔ ''ہونہہ یہ اتنی اچھی تصویر کیسے بنا لیتا ہے؟ کاش اس کی پنسل کی نوک ٹوٹ جائے۔‘‘ ایک گندی سی خواہش اس کے دل میں ابھری تھی۔
سب بچے تصویر بنا چکے تو معلم صاحب نے تصویر کے ساتھ علامہ اقبالؒ کی نظم ایک پہاڑ اور گلہری لکھنے کے لیے دے دی۔ بچے ایک بار پھر مصروف ہو گئے۔ زبیر بھی لکھنے میں مشغول ہو گیا لیکن تھوڑی ہی دیر بعد اپنی عادت سے مجبور ہو کر اس نے سامنے بیٹھے واصف کی کاپی دیکھی۔ اس کا خط کیا خوب تھا۔ زبیر کو اپنا آپ بہت کم تر محسوس ہوا۔ ''نہ میرا خط اچھا ہے نہ ڈرائنگ۔‘‘ اس کا دل گھٹن سے بھر گیا۔ ''کیا ہی اچھا ہو ارسلان اور واصف کی پنسلیں گم ہو جائیں۔‘‘ عجیب و غریب خیالات اس کے دماغ میں چل رہے تھے۔ خیالات کے تابع چہرے کے نقوش بھی بن بگڑ رہے تھے۔ ''اب بچے یہ نظم خوبصورت ادائیگی اور تلفظ سے پڑھ کر سنائیں۔‘‘ زبیر کا چہرہ یکدم خوشی سے کھل اٹھا سب جانتے تھے اس سے اچھا نظمیں پڑھنے والا جماعت میں کوئی دوسرا نہیں تھا۔
معلم صاحب نے کلاس کے اختتام پر نتائج بورڈ پر لکھے۔ ڈرائنگ اول پوزیشن ارسلان احمد، لکھائی میں اول پوزیشن واصف خان اور ادائیگی اور تلفظ میں اول پوزیشن محمد زبیر نے حاصل کی۔ معلم صاحب جو اپنے طلبہ کی علمی و شخصی خوبیوں خامیوں کے نبض شناس تھے کہنے لگے۔ ''اللہ پاک نے یہ دنیا رنگا رنگ پیدا کی ہے۔ ہر کسی کو مختلف صلاحتیوں، ماحول اور نعمتوں سے نوازا ہے۔ جب ہم اپنی اپنی صلاحیتوں پر غور و فکر کرتے اور ان کو نکھارتے ہیں تو بہت سے مسائل سے بچے رہتے ہیں لیکن جیسے ہی ہم دوسروں سے اپنا موازنہ کرتے ہیں اور ان کو کہیں اپنے سے اچھا دیکھ کر دل کی تنگی کا شکار ہوتے ہیں تو حسد کی اخلاقی بیماری جنم لیتی ہے اور یہ ہماری اور جس سے ہم حسد کرنے لگتے ہیں اس کی صحت اور دنیا اور آخرت کی خوشیاں برباد کرنے کا باعث بننے لگتی ہے۔
اسی لیے عزیز طلبہ ہمارے پیارے رسول خاتم النبیین حضرت محمدﷺ نے فرمایا ہے۔ ''حسد نہ کرو‘‘ اس لیے پیارے بچو! اپنا موازنہ صرف خود سے کرتے ہوئے ہر دن خود کو بہتر بنائیں تاکہ آپ کے دل میں کسی کے خلاف حسد پیدا نہ ہو اور اللہ کے ذکر کو اپنے معمول کا حصہ بنائیں تاکہ کسی کا حسد آپ کا کچھ بگاڑ نہ پائے۔ معلم صاحب بات مکمل کر کے مسکرائے تو سب ہی طلبہ بھی مسکرا دئیے۔ زبیر نے بھی حسد کرنے کے بجائے اب مزید محنت کرنے کا ارادہ کرلیا تھا۔