I
intelligent086
Guest
حکایت سعدیؒ .... مچھلی
بیان کیا جاتا ہے کہ ایک مچھیرے نے دریا میں جال ڈالا تو ایک بہت بڑی مچھلی اس کے جال میں پھنس گئی۔ ماہی گیر بہت خوش ہوا۔ لیکن ہوا یہ کہ جب وہ جال کھینچنے لگا تو طاقت ور مچھلی جال گھسیٹ کر لے گئی اور مچھلی ہاتھ آنے کی جگہ وہ بے چارہ جال سے بھی محروم ہو گیا۔
ساتھی ماہی گیر ا سے ملامت کرنے لگے کہ خوش قسمتی سے ایسا اچھا شکار تیرے جال میں آیا اور تو نے یونہی گنوا دیا۔ مچھیرے نے کہا، اے بھائیو! اس معاملے میں مجھے ملامت نہ کرو۔ اصل بات یہ ہے کہ میری قسمت میں روزی نہ تھی اور اس مچھلی کا رزق ابھی پانی میں باقی تھا۔ شکاری کی قسمت میں روزی نہ ہو تو وہ دریائے دجلہ میں شکار نہیں کر سکتا اور مچھلی کی زندگی باقی ہوتو اسے خشکی پر موت نہیں آتی۔
نہر پر آیا تھا پانی کے لیے ایک غلام
جوش طوفاں سے ہوا موت کے پنجے میں اسیر
جان مچھلی کے لیے دام اجل ہے یہ کبھی
لقمہ موج اجل ہوتا ہے خود ماہی گیر
اس حکایت میں حضرت سعدیؒ نے اس حقیقت سے روشناس کرایا ہے کہ انسان بہرحال تقدیر الٰہی کا پابند ہے۔ اگرچہ روزی کا انحصار بظاہر ہماری کوشش پر ہے لیکن اس سلسلے میں سمجھنے کے قابل بات یہ ہے کہ ایسی کوشش کو نتیجہ خیز بنانے کا انحصار اوّل و آخر اللہ پاک کی ذات پر ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا یہ ارشاد اس طرف اشارہ کرتا ہے:
''میں نے اپنے رب کو اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانا‘‘۔
بیان کیا جاتا ہے کہ ایک مچھیرے نے دریا میں جال ڈالا تو ایک بہت بڑی مچھلی اس کے جال میں پھنس گئی۔ ماہی گیر بہت خوش ہوا۔ لیکن ہوا یہ کہ جب وہ جال کھینچنے لگا تو طاقت ور مچھلی جال گھسیٹ کر لے گئی اور مچھلی ہاتھ آنے کی جگہ وہ بے چارہ جال سے بھی محروم ہو گیا۔
ساتھی ماہی گیر ا سے ملامت کرنے لگے کہ خوش قسمتی سے ایسا اچھا شکار تیرے جال میں آیا اور تو نے یونہی گنوا دیا۔ مچھیرے نے کہا، اے بھائیو! اس معاملے میں مجھے ملامت نہ کرو۔ اصل بات یہ ہے کہ میری قسمت میں روزی نہ تھی اور اس مچھلی کا رزق ابھی پانی میں باقی تھا۔ شکاری کی قسمت میں روزی نہ ہو تو وہ دریائے دجلہ میں شکار نہیں کر سکتا اور مچھلی کی زندگی باقی ہوتو اسے خشکی پر موت نہیں آتی۔
نہر پر آیا تھا پانی کے لیے ایک غلام
جوش طوفاں سے ہوا موت کے پنجے میں اسیر
جان مچھلی کے لیے دام اجل ہے یہ کبھی
لقمہ موج اجل ہوتا ہے خود ماہی گیر
اس حکایت میں حضرت سعدیؒ نے اس حقیقت سے روشناس کرایا ہے کہ انسان بہرحال تقدیر الٰہی کا پابند ہے۔ اگرچہ روزی کا انحصار بظاہر ہماری کوشش پر ہے لیکن اس سلسلے میں سمجھنے کے قابل بات یہ ہے کہ ایسی کوشش کو نتیجہ خیز بنانے کا انحصار اوّل و آخر اللہ پاک کی ذات پر ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا یہ ارشاد اس طرف اشارہ کرتا ہے:
''میں نے اپنے رب کو اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانا‘‘۔
Hikaya e Saadi (R.A) , Machli