I
intelligent086
Guest
حکایت مولانا رومیؒ ۔۔۔۔۔۔ چوہے کی رہبری
ایک اونٹ کسی جگہ پرکھڑا تھا۔ اوزمین پر گری ہوئی تھی۔ چوہے نے اونٹ کی مہار کو منہ میں لے کر کھنچا . .. . اونٹ چلنے لگا۔ چوہے نے دل میں خیال کیا ، کہ میں تو بڑا شہ زور ہوں، میرے کھینچنے پر اونٹ میرے پیچھے چل پڑا ہے۔
اونٹ نے چوہے کی جب یہ حرکت دیکھی تواسے مزید بے وقوف بنانے کی خاطر اپنے آپ کو اس کے تابع کر دیا۔ چوہے نے اونٹ کی نکیل کو اپنے منہ میں مضبوطی سے پکڑ لیا،اور آگے آگے غرور کے ساتھ اکڑتا ہواچلنے لگا۔ پیچھے پیچھے یہ اونٹ مثل تابعدارغلام کے چل رہا تھا ۔چوہے نے دل میں کہا،'' آج مجھے پتہ چلا میں کون ہوں!اور میرے اندر اتنی جان ہے کہ اونٹ بھی میری پیروی کرنے پر مجبور ہے‘‘۔ اونٹ دل میں یہ کہہ رہا تھا کہ بچو! کوئی بات نہیں، ابھی تھوڑی دیر بعد تجھے تیری اوقات کا پتہ چل جائے گا کہ تو کیا چیز ہے۔ دونوںاسی طرح رواں دواں تھے کہ راستے میں ندی آ گئی۔ اب تو رہبر چوہے کے اوسان خطا ہو گئے۔ چوہا ندی کے کنارے جا کھڑا ہوا، اونٹ نے تجاہل عارفانہ سے پوچھا، اے میرے جنگل و بیابان کے رہبر!تو اس قدر ڈر کیوں گیا؟ یہ توقف اور حیرانی کیسی؟۔ دریا میں اترو تاکہ ''تمہارے 14طبق روشن ہوں‘‘۔ چوہے نے خوف سے لرزتی ہوئی آواز میں جواب دیا،اتروں کیا خاک ،ندی بہت گہری دکھائی دیتی ہے۔
اونٹ نے کہا، اچھا میں دیکھتا ہوں کہ پانی کتنا گہرا ہے۔یہ کہہ کر اونٹ پانی میں داخل ہو گیا۔ اور کہنے لگا: اے میرے شیخ ،میرے رہبر! اس میں تو زانو زانو پانی ہے بس تو اتنے سے پانی سے خوف کھا گیا۔ دہشت زدہ ہو گیا؟۔اونٹ نے پھر کہا :''اے پیش رو، اس طرح راستہ کھوٹا نہ کرو، سیدھے سیدھے پانی میں آ کر رہبری کرو،تمہیں تو میری رہبری پر بڑا ناز اور فخر ہے‘‘۔ چوہے نے کہا، ''جناب آپ کے زانو اور میرے زانو میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ آپ مجھے غرق کرنا چاہتے ہیں۔ جو پانی آپ کے زانو سے اونچا ہے وہ میرے سر سے سو گز اونچا ہے‘‘۔
چوہے کو جب اپنی اوقات کا پتہ چل گیا تو کہنے لگا ، ''جناب میں اپنے کئے پر نادم ہوں۔ میری معافی آپ قبول کیجئے۔ مجھے معاف کیجئے، آئندہ اس طرح بڑوں کا رہنما اور شیخ بننے کا خیال دل میں کبھی نہ لائوںگا۔ اور دوبارہ زندگی بھر ایسی غلطی نہ کروں گا۔اب خدا کے لئے اس خطرناک ندی سے مجھے بھی پار کرا دیں ‘‘۔اونٹ نے غصے میں ا ٓکر کہا: '' خبردار اپنے اوپر آئندہ ایسا گھمنڈ نہ کرنا۔تو اپنے جیسے چوہیوں میں جا کر راجہ مہاراجہ بن کررہ۔ اپنی اوقات سے بڑے کے سامنے شیخی نہیں کرنا چاہئے۔ جتنی چادر ہو اتنے ہی پائوں پھیلانا چاہئیں‘‘۔اونٹ کو چوہے کی معافی اور ندامت پر رحم آ گیا۔ اس نے کہا، میرے کوہان پر آ کر بیٹھ جا۔تیرے جیسے سینکڑوں چوہوں کو پانی پیٹھ پر بٹھا کر، ایسے پر خطر حالات میں بحفاظت ندی کے پار لے جا سکتا ہوں‘‘۔
ایک اونٹ کسی جگہ پرکھڑا تھا۔ اوزمین پر گری ہوئی تھی۔ چوہے نے اونٹ کی مہار کو منہ میں لے کر کھنچا . .. . اونٹ چلنے لگا۔ چوہے نے دل میں خیال کیا ، کہ میں تو بڑا شہ زور ہوں، میرے کھینچنے پر اونٹ میرے پیچھے چل پڑا ہے۔
اونٹ نے چوہے کی جب یہ حرکت دیکھی تواسے مزید بے وقوف بنانے کی خاطر اپنے آپ کو اس کے تابع کر دیا۔ چوہے نے اونٹ کی نکیل کو اپنے منہ میں مضبوطی سے پکڑ لیا،اور آگے آگے غرور کے ساتھ اکڑتا ہواچلنے لگا۔ پیچھے پیچھے یہ اونٹ مثل تابعدارغلام کے چل رہا تھا ۔چوہے نے دل میں کہا،'' آج مجھے پتہ چلا میں کون ہوں!اور میرے اندر اتنی جان ہے کہ اونٹ بھی میری پیروی کرنے پر مجبور ہے‘‘۔ اونٹ دل میں یہ کہہ رہا تھا کہ بچو! کوئی بات نہیں، ابھی تھوڑی دیر بعد تجھے تیری اوقات کا پتہ چل جائے گا کہ تو کیا چیز ہے۔ دونوںاسی طرح رواں دواں تھے کہ راستے میں ندی آ گئی۔ اب تو رہبر چوہے کے اوسان خطا ہو گئے۔ چوہا ندی کے کنارے جا کھڑا ہوا، اونٹ نے تجاہل عارفانہ سے پوچھا، اے میرے جنگل و بیابان کے رہبر!تو اس قدر ڈر کیوں گیا؟ یہ توقف اور حیرانی کیسی؟۔ دریا میں اترو تاکہ ''تمہارے 14طبق روشن ہوں‘‘۔ چوہے نے خوف سے لرزتی ہوئی آواز میں جواب دیا،اتروں کیا خاک ،ندی بہت گہری دکھائی دیتی ہے۔
اونٹ نے کہا، اچھا میں دیکھتا ہوں کہ پانی کتنا گہرا ہے۔یہ کہہ کر اونٹ پانی میں داخل ہو گیا۔ اور کہنے لگا: اے میرے شیخ ،میرے رہبر! اس میں تو زانو زانو پانی ہے بس تو اتنے سے پانی سے خوف کھا گیا۔ دہشت زدہ ہو گیا؟۔اونٹ نے پھر کہا :''اے پیش رو، اس طرح راستہ کھوٹا نہ کرو، سیدھے سیدھے پانی میں آ کر رہبری کرو،تمہیں تو میری رہبری پر بڑا ناز اور فخر ہے‘‘۔ چوہے نے کہا، ''جناب آپ کے زانو اور میرے زانو میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ آپ مجھے غرق کرنا چاہتے ہیں۔ جو پانی آپ کے زانو سے اونچا ہے وہ میرے سر سے سو گز اونچا ہے‘‘۔
چوہے کو جب اپنی اوقات کا پتہ چل گیا تو کہنے لگا ، ''جناب میں اپنے کئے پر نادم ہوں۔ میری معافی آپ قبول کیجئے۔ مجھے معاف کیجئے، آئندہ اس طرح بڑوں کا رہنما اور شیخ بننے کا خیال دل میں کبھی نہ لائوںگا۔ اور دوبارہ زندگی بھر ایسی غلطی نہ کروں گا۔اب خدا کے لئے اس خطرناک ندی سے مجھے بھی پار کرا دیں ‘‘۔اونٹ نے غصے میں ا ٓکر کہا: '' خبردار اپنے اوپر آئندہ ایسا گھمنڈ نہ کرنا۔تو اپنے جیسے چوہیوں میں جا کر راجہ مہاراجہ بن کررہ۔ اپنی اوقات سے بڑے کے سامنے شیخی نہیں کرنا چاہئے۔ جتنی چادر ہو اتنے ہی پائوں پھیلانا چاہئیں‘‘۔اونٹ کو چوہے کی معافی اور ندامت پر رحم آ گیا۔ اس نے کہا، میرے کوہان پر آ کر بیٹھ جا۔تیرے جیسے سینکڑوں چوہوں کو پانی پیٹھ پر بٹھا کر، ایسے پر خطر حالات میں بحفاظت ندی کے پار لے جا سکتا ہوں‘‘۔