intelligent086
New Baby
حکایت مولانا رومیؒ ۔۔۔۔ عمل
کہتے ہیں، ایک دفعہ اونٹ، بیل اور بکری مل کر جنگل میں سے گزر رہے تھے۔ یکایک ان کی نظریں گھاس کے ایک گٹھے پر پڑیں جو سر راہ پڑا ہوا تھا۔ گھاس کا گٹھا دیکھ کر تینوں چوپائے رک گئے اور طے کرنے لگے کہ اس کے تین حصے کر لیے جائیں تاکہ سب کھا سکیں۔ بکری نے اس تجویز پر کہا :ساتھیو! گھاس کا گٹھا ایک ہے اور کھانے والے ہم تین ہیں۔ اگر اس کے حصے کیے گئے تو ہم میں سے کسی کا بھی پیٹ نہ بھرے گا۔ مناسب یہ ہے کہ ہم میں سے جس کی عمر زیادہ ہو یہ گٹھا اسے کھانے کے لیے دیا جائے۔ حضرت محمد مصطفی ﷺ کا ارشادہے کہ بزرگوں کو مقدم رکھو۔ لہٰذا اے ساتھیو! اب ہم میں سے ہر ایک اپنی اپنی عمر بتائے اور جو سب سے زیادہ عمررسیدہ ہو گا وہ اس گھاس کا حقدار ٹھہرے گا۔ اس کے سوا کوئی اور نہ کھائے۔‘‘
اونٹ اور بیل نے بکری کی اس تجویز پر صادر کرتے ہوئے کہا ’’ٹھیک ہے۔ سب سے پہلے تو اپنی عمر بیان کر کہ کتنی ہے۔‘‘
بکری نے کہا ’’سنو! حضرت ابراہیم ؑ کے زمانے میں میری چراگاہ وہ جگہ تھی جہاں وہ حکم خداوندی کے بعد اپنے بیٹے اسمٰعیل ؑ کو ذبح کرنے لائے تھے۔
’’سبحان اللہ‘‘ بیل نے کہا ’’پھر میں تجھ سے عمر میں بڑا ہوں۔ اس لیے کہ میں اس جوڑی کا ایک بیل ہوں جسے حضرت آدمؑ نے پہلی بار ہل چلانے کے لیے جوتا تھا۔‘‘
اونٹ نے جب بیل اور بکری کی زبانی ان کی عمریں سنیں تو اپنی لمبی گردن آگے بڑھائی اور گھاس کا وہ گٹھا ہڑپ کرنے کے بعد بولا ، ’’ساتھیو! مجھے اپنا سن یاد رکھنے کی ضرورت ہی نہیں۔ ہاں مجھے یہ ضرور یاد ہے کہ میرا جسم اور گردن دونوں خاصے بڑے ہیں‘‘۔
کہتے ہیں، ایک دفعہ اونٹ، بیل اور بکری مل کر جنگل میں سے گزر رہے تھے۔ یکایک ان کی نظریں گھاس کے ایک گٹھے پر پڑیں جو سر راہ پڑا ہوا تھا۔ گھاس کا گٹھا دیکھ کر تینوں چوپائے رک گئے اور طے کرنے لگے کہ اس کے تین حصے کر لیے جائیں تاکہ سب کھا سکیں۔ بکری نے اس تجویز پر کہا :ساتھیو! گھاس کا گٹھا ایک ہے اور کھانے والے ہم تین ہیں۔ اگر اس کے حصے کیے گئے تو ہم میں سے کسی کا بھی پیٹ نہ بھرے گا۔ مناسب یہ ہے کہ ہم میں سے جس کی عمر زیادہ ہو یہ گٹھا اسے کھانے کے لیے دیا جائے۔ حضرت محمد مصطفی ﷺ کا ارشادہے کہ بزرگوں کو مقدم رکھو۔ لہٰذا اے ساتھیو! اب ہم میں سے ہر ایک اپنی اپنی عمر بتائے اور جو سب سے زیادہ عمررسیدہ ہو گا وہ اس گھاس کا حقدار ٹھہرے گا۔ اس کے سوا کوئی اور نہ کھائے۔‘‘
اونٹ اور بیل نے بکری کی اس تجویز پر صادر کرتے ہوئے کہا ’’ٹھیک ہے۔ سب سے پہلے تو اپنی عمر بیان کر کہ کتنی ہے۔‘‘
بکری نے کہا ’’سنو! حضرت ابراہیم ؑ کے زمانے میں میری چراگاہ وہ جگہ تھی جہاں وہ حکم خداوندی کے بعد اپنے بیٹے اسمٰعیل ؑ کو ذبح کرنے لائے تھے۔
’’سبحان اللہ‘‘ بیل نے کہا ’’پھر میں تجھ سے عمر میں بڑا ہوں۔ اس لیے کہ میں اس جوڑی کا ایک بیل ہوں جسے حضرت آدمؑ نے پہلی بار ہل چلانے کے لیے جوتا تھا۔‘‘
اونٹ نے جب بیل اور بکری کی زبانی ان کی عمریں سنیں تو اپنی لمبی گردن آگے بڑھائی اور گھاس کا وہ گٹھا ہڑپ کرنے کے بعد بولا ، ’’ساتھیو! مجھے اپنا سن یاد رکھنے کی ضرورت ہی نہیں۔ ہاں مجھے یہ ضرور یاد ہے کہ میرا جسم اور گردن دونوں خاصے بڑے ہیں‘‘۔