I
intelligent086
Guest
مولانا رومیؒ ..... بعد از جنگ
ایک قافلے والوں نے کسی شہ زور جواں مرد شخص کو اپنے مال و متاع کی حفاظت اور نگرانی کے لیے مقرر کیا تھا۔ رات کے وقت جب قافلے والے گہری نیند کے مزے لینے لگتے تو وہ چوکیدار ہاتھ میں چابک سنبھال کر پہرا دیا کرتا ، لیکن ایک شب ایسا اتفاق ہوا کہ چوکیدار کو بھی نیند نے آدبوچا اور اسے تن بدن کی خبر نہ رہی۔ اتنے میں قزاقوں کا ایک گروہ جو کئی دن سے تاک میں لگا ہوا تھا قافلے پر آن پڑا اور سب کچھ لوٹ کر لے گیا۔ جب صبح ہوئی اور قافلے والوں کی آنکھ کھلی تو دیکھا کہ گھوڑے ٗ اونٹ ٗ بکریں ٗ مال و دولت ٗ زر و جواہر ٗ کپڑے غرض ہر چیز غائب ہے اور چوکیدار نہایت طیش کے عالم میں چابک کبھی ہوا میں چلاتا ہے ٗ کبھی زمین پر مارتا ہے اور منہ سے گندی گالیوں کا طوفان بھی جاری ہے۔
لوگوںنے پوچھا ’’یہ کیا کر رہا ہے؟ ہمارا مال و اسباب کہاں گیا؟‘‘
اس نے جواب دیا ’’رات کو نقاب پوش ڈاکو آئے تھے اور میری نظروں کے سامنے سارا سازوسامان اٹھا کر چل دیے۔‘‘
لوگوں نے حیرت سے کہا ’’ابے او ریت کے ٹیلے ٗ تو اس وقت کیا نشے میں تھا؟ تو نے ڈاکوئوں کو روکا کیوں نہیں؟‘‘
چوکیدار نے کہا ’’تم بھی عجب باتیں کرتے ہو۔ وہ دسیوں تھے اور میں اکیلا تھا۔ اس کے علاوہ اُن کے پاس ہتھیار بھی بہت تھے۔ میں بھلا ان کا کیا مقابلہ کرتا؟‘‘
قافلے والوں نے طیش میں آ کر کہا ’’تو بڑا بے وقوف ہے۔ اگر تو اکیلا ان ڈاکوئوں سے لڑنے کے قابل نہ تھا تو آواز دے کر ہمیں ہی جگا لیا ہوتا؟‘‘
چوکیدار نے کہا ’’یہ بھی ممکن نہ تھا۔ ڈاکوئوں نے مجھے خنجر دکھا کر ڈرا دیا تھا کہ اگر ذرا بھی بولا تو زبان کاٹ کر پھینک دیں گے۔ بس چپکا پڑا رہ۔ میں کیا اپنی زبان کٹوا لیتا؟ اب تم دیکھ لو میں کیسا چابک برسا رہا ہوں۔ ہا تیرے کی۔‘‘
اے عزیز! ساری زندگی شیطان کی نذر ہو چکی۔ اب نزع کا وقت آیا تو تو نے اعوذ اور سورئہ فاتحہ کا چابک برسانا شروع کردیا۔ تجھے چاہیے تھا پہلے شیطان کی چالوں اور مکر کا کوئی توڑ کر لیتا۔ غفلت کا انجام یہی ہوتا ہے کہ وہ تیرے ایمان و یقین کی سب دولت لوٹ کر لے جاتا ہے اور تو آنکھ کھلنے کے بعد ہوا میں چابک پھٹکارتا رہتا ہے۔
Hikayat-e-Maulana Rumi (R.A) , Baad Az Jang