I
intelligent086
Guest
حکایت مولانا رومیؒ ...... بے چینی اور اس کا حل
عظیم فرمانروا خلیفہ ہارون الرشید رنج و الم کا کچھ اس طرح شکار ہوا کہ دن کا چین اور راتوں کی نیند اڑ گئی ۔ بے سکونی اتنی بڑھی کہ اپنے وزیر فضل بن ربیع کو بلا بھیجا اور اسے اپنی بے چینی کا حل تلاش کرنے کو کہا،'' کوئی روحانی عامل تلاش کروکہ کسی طرح طبیعت کو قرار آئے ‘‘۔ بے شمار عامل اور کئی فاضل لوگوں سے رجوع کیالیکن خلیفہ کی طبیعت کو چین نہ ملا۔سبھی نے اپنے اپنے علم کے مطابق جان توڑ کوششیں لیکن بے چینی کم ہونے کی بجائے بڑھتی گئی۔ آخر ایک وزیر با تدبیر نے خلیفہ سے عرض کیا کہ ''عزت مآب! ایک بزرگ رہ گئے ہیں، میرا یقین ہے کہ وہی آپ کے غم کا مداوا کر سکتے ہیں اگر اجازت ہو تو ملاقات کا بندوبست کروں؟‘‘
خلیفہ ہارون الرشید نے بے تابی سے پوچھا ''وہ کون سی ہستی ہے جو میرے لئے باعث رحمت ہو سکتی ہے ؟ ‘‘ وزیر نے عاجزی سے عرض کیا کہ ''وہ صوفی بزرگ ہیں جنہوں نے دنیا کی نعمتوں سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے اور وہ کسی کی جاہ و حشمت کو خاطر میں نہیں لاتے‘‘۔ ہارون الرشید نے بے تابی سے کہا کہ ''اگر ایساہے تو پھر ان کے پاس چلتے ہیں‘‘۔بادشاہ سلامت وزیر کے ہمراہ رات کے اندھیرے میں اپنے محل سے نکل کر حضرت فضیل بن عیاض ؒکے سادہ سے حجرے میں پہنچ گئے۔
وزیر نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ اندر سے کمزور سی آواز آئی ''کون ہے‘‘۔ ''میں ہوں وزیر او رمیرے ساتھ بادشاہ سلامت ہیں، خلفیہ ہارون الرشید‘‘۔ حضرت فضیل ؒ نے سوچا کہ بادشاہ سلامت خود چل کر میرے غریب خانے پر آئے ہیں، ان کی فرمائش سنے بغیر دروازے پر کھڑا رکھنا درست نہیں۔انہوں نے اسی وقت چراغ بجھا دیا اور دروازہ کھول دیا۔ خود حجرے کے ایک کونے میں جا کر بیٹھ گئے۔ ان کے ملنے کا یہ طریقہ دنیا کے دوسرے لوگوں سے مختلف تھا۔ لوگ توآرزو کرتے ہیں کہ کوئی بڑاا ٓدمی ان سے ملنے آئے تاکہ ان کے اثر و روسوخ میں اضافہ ہو۔ لیکن فضیل بن عیاض ؒ بادشاہ سلامت کا یوں استقبال کر رہے تھے جیسے ان کے آنے سے شرمندگی ہوئی ہو۔انہیں بادشاہ کے مال و زر سے کیا غرض تھی جو اس سے متاثر ہوتے۔
ہاروان الرشید گھپ اندھیرے میں اندر داخل ہوئے اور فضیل بن عیاض ؒ کا نام لے کر پکارا۔ جواب خاموشی۔ اندھیرے میں خلیفہ اور وزیر دیوار کو ٹٹولتے ہوئے ادھر ادھر ہوئے تو اچانک خلفیہ کاہاتھ حضرت فضیل بن عیاض ؒ کے سر پر جا لگا۔انہوں نے کہا، '' حضرت صاحب ‘‘ !.....بزرگ خاموش رہے ۔ البتہ اتنا ہوا کہ حضرت فضیل بن عیاض ؒ نے اپنا ہاتھ خلیفہ کے ہاتھ میں دے دیا۔ ہارون الرشید مصافحہ کر کے خوش ہوئے اور اپنے بدن کے اندر ٹھنڈک محسوس کرنے لگے۔حضرت فضیل بن عیاض ؒ بولے: ''فرمان حضرت رسول ﷺ ہے کہ میری امت کے بدترین علماء وہ ہیں جو حکمرانوں کے دروازے پر جاتے ہیں اور بہترین حکمران وہ ہیں جو علماء کے دردولت پرحاضری دیتے ہیں‘‘۔
ان کلمات نے ہارون ا لرشید کا دل جکڑ لیا۔ اور اسے جاہ و حشمت کے جہان سے روحانی دنیا میں محو پرواز کر دیا۔ پھر حضرت فضیل بن عیاض ؒ بولے ''ہارون الرشید تمہارا ہاتھ کتنا نازک ہے۔ کاش یہ جہنم کی آگ سے بچ جائے۔ ان کلمات نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔ ہارون الرشید کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہنے لگے۔ حضرت فضیل بن عیاض ؒ کی آواز پھر ابھری: ''ہارون الرشید! اپنے پائوں کو ڈگمگانے سے محفوظ رکھو۔ اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے گا۔ وقت آخر کوئی وزیر کوئی مشیر تمہارا رہنما نہ ہو گا۔ فقط تمہارے اعمال ہی کام آئیں گے‘‘۔ ہارون الرشید پر رقت طاری ہو گئی۔ وزیر نے جب یہ حال دیکھاتو خوفزدہ ہو گیا۔اور کانپتے ہوئے بولا:''سرکار نرمی فرمائیں، ان کے حال پر ترس کھائیں، دیکھیں کیا حالت ہو رہی ہے‘‘۔
حضرت فضیل بن عیاض ؒ نے اب رخ وزیر کی جانب کیا اور بولے ''تم اور تمہارے ساتھی دربار میں ایسے حالات بناتے ہو کہ یہ گناہ کر سکتے ہیں ۔ کبھی تم لوگوں نے انہیں غیر شرعی فعل سے ٹوکا ہے۔تم ایسا کر بھی سکتے ہو لیکن تمہیں تمہاری وزارت عزیز ہے‘‘۔یہ کہہ کر فضیل بن عیاض ؒ دوبارہ خلیفہ کی جانب متوجہ ہوئے۔ ''اے حسین چہرے والے، (خلیفہ کا رنگ گورا اور نقش دل آویز تھے) قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تم سے اپنی مخلوق کے بارے میں باز پرس کرے گا۔ اگر تم اپنے چہرے کو آگ سے بچانا چاہتے ہو تو بچا لو۔ ہرگزہرگز دیر نہ کرو۔ کل کس نے دیکھا ہے ، تمہارے دل میں کسی بھی فرد کے بارے میں کدورت، بے انصافی یا بغض ہے تو فوراََ اپنی اصلاح کر لو‘‘۔
ہارون الرشید نے وقت رخصت ہزاروں دینا ر ہدیہ دینے کی پیش کش کی، فضیل بن عیاض ؒ ہدیہ قبول کرنے پر تیار نہ ہوئے اور فرمانے لگے ''حکمرانوں کے تحائف رشوت ہوتے ہیں ان کو قبول کرنا جائز نہیں میں تمہیں نجات کا ایک راستہ بتا رہا ہوں اور تم اس کے بدلے میں مجھے معاوضہ دینے کی کوشش کرتے ہو، خدا تمہیں عقل سلیم عطا فرمائے‘‘۔ اس کے بعد فضیل بن عیاضؒ نے چپ سادھ لی۔ اب بادشاہ اور وزیر نے سمجھ لیا کہ رخصت ہونے کا وقت آ گیا ہے۔ وہ چلے آئے مگر درویش بابا کی باتیں ان کے دل میں گھر کر گئی تھیں۔ ہارون الرشید نے اپنے دل میں ان کے لئے انوکھی محبت محسوس کی جس نے ان کے ایمان و یقین کو جلا بخشی۔ آج کی نشست نے ان کی زندگی کا دھارا بدل دیا تھا۔
درس حیات: واقعی روحانی علاج اللہ والوں کا ہی ہوتا ہے۔
عظیم فرمانروا خلیفہ ہارون الرشید رنج و الم کا کچھ اس طرح شکار ہوا کہ دن کا چین اور راتوں کی نیند اڑ گئی ۔ بے سکونی اتنی بڑھی کہ اپنے وزیر فضل بن ربیع کو بلا بھیجا اور اسے اپنی بے چینی کا حل تلاش کرنے کو کہا،'' کوئی روحانی عامل تلاش کروکہ کسی طرح طبیعت کو قرار آئے ‘‘۔ بے شمار عامل اور کئی فاضل لوگوں سے رجوع کیالیکن خلیفہ کی طبیعت کو چین نہ ملا۔سبھی نے اپنے اپنے علم کے مطابق جان توڑ کوششیں لیکن بے چینی کم ہونے کی بجائے بڑھتی گئی۔ آخر ایک وزیر با تدبیر نے خلیفہ سے عرض کیا کہ ''عزت مآب! ایک بزرگ رہ گئے ہیں، میرا یقین ہے کہ وہی آپ کے غم کا مداوا کر سکتے ہیں اگر اجازت ہو تو ملاقات کا بندوبست کروں؟‘‘
خلیفہ ہارون الرشید نے بے تابی سے پوچھا ''وہ کون سی ہستی ہے جو میرے لئے باعث رحمت ہو سکتی ہے ؟ ‘‘ وزیر نے عاجزی سے عرض کیا کہ ''وہ صوفی بزرگ ہیں جنہوں نے دنیا کی نعمتوں سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے اور وہ کسی کی جاہ و حشمت کو خاطر میں نہیں لاتے‘‘۔ ہارون الرشید نے بے تابی سے کہا کہ ''اگر ایساہے تو پھر ان کے پاس چلتے ہیں‘‘۔بادشاہ سلامت وزیر کے ہمراہ رات کے اندھیرے میں اپنے محل سے نکل کر حضرت فضیل بن عیاض ؒکے سادہ سے حجرے میں پہنچ گئے۔
وزیر نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ اندر سے کمزور سی آواز آئی ''کون ہے‘‘۔ ''میں ہوں وزیر او رمیرے ساتھ بادشاہ سلامت ہیں، خلفیہ ہارون الرشید‘‘۔ حضرت فضیل ؒ نے سوچا کہ بادشاہ سلامت خود چل کر میرے غریب خانے پر آئے ہیں، ان کی فرمائش سنے بغیر دروازے پر کھڑا رکھنا درست نہیں۔انہوں نے اسی وقت چراغ بجھا دیا اور دروازہ کھول دیا۔ خود حجرے کے ایک کونے میں جا کر بیٹھ گئے۔ ان کے ملنے کا یہ طریقہ دنیا کے دوسرے لوگوں سے مختلف تھا۔ لوگ توآرزو کرتے ہیں کہ کوئی بڑاا ٓدمی ان سے ملنے آئے تاکہ ان کے اثر و روسوخ میں اضافہ ہو۔ لیکن فضیل بن عیاض ؒ بادشاہ سلامت کا یوں استقبال کر رہے تھے جیسے ان کے آنے سے شرمندگی ہوئی ہو۔انہیں بادشاہ کے مال و زر سے کیا غرض تھی جو اس سے متاثر ہوتے۔
ہاروان الرشید گھپ اندھیرے میں اندر داخل ہوئے اور فضیل بن عیاض ؒ کا نام لے کر پکارا۔ جواب خاموشی۔ اندھیرے میں خلیفہ اور وزیر دیوار کو ٹٹولتے ہوئے ادھر ادھر ہوئے تو اچانک خلفیہ کاہاتھ حضرت فضیل بن عیاض ؒ کے سر پر جا لگا۔انہوں نے کہا، '' حضرت صاحب ‘‘ !.....بزرگ خاموش رہے ۔ البتہ اتنا ہوا کہ حضرت فضیل بن عیاض ؒ نے اپنا ہاتھ خلیفہ کے ہاتھ میں دے دیا۔ ہارون الرشید مصافحہ کر کے خوش ہوئے اور اپنے بدن کے اندر ٹھنڈک محسوس کرنے لگے۔حضرت فضیل بن عیاض ؒ بولے: ''فرمان حضرت رسول ﷺ ہے کہ میری امت کے بدترین علماء وہ ہیں جو حکمرانوں کے دروازے پر جاتے ہیں اور بہترین حکمران وہ ہیں جو علماء کے دردولت پرحاضری دیتے ہیں‘‘۔
ان کلمات نے ہارون ا لرشید کا دل جکڑ لیا۔ اور اسے جاہ و حشمت کے جہان سے روحانی دنیا میں محو پرواز کر دیا۔ پھر حضرت فضیل بن عیاض ؒ بولے ''ہارون الرشید تمہارا ہاتھ کتنا نازک ہے۔ کاش یہ جہنم کی آگ سے بچ جائے۔ ان کلمات نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔ ہارون الرشید کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہنے لگے۔ حضرت فضیل بن عیاض ؒ کی آواز پھر ابھری: ''ہارون الرشید! اپنے پائوں کو ڈگمگانے سے محفوظ رکھو۔ اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے گا۔ وقت آخر کوئی وزیر کوئی مشیر تمہارا رہنما نہ ہو گا۔ فقط تمہارے اعمال ہی کام آئیں گے‘‘۔ ہارون الرشید پر رقت طاری ہو گئی۔ وزیر نے جب یہ حال دیکھاتو خوفزدہ ہو گیا۔اور کانپتے ہوئے بولا:''سرکار نرمی فرمائیں، ان کے حال پر ترس کھائیں، دیکھیں کیا حالت ہو رہی ہے‘‘۔
حضرت فضیل بن عیاض ؒ نے اب رخ وزیر کی جانب کیا اور بولے ''تم اور تمہارے ساتھی دربار میں ایسے حالات بناتے ہو کہ یہ گناہ کر سکتے ہیں ۔ کبھی تم لوگوں نے انہیں غیر شرعی فعل سے ٹوکا ہے۔تم ایسا کر بھی سکتے ہو لیکن تمہیں تمہاری وزارت عزیز ہے‘‘۔یہ کہہ کر فضیل بن عیاض ؒ دوبارہ خلیفہ کی جانب متوجہ ہوئے۔ ''اے حسین چہرے والے، (خلیفہ کا رنگ گورا اور نقش دل آویز تھے) قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تم سے اپنی مخلوق کے بارے میں باز پرس کرے گا۔ اگر تم اپنے چہرے کو آگ سے بچانا چاہتے ہو تو بچا لو۔ ہرگزہرگز دیر نہ کرو۔ کل کس نے دیکھا ہے ، تمہارے دل میں کسی بھی فرد کے بارے میں کدورت، بے انصافی یا بغض ہے تو فوراََ اپنی اصلاح کر لو‘‘۔
ہارون الرشید نے وقت رخصت ہزاروں دینا ر ہدیہ دینے کی پیش کش کی، فضیل بن عیاض ؒ ہدیہ قبول کرنے پر تیار نہ ہوئے اور فرمانے لگے ''حکمرانوں کے تحائف رشوت ہوتے ہیں ان کو قبول کرنا جائز نہیں میں تمہیں نجات کا ایک راستہ بتا رہا ہوں اور تم اس کے بدلے میں مجھے معاوضہ دینے کی کوشش کرتے ہو، خدا تمہیں عقل سلیم عطا فرمائے‘‘۔ اس کے بعد فضیل بن عیاضؒ نے چپ سادھ لی۔ اب بادشاہ اور وزیر نے سمجھ لیا کہ رخصت ہونے کا وقت آ گیا ہے۔ وہ چلے آئے مگر درویش بابا کی باتیں ان کے دل میں گھر کر گئی تھیں۔ ہارون الرشید نے اپنے دل میں ان کے لئے انوکھی محبت محسوس کی جس نے ان کے ایمان و یقین کو جلا بخشی۔ آج کی نشست نے ان کی زندگی کا دھارا بدل دیا تھا۔
درس حیات: واقعی روحانی علاج اللہ والوں کا ہی ہوتا ہے۔
Hikayat-e-Maulana Rumi (R.A), Bechaini Aur Us Ka Hal