Hikayat-e-Maulana Rumi (R.A) , Boseedah Posteen Aur Puranay Jotay

I

intelligent086

Guest
حکایت مولانا رومیؒ بوسیدہ پوستین اور پرانے جوتے

rumi-boseeda-posteen-aur-puranay-jotay-jpg.jpg


ایاز نے اپنی پرانی پوستین اور پھٹے پرانے جوتوں کو ایک کوٹھڑی میں چھپا رکھا تھا۔ روزانہ ایک مقررہ وقت پر دوسروں کی آنکھ بچا کر، اس کوٹھڑی میں جاتا اور بوسیدہ پوستین اور پرانے جوتوں کو دیکھ کر کہتا، ''اے ایاز، قدرِ خود بشناس‘‘ (اے ایاز، اپنی قدر پہچان) بادشاہ کی خدمت میں آنے سے پہلے تیری یہ اوقات تھی کہ پیوند پر پیوند لگی یہ سڑی ہوئی پوستین پہنا کرتاتھا اور یہ پھٹے پرانے جوتے گھسیٹتا پھرتا تھا۔ خبردار! شیطان کے بہکاوے میں مت آنا اور غرور کے جال میں مت پھنسنا ورنہ تیرا برا حشر ہوگا۔‘‘

غرض بلا ناغہ اپنے آپ کو وعظ و نصیحت کیا کرتا تھا، لیکن حاسدوں کی دوربین نگاہ سے اس کا روزانہ اس کوٹھڑی میں جانا بھلا کب تک پوشیدہ رہ سکتا تھا۔ انہوں نے سوچا، ضرور ایاز نے اس کوٹھڑی میں مال و دولت چھپا رکھا ہے جس کی دیکھ بھال کے لیے یہ مقررہ وقت پر کوٹھڑی میں جاتا ہے اور زرد جواہر دیکھ دیکھ کر جی بہلاتا ہے۔

ایک دن ایاز کی غیبت میں، حاسدوں اور دشمنوں نے بادشاہ کے کان میں کہا، ''حضور! غلام ایاز نے ایک کوٹھڑی بنائی ہے اس میں بے انتہا سونا چاندی جمع کیا ہے۔ مشروب کا ایک گھڑا بھی بھرا ہوا وہاں موجود ہے۔ اس کوٹھڑی میں کسی کو جانے نہیں دیتا۔ ہمیشہ دروازے پر قفل لگائے رکھتا ہے‘‘۔ سلطان محمود نے یہ بات سن کر کہا ''ہمیں ایاز پر تعجب ہے کہ اس نے ایسا کام کیا۔ اس کی کوئی بات ہم سے چھپی نہیں۔ بہرحال ہم حکم دیتے ہیں کہ آدھی رات کو اس کوٹھڑی کا قفل توڑ کر زبردستی اندر گھس جائو۔ جتنا مال و دولت اس نے ذخیرہ کیا ہے، سب لے آئو، بعدازاں ہمیں بتائو کہ اس کوٹھڑی میں سے کتنا زر و جواہر برآمد ہوا ہے۔ یہ تو بہت بری بات ہے کہ ہمارے کرم کی انتہا کے باوجود وہ بدفطرت اتنا مال چھپا کر رکھتا ہے‘‘۔ بادشاہ نے ان بدباطنوں اور حاسدوں کا منہ بند کرنے کے لیے یہ اجازت دی تھی ورنہ اسے ایاز کی دیانت داری اور پاک بازی پر پورا یقین تھا۔

بادشاہ کا حکم پاتے ہی تمام امیر بغلیں بجاتے ہوئے آدھی رات کو اس کوٹھڑی پر دھاوا بولنے گئے۔ جاتے ہی قفل توڑ ڈالا ۔ یوں اندرگھسے جیسے چھاچھ سے بھرے ہوئے گہرے برتن میں مکھی مچھر گھس جاتے ہیں۔ ان کیڑوں کو چھاچھ کا عشق بڑے زور و شور سے اس برتن کے نزدیک کھینچ لے جاتا ہے ، لیکن نہ تو چھاچھ پی سکتے ہیں نہ اس برتن میں سے باہر نکلنے کا دم باقی رہتا ہے۔ لہٰذا اسی میں پڑے پڑے سڑ جاتے ہیں۔ یہی حال اِن بدگمان اور ٹیڑھی فطرت رکھنے والے حاسدوں کا ہوا۔

انہوں نے کوٹھڑی کا گوشہ گوشہ، چپہ چپہ چھان مارا،لیکن سوائے بوسیدہ پوستین اور پھٹے جوتوں کے کچھ دکھائی نہ دیا۔ آپس میں کہنے لگے ، ایاز بہت چالاک اور مکار ہے۔ یہ سڑی ہوئی پوستین اور بدبودار جوتے تو محض دکھاوے کے لیے ہیں، ضرور اس نے زر و جواہر دفن کر رکھے ہوں گے۔ انہوں نے کدالیں اور پھاوڑے لے کر تمام کوٹھڑی کا فرش ادھیڑ دیا۔ جگہ جگہ گہرے گڑھے اور خندقیں کھودیں۔ مگر کچھ ہاتھ نہ آیا۔ پھر جھنجھلا کر کوٹھڑی کی دیواریں توڑنے لگے کہ شاید وہ خزانہ اینٹوں کے اندر چھپا ہوا ہے۔ مگر ہر اینٹ میں سے لاحول کی آواز آنے لگی۔ آخر ندامت اور پشیمانی کا پسینا ان کی پیشانیوں سے بہہ بہہ کر چہرے پر آنے لگا۔ ان کی گمراہیوں اور بے ہودگیوں کا ثبوت وہ گڑھے اور ٹوٹی ہوئی دیواریں تھیں جنہیں ان حاسدوں نے حسد کی آگ میں اندھے ہو کر گرایا تھا۔

اس بے ہودہ کارروائی کے بعد انہیں یہ خوف دامن گیر ہوا کہ بادشاہ کو کیا جواب دیں گے؟ وہ تو غضب ناک ہو کر زن و بچہ کولہو میں پلوا دے گا کہ ناحق ایاز پر تہمت تراشی کی۔ آخر کار اپنی جان سے مایوس ہو کر سروں اور سینوں کو عورتوں کی طرح پیٹتے، روتے اور چہروں پر راہ کا گرد و غبار ملتے، بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حالت یہ تھی کہ اکثر کا منہ اپنے ہی طمانچوں اور دوہتڑوں سے لال انگارا ہو رہا تھا۔

بادشاہ نے نائب وزیر کی طرف دیکھ کر کہا، ''سنائو، کامیابی نصیب ہوئی؟ ایاز کی کوٹھڑی سے مال و متاع کا کتنا انبار برآمد ہوا؟ لیکن میں تعجب سے دیکھتا ہوں کہ تمہاری بغلیں زر و جواہر کی تھیلیوں سے خالی ہیں۔ اگر وہ بیش بہا دولت تم نے آپس میں بانٹ لی ہے تو خیر۔ مگر تمہاری صورتوں پر وحشت کیوں برس رہی ہے اور تمہارے رخساروں کا خون کون چرا کر لے گیا ہے؟‘‘

بادشاہ کے اِن کلمات کی تاب نہ لاکر سب کے سب حاسد اس کے قدموں میں گر پڑے اور زمین چاٹنے لگے۔ ان میں جرأت نہ تھی کہ بادشاہ کے روبرو کھڑے ہی ہو سکتے۔ ہر امیر کہہ رہا تھا کہ اے سلطانِ عالی قدر! اگر آپ ہمیں سولیوں پر لٹکائیں یا جلاد سے کہیں کہ وہ ہماری گردنیں اڑا دے ،تب بھی وہ خون آپ پر حلال ہے۔ اگر آپ ہمیں معاف فرما دیں تو یہ بھی آپ کا اکرام اور احسان ہوگا۔

سلطان نے ارشاد فرمایا ''میں نہ تمہیں چھوڑوں گا نہ سزا دوں گا۔ یہ معاملہ ایاز کی صوابدید پر ہے کیونکہ اس کی آبرو سے تم نے کھیلنے کی کوشش کی ہے اور گہرے گھائو اسی نیک آدمی کی روح پر لگے ہیں۔‘‘

یہ کہہ کر سلطان محمود غزنوی نے ایاز کو طلب کر کے فرمایا ''اے ایاز! یہ مجرم تیرے ہیں اور تجھے پورا اختیار ہے کہ انہیں جو سزا چاہے دے۔ اس کی توثیق ہماری جانب سے ہوگی۔‘‘

ایاز نے اپنے آقا کی قدم بوسی کے بعد عرض کیا، ''اے بادشاہ! اختیار توآپ ہی کو حاصل ہے۔ جب آفتابِ جہاں تابِ رُخِ روشن دکھاتا ہے، تب ستارے نابود ہو جاتے ہیں۔سیارہ زہرہ،سیارہ عطارد یا سیارہ زُحل کی کیامجال کہ آفتاب کے سامنے اپنا وجود ثابت کریں۔‘‘

سلطان نے یہ بات سن کر کہا ''اے ایاز! ہمیں بتا یا گیا ہے کہ تو نے اپنی کوٹھڑی میں ایک بوسیدہ پوستین اور پرانے جوتے بڑی حفاظت سے سنبھال کر رکھے ہیں اور تو روز ان چیزوں کے دیدار کے لیے کوٹھڑی میں جاتا ہے۔ اس بھید سے ہمیں بھی آگاہ کر۔ تجھے اس پوستین اور ان جوتوں سے عشق ہے؟ ان دو بے کار اور فرسودہ چیزوں سے جان کے برابر عشق قائم کر کے تو نے انہیں اس کوٹھڑی میں چھپا رکھا ہے۔ پوستین یا جوتے کس عظیم ہستی کے ہیں جنہیں تو چھاتی سے لگاتا اورچومتا ہے؟‘‘

ایاز نے آنکھوں میں آنسو لا کر کہا، ''اے آقا! کیا عرض کروں اور کیا نہ کروں۔ اتنا جانتا ہوں کہ سب کچھ تیری بخشش اور عطا ہے ورنہ میری حقیقت تو وہی سڑی ہوئی پوستین اور پھٹے ہوئے جوتے ہیں۔ میں ان کی حفاظت نہیں کرتا بلکہ اپنی اصل ذات کی حفاظت اور نگرانی کرتا ہوں۔‘‘​
 
Top Bottom