I
intelligent086
Guest
حکایت مولانا رومیؒ , ....... برائی کی جڑ
ایک آد می دن رات مخلوق خدا کو اذیت دینے کی تدبیریں سوچتا رہتاتھا۔ ایک دن اسے شرارت سوجھی، اس نے اپنے گھر کے سامنے راستے میں لمبے لمبے کانٹوں والی جھاڑی اگا دی۔چند دنوں کے اندر اندر یہ جھاڑی خاصی بڑی ہو گئی۔ ہر چند لوگ اس سے بچ بچا کر نکلتے، لیکن پھر بھی کوئی نہ کوئی کانٹا پائوں کو زخمی کر دیتا تھا۔ اور اس کا دامن تار تار ہو جاتا۔ لوگوں نے اس کو بہت ملامت کیا کہ تو نے اپنے گھر کے سامنے جھاڑی کیوں اگنے دی۔اب تو تکلیف کی انتہا ہو گئی ہے۔ اسے اکھیڑدے۔ اس نے مسکرا کر بڑی نرمی سے جواب دیا کہ ٹھیک ہے اکھیڑ دوں گا۔ چند دن پھر اسی طرح گزر گئے۔ یہاں تک کہ اب جھاڑی نے آدھا راستہ گھیر لیا ۔ لوگوں نے مجبور ہو کر حاکم وقت کو شکایت کی۔ حاکم نے فوراََ اسے بلا بھیجا۔ پھر حکم دیا کہ ابھی جا کر جھاڑی کو اکھاڑ دے۔
اس نے عرض کیا: ''ابھی حکم کی تعمیل ہو جائے گی۔ وہ حاکم وقت سے وعدہ کر کے چلا آیا۔ اس نے جھاڑی پھر بھی نہ اکھاڑی۔اگر کوئی اسے اس طرف توجہ دلاتا تو وہ کہہ دیتا کہ آج فرصت نہیں ہے، یہ کام کل کر دوں گا۔ اسی کل کل پر ٹالنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک دن جھاڑی اتنی بڑھ گئی کہ اب اسے ہٹانا آسان نہ رہا۔یہ تناور درخت جیسی بن گئی تھی۔ اس کی جڑیں اس قدر گہری ہو گئیں کہ پھر وہ ظالم بھی اس کو ہٹانے سے عاجز آ گیا۔ درخت بڑھتا رہا، اور اس کو اکھاڑنے والا کمزور ہوتا گیا۔ ایک دن اس نے ظالم کے گھر کا راستہ بھی بند کر دیا۔
درس حیات: یہ جھاڑی دراصل ہماری بری عادتوں اور گناہ کی طرح ہے۔ان کی اصلاح میں جس قدر تاخیر کی جائے گی ان کی (گناہوں اور برائیوں کی )جڑیںبھی اتنی ہی مضبوط ہوتی جائیں گی۔ برائی کو دور کرنے میں سستی سے کام مت لو۔
اے بے حس، کاہل اٹھ، اور اپنی پرانی بری عادتوں کی اصلاح کے لئے ہر جتن کر۔ اور اسے مثل درہ خیبر اکھاڑ پھینک۔
ایک آد می دن رات مخلوق خدا کو اذیت دینے کی تدبیریں سوچتا رہتاتھا۔ ایک دن اسے شرارت سوجھی، اس نے اپنے گھر کے سامنے راستے میں لمبے لمبے کانٹوں والی جھاڑی اگا دی۔چند دنوں کے اندر اندر یہ جھاڑی خاصی بڑی ہو گئی۔ ہر چند لوگ اس سے بچ بچا کر نکلتے، لیکن پھر بھی کوئی نہ کوئی کانٹا پائوں کو زخمی کر دیتا تھا۔ اور اس کا دامن تار تار ہو جاتا۔ لوگوں نے اس کو بہت ملامت کیا کہ تو نے اپنے گھر کے سامنے جھاڑی کیوں اگنے دی۔اب تو تکلیف کی انتہا ہو گئی ہے۔ اسے اکھیڑدے۔ اس نے مسکرا کر بڑی نرمی سے جواب دیا کہ ٹھیک ہے اکھیڑ دوں گا۔ چند دن پھر اسی طرح گزر گئے۔ یہاں تک کہ اب جھاڑی نے آدھا راستہ گھیر لیا ۔ لوگوں نے مجبور ہو کر حاکم وقت کو شکایت کی۔ حاکم نے فوراََ اسے بلا بھیجا۔ پھر حکم دیا کہ ابھی جا کر جھاڑی کو اکھاڑ دے۔
اس نے عرض کیا: ''ابھی حکم کی تعمیل ہو جائے گی۔ وہ حاکم وقت سے وعدہ کر کے چلا آیا۔ اس نے جھاڑی پھر بھی نہ اکھاڑی۔اگر کوئی اسے اس طرف توجہ دلاتا تو وہ کہہ دیتا کہ آج فرصت نہیں ہے، یہ کام کل کر دوں گا۔ اسی کل کل پر ٹالنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک دن جھاڑی اتنی بڑھ گئی کہ اب اسے ہٹانا آسان نہ رہا۔یہ تناور درخت جیسی بن گئی تھی۔ اس کی جڑیں اس قدر گہری ہو گئیں کہ پھر وہ ظالم بھی اس کو ہٹانے سے عاجز آ گیا۔ درخت بڑھتا رہا، اور اس کو اکھاڑنے والا کمزور ہوتا گیا۔ ایک دن اس نے ظالم کے گھر کا راستہ بھی بند کر دیا۔
درس حیات: یہ جھاڑی دراصل ہماری بری عادتوں اور گناہ کی طرح ہے۔ان کی اصلاح میں جس قدر تاخیر کی جائے گی ان کی (گناہوں اور برائیوں کی )جڑیںبھی اتنی ہی مضبوط ہوتی جائیں گی۔ برائی کو دور کرنے میں سستی سے کام مت لو۔
اے بے حس، کاہل اٹھ، اور اپنی پرانی بری عادتوں کی اصلاح کے لئے ہر جتن کر۔ اور اسے مثل درہ خیبر اکھاڑ پھینک۔
Hikayat-e-Maulana Rumi (R.A) , Burai Ki Jadd