I
intelligent086
Guest
حکایت مولانا رومیؒ ۔۔۔۔۔۔۔ چرواہے کی حمد ثناء
حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک دن جنگل جا رہے تھے کہ اْنھوں نے ایک چرواہے کی آواز سنی.. وہ اونچی اونچی کہہ رہا تھا..’’اے میرے جان سے پیارے خدا.. تْو کہاں ہے..؟ میرے پاس آ.. میں تیرے سر میں کنگھی کروں ‘ جوئیں چنوں ‘ تیرا لباس میلا ہو گیا ہے تو دھوؤں ‘ تیرے موزے پھٹ گئے ہوں تو وہ بھی سیئوں ‘ تجھے تازہ تازہ دْودھ پلاؤں ‘ تو بیمار ہو جائے تو تیری تیمارداری کروں..اگر مجھے معلوم ہو کہ تیرا گھر کہاں ہے تو تمھارے لیے روز گھی اور دْودھ لایا کروں.. میری سب بکریاں تم پر قربان.. اَب تو آ جا.. ’’حضرت موسیٰ علیہ السلام اِس کے قریب گئے.. اور کہنے لگے.. ’’ ارے احمق.. تْو یہ باتیں کس سے کر رہا ہے..؟ ’’چرواہے نے جواب دیا.. ’’ اْس سے کر رہا ہوں جس نے تجھے اور مجھے پیدا کیا اور یہ زمین آسمان بنائے.. ’’یہ سن کر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا.. ’’ ارے بدبخت.. تْو اِس بیہودہ بات سے کہیں کا نہ رہا.. حضرت موسیٰ علیہ السلام حق تعالیٰ سے ہم کلام ہونے کے لیے کوہِ طور پر گئے تو خدا نے فرمایا.. ’’ اے موسیٰ ! تو نے ہمارے بندے کو ہم سے جدا کیوں کیا..؟ تو دْنیا میں جدائی کے لیے آیا ہے یا ملاپ کے لیے..؟خبردار ! اِس کام میں احتیاط رکھ.. ہم نے اپنی مخلوق میں ہر شخص کی فطرت الگ بنائی ہے اور ہر فرد کو دوسروں سے جدا عقل بخشی ہے.. جو بات ایک کے حق میں اچھی ہے وہ دوسرے کے لیے بْری ہے.. ایک کے حق میں تریاق کا اثر رکھتی ہے وہی دوسرے کے لیے زہر ہے.. ایک کے حق میں نور اور دوسرے کے حق میں نار.. ہماری ذات پاکی و ناپاکی سے مبریٰ ہے..اے موسیٰ ! یہ مخلوق ہم نے اِس لیے پیدا نہیں فرمائی کہ اِس سے ہماری ذات کو کوئی فائدہ پہنچے.. اِسے پیدا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اِس پر ہم اپنے کمالات کی بارش کریں.. جو شخص جس زبان میں بھی ہماری حمد و ثناء کرتا ہے اِس سے ہماری ذات میں کوئی کمی بیشی واقع نہیں ہوتی.. مدح کرنے والا خود ہی پاک صاف ہوتا ہے.. حضرت موسیٰ نے جب خدا کا یہ عتاب آمیز خطاب سنا تو سخت پشیمان ہو ئے اور بارگاہِ الٰہی میں نہایت ندامت اور شرم ساری سے معافی مانگی.. پھر اِسی اضطراب اور بے چینی میں اِس چرواہے کو ڈھونڈنے جنگل میں گئے.. صحرا و بیابان کی خاک چھان ماری پر چروہے کا کہیں پتا نہ چلا.. اِس قدر چلے کہ پیروں میں چھالے پڑ گئے لیکن تلاش جاری رکھی آخر آپ اِسے پا لینے میں کامیاب ہوئے..چرواہے نے انھیں دیکھ کر کہا.. ’’ اے موسیٰ ! اب مجھ سے کیا خطا ہوئی ہے کہ یہاں بھی آ پہنچے..؟ ’’ حضرت موسیٰ نے جواب دیا.. ’’ اے چرواہے ! میں تجھے مبارک دینے آیا ہوں.. تجھے حق تعالیٰ نے اپنا بندہ فرمایا اور اِجازت عطا کی کہ جو تیرے جی میں آئے ‘ بلا تکلف کہا کر.. مولانا رومی اِس حکایت سے ما حاصل یہ نکالتے ہیں کہ ’’ اے شخص جو تو حق تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرتا ہے کیا سمجھتا ہے..؟ تْو تو ابتداء سے اِنتہا تک ناقص اور تیرا حال و قال بھی ناقص.. یہ محض اِس پروردگار رحمن و کریم کا کرم ہے کہ وہ تیرے ناقص اور گندے تحفے کو قبول فرماتا ہے..!! "