Hikayat-e-Maulana Rumi (R.A) , Daldal Ka Gadha

I

intelligent086

Guest
حکایت مولانا رومیؒ ۔۔۔۔۔ دلدل کا گدھا

rumi-daldal-ka-gadha-jpg.jpg

حضرت شعیب علیہ السلام کے زمانے کا ذکر ہے ٗ ایک شخص اعلانیہ کہا کرتا تھا کہ اللہ نے میرے بے شمار عیوب دیکھے ہیں ٗ لیکن اپنے رحم و کرم کے باعث مجھے معاف کردیتا ہے۔ اس شخص کا یہ قول بظاہر تواضع پر مبنی تھا ٗ لیکن اصل میں تھا غرور سے بھرپور۔ خدا نے حضرت شعیب علیہ السلام کے ذریعے اس کو انتباہ کیا کہ :
''اے بے وقوف! تو صراطِ مستقیم سے بھٹک کر کہیں کا کہیں جانکلا ہے اور خوشی سے کہتا ہے کہ میں تیرے گناہوں کی پکڑ نہیں کرتا۔ حالانکہ تو اس حقیقت سے بے خبر ہے کہ میں ہر آن تیری اس قدر گرفت کرتارہتا ہوں کہ گویاتو سر سے پیر تک آگ کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ تیری مثال اس سیاہ دیگ کی سی ہے جس پر اسی کا رنگ چڑھتا رہتا ہے اوراس رنگ نے تیری روح کی پیشانی بے نور کر دی ہے۔ تیرے قلب پر زنگ کی اتنی تہیں چڑھ گئی ہیں کہ تجھے خدا کے بھید دکھائی نہیں دیتے۔ دیکھ اگر کوئی لوہار زنگی حبشی ہو تودھواں ویسا ہی ہوتا ہے جیسا لوہار کا چہرہ اور اگر کوئی رومی اس پیشے میں داخل ہو تودھوئیں سے اس کا چہرہ چتکبرا ہو جاتا ہے۔ ایسا شخص گناہ کے گھنائونے اثر سے واقف ہو جاتا ہے اور گڑ گڑا کر توبہ کرنے لگتا ہے۔ لیکن جو بدنصیب گناہ میں آلودہ ہو اور اس پر اصرار کرے تو اس کی عقل پر خاک پڑ جاتی ہے۔ اسے کبھی توبہ کی توفیق نہیں ہوتی ٗ یہاں تک کہ اسے گناہ کے کاموں ہی میں لذت ملنے لگتی ہے۔ پس وہ شخص گمراہ اور بے دین ہو جاتا ہے۔ پھر اس میں حیا اور ندامت کا احساس ہی باقی نہیں رہتا۔‘‘
جب حضرت شعیب علیہ السلام نے یہ باتیں ٗ حق تعالیٰ کی جانب سے حکم پاکر ٗ اس شخص سے کہیں تو وہ جرح پر اتر آیا اور کہنے لگا ''اگر خدا میری گرفت کرتا تو پھر اب تک میرا نام و نشان کیوں باقی ہے؟ اس نے مجھے فنا کیوں نہ کردیا؟‘‘
حضرت شعیب ؑ نے خدا کی بارگاہ میں عرض کیا کہ یا الٰہی! یہ شخص مجھے جھٹلا رہا ہے اور تیری گرفت کا کھلا ثبوت چاہتا ہے۔ خدا نے جواب دیا :
''اے شعیب ٗ میں ستارالعیوب ہوں۔ لوگوں کے عیب ظاہر نہیں کرتا اس شخص کے سب گناہ بیان نہ کروں گا ٗ البتہ اس کی گرفت کی ایک واضح علامت بتاتا ہوں۔ وہ علامت یہ ہے کہ یہ بدنصیب روزے بھی رکھتا ہے اور نماز بھی پڑھتا ہے ٗ زکوٰۃ بھی نکالتا ہے اور دعائیں بھی کرتا ہے۔ اس طرح کی بہت سی عبادتیں اور نیک عمل بھی دکھاوے کے لیے کرتا ہے۔ لیکن اس کی روح کو ان عبادتوں اور نیکیوں سے ذرہ برابر بھی لذت نہیں ملتی۔ ظاہر میں اس کی عبادت اور نیکیاں خشوع و خضوع سے لبریز ہیں ٗ لیکن باطن میں پاک نہیں۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے درخت میں اخروٹ تو ان گنت لگے ہوں ٗ مگر ان میں مغز نہ ہو۔ عبادت اور نیکیوں کا پھل پانے کے لیے ذوق درکار ہے اور پھل میں مغز تازہ جس سے درخت پیدا ہو۔ جس طرح بغیر گودے کا بیج درخت نہیں بن سکتا ٗ اسی طرح بے جان صورت محض خیال ہوتی ہے۔‘‘
جب حضرت شعیب ؑ نے یہ نکتے اس شخص پر واضح کیے تو وہ ہکا بکا رہ گیا اور کچھ جواب نہ دے سکا۔ اس کا حال اس گدھے کا سا تھا جو دلدل میں بری طرح پھنس گیا ہو اور ہاتھ پائوں مارنے کے باوجود اس سے نکلنے کا راستہ نہ پاتا ہو۔

 
Top