I
intelligent086
Guest
حکایت مولانا رومیؒ ۔۔۔۔۔۔ دانا پرندہ
ایک شکاری نے بڑی ترکیبوں اور مشکل کے ساتھ ایک نادر اور خوبصورت چڑیا پکڑی ۔ جب وہ چڑیا جال میں پھنس گئی،اور آزاد ہونے کی کوئی صورت نہ پائی تب چڑیا شکاری سے کہنے لگی: '' اے عقلمند انسان!تو مجھ جیسی ننھی چڑیا کو پکڑ کر کیاکرے گا۔ اگر تو مجھے ذبح کرے گا تو میرے ذرا سے گوشت اور گنتی کی چند نرم و نازک ہڈیوں سے تیرا کیا بنے گا،مجھے فروخت کر کے بھلا تجھے کتنا مال ملے گا۔میری بات سن، اگر تو مجھے آزاد کر دے گا، تو میں تجھے تین ایسی بیش بہا قیمتی نصیحتیں کروں گی جو ہمیشہ تیرے کام آئیں گی۔ ان میں سے پہلی نصیحت تو تیرے ہاتھ پر بیٹھ کر کروں گی، وہ نصیحت ایسی ہو گی، جسے سن نکر تیرا خون بڑھ جائے گا۔ دوسری نصیحت دیوار پر بیٹھ کر کروں گی، جو اعلیٰ درجے کی ہو گی۔تیسری نصیحت درخت کی شاخ پر بیٹھ کر کروں گی، اس لئے تیری دانائی،جواں مردی اور دور اندیشی کا تقاضا یہی ہے کہ تو مجھے آزاد کر دے۔ ان تینوں نصیحتوں پر عمل کر کے تو دنیا میں بڑ ا نام پائے گا‘‘۔
شکاری تھوڑی دیر غور کرنے کے بعد راضی ہو گیا۔چڑیا اڑ کر شکاری کے ہاتھ پر آن بیٹھی ۔
''پہلی نصیحت یہ ہے کہ ناممکن بات، خواہ کیسا ہی شخص کہے ، اس پر یقین نہ کر‘‘۔یہ کہہ کر چڑیا پھر سے اڑی اور دیوار پر جا بیٹھی۔اس نے دوسری نصیحت یہ کی، '' گزری ہوئی بات کا غم نہ کر‘‘۔ اسکے بعد چڑیا نے کہا ، '' میرے وجودمیں دس درہم وزن کا ایک ایسا قیمتی موتی ہے جس کی قیمت ہفت اقلیم میں کہیں نہیں۔ یہ موتی پا کر تو اور تیری اولاد عیش و عشرت سے زندگی بسر کرتے۔ مگر افسوس! کہ تو نے مجھے آزاد کر کے یہ بیش بہا قیمتی موتی ہاتھ سے کھو دیا۔یہ تحفہ تیرے مقدر میں نہ تھا‘‘۔
اتنا سننا تھا کہ شکاری، رونے ، چلانے اور ماتم کرنے لگا۔ جیسے اس کا کوئی عزیز مر گیا ہو۔بار بار ٹھنڈی آہیں بھرتا، اور سینہ پیٹ کر کہتا، ہائے! میں تو برباد ہو گیا۔ مجھ بے وقوف نے ایک ایسی نادر چڑیا کو کیوں آزاد کر دیا۔ننھی سی جان نے مجھے ہتھیلی میں جنت کی جھلک دکھلا کرلوٹ لیا۔ شکاری جب رو دھو چکا، تب چڑیا نے کہا: اے بے وقوف! میں نے پہلے ہی تجھے نصیحت کر دی تھی کہ گزری ہوئی بات کا غم نہیں کرنا چاہئے۔ جب یہ بات ہو گئی تو کف افسوس ملناکس بات کا؟
چڑیا نے کہا، ارے نادان، تو نے میری پہلی بات غور سے سنی ہی نہیں تھی۔ میں نے کہا تھا کہ ناممکن بات کا ہر گز یقین نہیں کرنا چاہئے۔ خواہ ہو کیسی ہی کیوں ہو۔ ذرا سوچ تو سہی، مجھ ننھی سی جان کا پورا وجود تین درہم سے زیادہ نہیں، بھلا دس درہم وزنی درہم میرے وجود میں کہاں سے آگیا۔
یہ بات سن کر شکاری رونا دھونا بھول گیا، حیرت سے چڑیا کو تکنے لگا اور کہنے لگا، ''اے نازک بدن چڑیا، مہربانی کر کے وہ تیسری نصیحت بھی کرتی جا۔
چڑیا نے کہا، ''ارے بھائی، تو نے میری پہلی دو نصیحتوں پر کونسا عمل کیا، جو تیسری نصیحت بھی مجھ سے سننا چاہتا ہے، وہ قیمتی نصیحت تجھ جیسے بے مغز انسان کے لئے نہیں ہے‘‘۔
درس حیات: خردماغ اور جاہل کو کوئی نصیحت کرنا ایسا ہے جیسے بنجر زمین میں بیج بونا ۔
ایک شکاری نے بڑی ترکیبوں اور مشکل کے ساتھ ایک نادر اور خوبصورت چڑیا پکڑی ۔ جب وہ چڑیا جال میں پھنس گئی،اور آزاد ہونے کی کوئی صورت نہ پائی تب چڑیا شکاری سے کہنے لگی: '' اے عقلمند انسان!تو مجھ جیسی ننھی چڑیا کو پکڑ کر کیاکرے گا۔ اگر تو مجھے ذبح کرے گا تو میرے ذرا سے گوشت اور گنتی کی چند نرم و نازک ہڈیوں سے تیرا کیا بنے گا،مجھے فروخت کر کے بھلا تجھے کتنا مال ملے گا۔میری بات سن، اگر تو مجھے آزاد کر دے گا، تو میں تجھے تین ایسی بیش بہا قیمتی نصیحتیں کروں گی جو ہمیشہ تیرے کام آئیں گی۔ ان میں سے پہلی نصیحت تو تیرے ہاتھ پر بیٹھ کر کروں گی، وہ نصیحت ایسی ہو گی، جسے سن نکر تیرا خون بڑھ جائے گا۔ دوسری نصیحت دیوار پر بیٹھ کر کروں گی، جو اعلیٰ درجے کی ہو گی۔تیسری نصیحت درخت کی شاخ پر بیٹھ کر کروں گی، اس لئے تیری دانائی،جواں مردی اور دور اندیشی کا تقاضا یہی ہے کہ تو مجھے آزاد کر دے۔ ان تینوں نصیحتوں پر عمل کر کے تو دنیا میں بڑ ا نام پائے گا‘‘۔
شکاری تھوڑی دیر غور کرنے کے بعد راضی ہو گیا۔چڑیا اڑ کر شکاری کے ہاتھ پر آن بیٹھی ۔
''پہلی نصیحت یہ ہے کہ ناممکن بات، خواہ کیسا ہی شخص کہے ، اس پر یقین نہ کر‘‘۔یہ کہہ کر چڑیا پھر سے اڑی اور دیوار پر جا بیٹھی۔اس نے دوسری نصیحت یہ کی، '' گزری ہوئی بات کا غم نہ کر‘‘۔ اسکے بعد چڑیا نے کہا ، '' میرے وجودمیں دس درہم وزن کا ایک ایسا قیمتی موتی ہے جس کی قیمت ہفت اقلیم میں کہیں نہیں۔ یہ موتی پا کر تو اور تیری اولاد عیش و عشرت سے زندگی بسر کرتے۔ مگر افسوس! کہ تو نے مجھے آزاد کر کے یہ بیش بہا قیمتی موتی ہاتھ سے کھو دیا۔یہ تحفہ تیرے مقدر میں نہ تھا‘‘۔
اتنا سننا تھا کہ شکاری، رونے ، چلانے اور ماتم کرنے لگا۔ جیسے اس کا کوئی عزیز مر گیا ہو۔بار بار ٹھنڈی آہیں بھرتا، اور سینہ پیٹ کر کہتا، ہائے! میں تو برباد ہو گیا۔ مجھ بے وقوف نے ایک ایسی نادر چڑیا کو کیوں آزاد کر دیا۔ننھی سی جان نے مجھے ہتھیلی میں جنت کی جھلک دکھلا کرلوٹ لیا۔ شکاری جب رو دھو چکا، تب چڑیا نے کہا: اے بے وقوف! میں نے پہلے ہی تجھے نصیحت کر دی تھی کہ گزری ہوئی بات کا غم نہیں کرنا چاہئے۔ جب یہ بات ہو گئی تو کف افسوس ملناکس بات کا؟
چڑیا نے کہا، ارے نادان، تو نے میری پہلی بات غور سے سنی ہی نہیں تھی۔ میں نے کہا تھا کہ ناممکن بات کا ہر گز یقین نہیں کرنا چاہئے۔ خواہ ہو کیسی ہی کیوں ہو۔ ذرا سوچ تو سہی، مجھ ننھی سی جان کا پورا وجود تین درہم سے زیادہ نہیں، بھلا دس درہم وزنی درہم میرے وجود میں کہاں سے آگیا۔
یہ بات سن کر شکاری رونا دھونا بھول گیا، حیرت سے چڑیا کو تکنے لگا اور کہنے لگا، ''اے نازک بدن چڑیا، مہربانی کر کے وہ تیسری نصیحت بھی کرتی جا۔
چڑیا نے کہا، ''ارے بھائی، تو نے میری پہلی دو نصیحتوں پر کونسا عمل کیا، جو تیسری نصیحت بھی مجھ سے سننا چاہتا ہے، وہ قیمتی نصیحت تجھ جیسے بے مغز انسان کے لئے نہیں ہے‘‘۔
درس حیات: خردماغ اور جاہل کو کوئی نصیحت کرنا ایسا ہے جیسے بنجر زمین میں بیج بونا ۔
Hikayat-e-Maulana Rumi (R.A) , Dana Parinda