I
intelligent086
Guest
دوستی ناداں کی ہے..... حکایت رومیؒ
ایک مرتبہ کسی چوہے اور مینڈک میں ندی کنارے دوستی ہوگئی۔ دونوں ہر روز صبح کے وقت ایک طے شد ہ جگہ پر آتے اور آپس میں بات چیت ہوتی، کچھ جگ بیتی، کچھ آپ بیتی اس باہمی میل ملاپ سے دونوں کے دل کشادہ ہوتے تھے۔ یہ رسم محبت یہاںتک بڑھی کہ ایک دن چوہے نے اپنے یارجانی مینڈک سے کہا :’’پیارے دوست! میں اس تھوڑے سے وقت میں جی بھر کر باتیں کرنا تو ایک طرف تیرے دیدار سے اپنی آنکھوں کی پیاس بھی نہیں بجھاسکتا اور تیرا مکھڑا دیکھے بغیر دم میں دم نہیں آتا۔ سنا ہے نماز تو پانچ وقت کی فرض ہے لیکن عاشق تو ہمیشہ نمازکے سرور میں مست رہتے ہیں اور یہ سرور پانچ نمازوں سے حاصل نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا یہ عین دوستی اور محبت ہوگی اگرتو وقت بے وقت لطف و کرم کے صدقے میں مجھ ناچیز کو یاد کرتا رہے۔ کیا غضب ہے کہ تو نے تمام دن میں صبح سویرے صرف ایک وقت ملاقات کا مقرر کیا ہے لیکن میں اب اس پر قانع نہیں رہ سکتا۔کاش! میں پانی کے اندر آکر تجھ سے ملاقات کرسکتا۔ مگر اس سے عاجز و مجبور ہوں۔ حق تعالیٰ نے مجھے مٹی سے بنایا ہے۔‘‘مینڈک اپنے دوست چوہے کی یہ بات سن کر بے حد متاثر ہوا اور فرطِ محبت سے اس کا دل بھر آیا۔ چوہے کی محبت میں بے قرار ہوگیا اور اس سے پوچھا ’’میں خود یہی سوچ رہا تھا کہ ملاقات کا وقت بہت تھوڑا ملتا ہے۔ کیا تدبیر کریں؟‘‘چوہے نے کہا ’’ایک تدبیر میرے ذہن ناقص میں آئی ہے بشرطیکہ تو اسے منظور کرے۔ وہ یہ کہ ہم ایک باریک سا دھاگا اس مقصد کے لیے کام میں لائیں۔ دھاگے کا ایک سرا میرے پائوں میں بندھا رہے دوسرا تیرے پائوں میں۔ جب کبھی میں تیری یاد میں تڑپوں اور تجھے خشکی پر بلانا چاہوں تو دھاگا ہلا دیا کروں اور تو اس اشارے پر چلا آیا کرے۔‘‘اگرچہ مینڈک کو یہ تجویز پسند نہ تھی لیکن دوست کی خوشی کے لیے مان لی۔ انہوں نے ایک دوسرے کے پائوں میں دھاگا مضبوطی سے باندھ دیا اور یوں دونوں دوست حسب خواہش آپس میں ملاقاتیں کرنے لگے۔ جب بھی چوہے کا جی مینڈک سے ملنے کو چاہتا اپنے پائوں کا دھاگا کھینچ لیتا اور مینڈک فوراً پانی سے باہر نکل آتا۔ بہت دن اسی طرح میل ملاقاتوں میں گزر گئے۔ چوہے کی جوشامت آئی تو ایک روز کوّے نے جھپٹا مارا اور پنجے میں دبا کر اُڑ گیا۔ چوہا فضا میں بلند ہوا تو دھاگے کے ذریعے مینڈک بھی پانی کی تہہ میں سے کھچا کھچا باہر آیا۔چوہا کوے کے پنجے میں دبا ہوا تھا اور مینڈک ہوا میں معلق ہاتھ پائوں چلا رہا تھا۔ لوگوں نے یہ تماشا دیکھا تو حیرت سے دانتوں میں انگلیاں دے لیں۔ بہت دماغ لڑایا لیکن کسی کی سمجھ میں نہ آیا کہ اس مکار کوے نے پانی کے اندر رہنے والے مینڈک کو کیسے پکڑ لیا؟ سوال یہ ہے کہ کوّا پانی کے اندر گیا کیسے ہوگا؟ اُدھر مینڈک زبانِ حال سے یہ فریاد کیے جاتا تھا کہ اے لوگو! دیکھو مجھے جو دیدئہ عبرت نگاہ ہو۔ یہ سزا اس احمق کی وجہ سے ہے جو نا جنس اور نااہل سے یاری دوستی کی پینگیں بڑھائے۔ یا الٰہی! نااہل دوست سے محفوظ رکھیو۔
ایک مرتبہ کسی چوہے اور مینڈک میں ندی کنارے دوستی ہوگئی۔ دونوں ہر روز صبح کے وقت ایک طے شد ہ جگہ پر آتے اور آپس میں بات چیت ہوتی، کچھ جگ بیتی، کچھ آپ بیتی اس باہمی میل ملاپ سے دونوں کے دل کشادہ ہوتے تھے۔ یہ رسم محبت یہاںتک بڑھی کہ ایک دن چوہے نے اپنے یارجانی مینڈک سے کہا :’’پیارے دوست! میں اس تھوڑے سے وقت میں جی بھر کر باتیں کرنا تو ایک طرف تیرے دیدار سے اپنی آنکھوں کی پیاس بھی نہیں بجھاسکتا اور تیرا مکھڑا دیکھے بغیر دم میں دم نہیں آتا۔ سنا ہے نماز تو پانچ وقت کی فرض ہے لیکن عاشق تو ہمیشہ نمازکے سرور میں مست رہتے ہیں اور یہ سرور پانچ نمازوں سے حاصل نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا یہ عین دوستی اور محبت ہوگی اگرتو وقت بے وقت لطف و کرم کے صدقے میں مجھ ناچیز کو یاد کرتا رہے۔ کیا غضب ہے کہ تو نے تمام دن میں صبح سویرے صرف ایک وقت ملاقات کا مقرر کیا ہے لیکن میں اب اس پر قانع نہیں رہ سکتا۔کاش! میں پانی کے اندر آکر تجھ سے ملاقات کرسکتا۔ مگر اس سے عاجز و مجبور ہوں۔ حق تعالیٰ نے مجھے مٹی سے بنایا ہے۔‘‘مینڈک اپنے دوست چوہے کی یہ بات سن کر بے حد متاثر ہوا اور فرطِ محبت سے اس کا دل بھر آیا۔ چوہے کی محبت میں بے قرار ہوگیا اور اس سے پوچھا ’’میں خود یہی سوچ رہا تھا کہ ملاقات کا وقت بہت تھوڑا ملتا ہے۔ کیا تدبیر کریں؟‘‘چوہے نے کہا ’’ایک تدبیر میرے ذہن ناقص میں آئی ہے بشرطیکہ تو اسے منظور کرے۔ وہ یہ کہ ہم ایک باریک سا دھاگا اس مقصد کے لیے کام میں لائیں۔ دھاگے کا ایک سرا میرے پائوں میں بندھا رہے دوسرا تیرے پائوں میں۔ جب کبھی میں تیری یاد میں تڑپوں اور تجھے خشکی پر بلانا چاہوں تو دھاگا ہلا دیا کروں اور تو اس اشارے پر چلا آیا کرے۔‘‘اگرچہ مینڈک کو یہ تجویز پسند نہ تھی لیکن دوست کی خوشی کے لیے مان لی۔ انہوں نے ایک دوسرے کے پائوں میں دھاگا مضبوطی سے باندھ دیا اور یوں دونوں دوست حسب خواہش آپس میں ملاقاتیں کرنے لگے۔ جب بھی چوہے کا جی مینڈک سے ملنے کو چاہتا اپنے پائوں کا دھاگا کھینچ لیتا اور مینڈک فوراً پانی سے باہر نکل آتا۔ بہت دن اسی طرح میل ملاقاتوں میں گزر گئے۔ چوہے کی جوشامت آئی تو ایک روز کوّے نے جھپٹا مارا اور پنجے میں دبا کر اُڑ گیا۔ چوہا فضا میں بلند ہوا تو دھاگے کے ذریعے مینڈک بھی پانی کی تہہ میں سے کھچا کھچا باہر آیا۔چوہا کوے کے پنجے میں دبا ہوا تھا اور مینڈک ہوا میں معلق ہاتھ پائوں چلا رہا تھا۔ لوگوں نے یہ تماشا دیکھا تو حیرت سے دانتوں میں انگلیاں دے لیں۔ بہت دماغ لڑایا لیکن کسی کی سمجھ میں نہ آیا کہ اس مکار کوے نے پانی کے اندر رہنے والے مینڈک کو کیسے پکڑ لیا؟ سوال یہ ہے کہ کوّا پانی کے اندر گیا کیسے ہوگا؟ اُدھر مینڈک زبانِ حال سے یہ فریاد کیے جاتا تھا کہ اے لوگو! دیکھو مجھے جو دیدئہ عبرت نگاہ ہو۔ یہ سزا اس احمق کی وجہ سے ہے جو نا جنس اور نااہل سے یاری دوستی کی پینگیں بڑھائے۔ یا الٰہی! نااہل دوست سے محفوظ رکھیو۔