I
intelligent086
Guest
حکایت مولانا رومیؒ ۔۔۔۔۔۔ فانی دنیا
ایک داستان گو، شیریں زباں،رات کو یاروں دوستوں کی محفل میں بیٹھا درزیوں کے بارے میں مزیدار قصے کہہ رہا تھا اورلوگوں کو ان کی چوریوں اور ہتھکنڈوں کے واقعات سنا سنا کر خوب ہنسا رہا تھا۔ داستان گو نے اتنے واقعات سنائے کہ اچھا خاصا درزی نامہ مرتب ہوسکتا تھا۔جب اس نے درزیوں کی چوری اور مکاری سے گاہکوں کا کپڑا غائب کردینے کے اَن گنت قصے بیان کر ڈالے تو سننے والوں میں ملک خطا کا ایک ترک جسے اپنی دانش اورذہانت پر بڑا غرور تھا، کہنے لگا :
’’میاں! یہ قصے تو ہوتے ہی رہیں گے۔ یہ بتائو کہ اس وقت تمہارے شہر میں کون سا درزی دغا و فریب اور مکرو بدمعاشی میں سب درزیوں کا گُرو ہے؟‘‘۔داستان گو نے جواب دیا ’’یوں تو ایک سے ایک ماہر فن اس شہر کے گلی کوچوں میں پڑا ہے لیکن فی الوقت پورشش نام کا درزی بڑا عیار ہے۔ اس کے کاٹے کا منتر ہی نہیں۔ ہاتھ کی صفائی میں ایسا استاد کہ کپڑا توکپڑا، آنکھوںکا کاجل تک چرا لے اور چوری کا پتا نہ لگنے دے‘‘۔ترک کہنے لگا ’’لگا لو مجھ سے شرط۔ میں اس کے پاس کپڑا لے کر جاتا ہوں اور دیکھوں گا کہ وہ کیوں کر میری آنکھوں میں دھول جھونک کے کپڑا چراتا ہے۔ میاں کپڑا تو درکنار وہ ایک تار بھی غائب نہ کر سکے گا۔ میں نے بھی بڑے بڑے عیار اور مکار دیکھے ہیں‘‘۔لوگوں نے یہ ڈینگ سنی تو کہنے لگے ’’ارے بھائی! زیادہ جوش میں نہ آ۔ تجھ سے پہلے بھی بہت سے یہی دعویٰ کرتے آئے اور اس درزی سے چوٹ کھا گئے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ درزی تجھے صاف اُلّو بنا جائے۔‘‘۔اتنا سننا تھا کہ وہ ترک آپے سے باہر ہوگیا اور کہنے لگا ’’یارو! ان باتوں میں کیارکھا ہے۔ گھوڑا گھوڑا شرط باندھو۔ لوگوں نے کہا، بے شک منظور ہے اور یہ ہم ابھی بتائے دیتے ہیں کہ تو قیامت تک شرط نہ جیت سکے گا۔ غرض شرط طے ہوگئی اور محفل برخاست ہونے کے بعد ترک اپنے گھر چلا گیا۔ اسی پیچ و تاب اور فکر و اضطرار میں ساری رات پلک نہ جھپکی اور درزی کو زک دینے کے طور طریقوں پر غور کرتا رہا۔ صبح ہوتے ہی قیمتی اطلس کا ایک بڑا سا ٹکڑا بغل میں مارا اور پورشش درزی کا نام پتا پوچھتا پوچھتا اس کی دکان پر پہنچ گیا۔درزی نے اس ترک گاہک کو دیکھتے ہی نہایت ادب سے کھڑے ہو کر کہا ’’زہے نصیب کہ آپ میری دکان پر تشریف لائے؟‘‘۔ ترک بے حد متاثر ہوا۔جی میں کہا، یہ شخص تو بظاہر ایسا عیار اور دغاباز نظر نہیں آتا۔ لوگ بھی خواہ مخواہ رائی کا پہاڑ بنا دیتے ہیں۔یہ سوچ کر قیمتی استنبولی اطلس درزی اس کے آگے دھر دی اور کہا ’’میں بہت دور سے تیری تعریف سن کر آیا ہوں۔ اس اطلس کی قبا مجھے سی دے جو میں میدانِ جنگ میں زرہ بکتر کے نیچے پہن کر جاسکوں۔ اوپر کا حصہ تنگ کہ بدن پر پھنسا رہے اورنچلا حصہ کشادہ کہ پیروں میں دبنے نہ پائے۔‘‘
درزی نے دونوں ہاتھ ادب سے سینے پر باندھے اور گردن جھکا کر بولا حضور! میں ہر طرح آپ کا غلام ہوں ۔ابھی آپ کے سامنے کپڑا قطع کرتا ہوں۔‘‘
ترک وہیں ایک کرسی پر درزی کے قریب بیٹھ گیا۔ اس نے کپڑا گز سے ناپا، پھر قطع کرنے کے لیے جابجا اس پر نشان لگائے۔ اس کام کے ساتھ ساتھ بہلانے کے لیے اِدھر اُدھر کے پرلطف قصے چھیڑ دیئے اور ایسے دل آویز پیرائے میں یہ قصے کہے کہ ترک کو بے حد دلچسپی ہوگئی۔ بڑے بڑے امراء و رؤسا کے واقعات، ان کے جود و عطا اور بخشش و کرم کی داستانیں، بخیلوں کی کہانیاں جنہیں سن کر مارے ہنسی کے ترک کے پیٹ میں بل پڑ گئے۔ آخر میں درزی نے ایک حکایت ایسی مضحکہ خیز سنائی کہ ترک ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوگیا اور اس کی چندھی چندھی آنکھیں اور بھی مچ گئیں۔ درزی نے جھٹ اطلس کا ایک ٹکڑا چرا کر ران تلے ایسا دبایا کہ سوائے خدا کی ذات کے اور کوئی نہ دیکھ سکا۔
خدا بلاشبہ سب کی حرکتیں دیکھتا ہے ، لیکن کسی سے کچھ کہتا نہیں، کیونکہ اس کی صفت تو ستّاری ہے۔ البتہ مصلحت اور حکمت کا تقاضا ہو تو بھانڈا پھوڑ بھی دیتا ہے۔ غرض درزی کی اس پرلطف داستان سرائی میں وہ ترک اپنا اصل مقصد اور دعویٰ فراموش کر بیٹھا۔ کدھر کی اطلس، کہاں کی شرط اورکیسا گھوڑا۔ ہنسی، مذاق، مخول اور ٹھٹھے بازی میں سب سے غافل ہوگیا اور لگا درزی کی منت خوشامد کرنے کہ بھائی، واسطے خدا کے ایسا ہی مزیدار ایک قصہ اور سنا دو۔ میرا دل خوش ہوگیا۔درزی نے دیکھا کہ تیر نشانے پر بیٹھا ہے تو ایک اور قصہ اس سے بھی زیادہ پرلطف سنایا۔ ترک کا مارے ہنسی کے یہ حال تھا کہ دونوں ہاتھوں سے چہرہ ڈھانپے قہقہے پر قہقہے لگا رہا تھا۔ درزی نے بڑی ہوشیاری سے اطلس کا ایک اور ٹکڑا کاٹ کر دوسری ران تلے دبا لیا اور ترک کو ذرا خبر نہ ہوئی۔ جب درزی دوسرا قصہ سنا چکا تو ترک نے بے تاب ہو کر پھر درخواست کی ابھی طبیعت بھری نہیں۔ ایک قصہ اور سنائو۔ درزی کے ہاں ایسے قصوں کی کیا کمی تھی۔ اس نے پھر چرب زبانی کا مظاہرہ کیا اور ترک پھڑک پھڑک گیا۔ اتنا ہنسا اتنا ہنسا کہ آنکھیں بالکل مند گئیں۔ ہوش و حواس رخصت اور عقل و خرد الوداع۔ اس مرتبہ پھر درزی نے اطلس کی پٹی چرا کر نیفے میں اُڑس لی۔جب چوتھی بار ترک نے درزی سے ایک اور قصہ سنانے کی فرمائش کی تو درزی ہی کو کچھ حیا آگئی کہنے لگا ’’بس حضور بس۔ اب میں تھک گیا اور آپ کو بھی کئی کام ہوں گے۔ زندگی رہی تو انشاء اللہ بہت قصے سنائوں گا‘‘۔
اے عزیز! اب اس حکایت کی حقیقت پر غور کر۔ وہ ترک کون ہے؟ اور دغا باز درزی کون، اطلس کیا ہے، اور ہنسی مذاق کیا؟۔ سن، وہ غافل ترک تیری ذات ہے۔ جسے اپنی عقل و خرد پر بڑا بھروسا ہے لیکن یہ دھوکا دینے والی چیزیں ہیں۔ وہ عیار درزی یہ دنیائے فانی ہے۔ اطلس کی جو قبا تجھے تقویٰ،بھلائی اور نیکی کے لیے سلوانی تھی، وہ فضول مذاق اور قہقہوں میں تباہ و برباد ہوگئی۔ اطلس تیری عمر ہے۔ ہنسی مذاق نفسانی جذبات ہیں۔ تیری عمر کی اطلس پر دن رات درزی کی قینچی کی مانند چل رہے ہیں اور دل لگی کا شوق تیری غفلت ہے۔ گھوڑا کون ہے؟ تیرا ایمان، جس کی گھات میں شیطان لگا ہوا ہے۔ اس لیے اے عزیز! اپنے ہوش و حواس درست کر۔ ظاہر کوچھوڑ،باطن کی طرف توجہ کر۔ تیری قیمتی عمر کی اطلس لیل و نہار کی قینچی سے دنیا کا مکار درزی ٹکڑے کر کر کے چرائے جا رہا ہے اور تو ہنسی مذاق میں مشغول ہے۔
ایک داستان گو، شیریں زباں،رات کو یاروں دوستوں کی محفل میں بیٹھا درزیوں کے بارے میں مزیدار قصے کہہ رہا تھا اورلوگوں کو ان کی چوریوں اور ہتھکنڈوں کے واقعات سنا سنا کر خوب ہنسا رہا تھا۔ داستان گو نے اتنے واقعات سنائے کہ اچھا خاصا درزی نامہ مرتب ہوسکتا تھا۔جب اس نے درزیوں کی چوری اور مکاری سے گاہکوں کا کپڑا غائب کردینے کے اَن گنت قصے بیان کر ڈالے تو سننے والوں میں ملک خطا کا ایک ترک جسے اپنی دانش اورذہانت پر بڑا غرور تھا، کہنے لگا :
’’میاں! یہ قصے تو ہوتے ہی رہیں گے۔ یہ بتائو کہ اس وقت تمہارے شہر میں کون سا درزی دغا و فریب اور مکرو بدمعاشی میں سب درزیوں کا گُرو ہے؟‘‘۔داستان گو نے جواب دیا ’’یوں تو ایک سے ایک ماہر فن اس شہر کے گلی کوچوں میں پڑا ہے لیکن فی الوقت پورشش نام کا درزی بڑا عیار ہے۔ اس کے کاٹے کا منتر ہی نہیں۔ ہاتھ کی صفائی میں ایسا استاد کہ کپڑا توکپڑا، آنکھوںکا کاجل تک چرا لے اور چوری کا پتا نہ لگنے دے‘‘۔ترک کہنے لگا ’’لگا لو مجھ سے شرط۔ میں اس کے پاس کپڑا لے کر جاتا ہوں اور دیکھوں گا کہ وہ کیوں کر میری آنکھوں میں دھول جھونک کے کپڑا چراتا ہے۔ میاں کپڑا تو درکنار وہ ایک تار بھی غائب نہ کر سکے گا۔ میں نے بھی بڑے بڑے عیار اور مکار دیکھے ہیں‘‘۔لوگوں نے یہ ڈینگ سنی تو کہنے لگے ’’ارے بھائی! زیادہ جوش میں نہ آ۔ تجھ سے پہلے بھی بہت سے یہی دعویٰ کرتے آئے اور اس درزی سے چوٹ کھا گئے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ درزی تجھے صاف اُلّو بنا جائے۔‘‘۔اتنا سننا تھا کہ وہ ترک آپے سے باہر ہوگیا اور کہنے لگا ’’یارو! ان باتوں میں کیارکھا ہے۔ گھوڑا گھوڑا شرط باندھو۔ لوگوں نے کہا، بے شک منظور ہے اور یہ ہم ابھی بتائے دیتے ہیں کہ تو قیامت تک شرط نہ جیت سکے گا۔ غرض شرط طے ہوگئی اور محفل برخاست ہونے کے بعد ترک اپنے گھر چلا گیا۔ اسی پیچ و تاب اور فکر و اضطرار میں ساری رات پلک نہ جھپکی اور درزی کو زک دینے کے طور طریقوں پر غور کرتا رہا۔ صبح ہوتے ہی قیمتی اطلس کا ایک بڑا سا ٹکڑا بغل میں مارا اور پورشش درزی کا نام پتا پوچھتا پوچھتا اس کی دکان پر پہنچ گیا۔درزی نے اس ترک گاہک کو دیکھتے ہی نہایت ادب سے کھڑے ہو کر کہا ’’زہے نصیب کہ آپ میری دکان پر تشریف لائے؟‘‘۔ ترک بے حد متاثر ہوا۔جی میں کہا، یہ شخص تو بظاہر ایسا عیار اور دغاباز نظر نہیں آتا۔ لوگ بھی خواہ مخواہ رائی کا پہاڑ بنا دیتے ہیں۔یہ سوچ کر قیمتی استنبولی اطلس درزی اس کے آگے دھر دی اور کہا ’’میں بہت دور سے تیری تعریف سن کر آیا ہوں۔ اس اطلس کی قبا مجھے سی دے جو میں میدانِ جنگ میں زرہ بکتر کے نیچے پہن کر جاسکوں۔ اوپر کا حصہ تنگ کہ بدن پر پھنسا رہے اورنچلا حصہ کشادہ کہ پیروں میں دبنے نہ پائے۔‘‘
درزی نے دونوں ہاتھ ادب سے سینے پر باندھے اور گردن جھکا کر بولا حضور! میں ہر طرح آپ کا غلام ہوں ۔ابھی آپ کے سامنے کپڑا قطع کرتا ہوں۔‘‘
ترک وہیں ایک کرسی پر درزی کے قریب بیٹھ گیا۔ اس نے کپڑا گز سے ناپا، پھر قطع کرنے کے لیے جابجا اس پر نشان لگائے۔ اس کام کے ساتھ ساتھ بہلانے کے لیے اِدھر اُدھر کے پرلطف قصے چھیڑ دیئے اور ایسے دل آویز پیرائے میں یہ قصے کہے کہ ترک کو بے حد دلچسپی ہوگئی۔ بڑے بڑے امراء و رؤسا کے واقعات، ان کے جود و عطا اور بخشش و کرم کی داستانیں، بخیلوں کی کہانیاں جنہیں سن کر مارے ہنسی کے ترک کے پیٹ میں بل پڑ گئے۔ آخر میں درزی نے ایک حکایت ایسی مضحکہ خیز سنائی کہ ترک ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوگیا اور اس کی چندھی چندھی آنکھیں اور بھی مچ گئیں۔ درزی نے جھٹ اطلس کا ایک ٹکڑا چرا کر ران تلے ایسا دبایا کہ سوائے خدا کی ذات کے اور کوئی نہ دیکھ سکا۔
خدا بلاشبہ سب کی حرکتیں دیکھتا ہے ، لیکن کسی سے کچھ کہتا نہیں، کیونکہ اس کی صفت تو ستّاری ہے۔ البتہ مصلحت اور حکمت کا تقاضا ہو تو بھانڈا پھوڑ بھی دیتا ہے۔ غرض درزی کی اس پرلطف داستان سرائی میں وہ ترک اپنا اصل مقصد اور دعویٰ فراموش کر بیٹھا۔ کدھر کی اطلس، کہاں کی شرط اورکیسا گھوڑا۔ ہنسی، مذاق، مخول اور ٹھٹھے بازی میں سب سے غافل ہوگیا اور لگا درزی کی منت خوشامد کرنے کہ بھائی، واسطے خدا کے ایسا ہی مزیدار ایک قصہ اور سنا دو۔ میرا دل خوش ہوگیا۔درزی نے دیکھا کہ تیر نشانے پر بیٹھا ہے تو ایک اور قصہ اس سے بھی زیادہ پرلطف سنایا۔ ترک کا مارے ہنسی کے یہ حال تھا کہ دونوں ہاتھوں سے چہرہ ڈھانپے قہقہے پر قہقہے لگا رہا تھا۔ درزی نے بڑی ہوشیاری سے اطلس کا ایک اور ٹکڑا کاٹ کر دوسری ران تلے دبا لیا اور ترک کو ذرا خبر نہ ہوئی۔ جب درزی دوسرا قصہ سنا چکا تو ترک نے بے تاب ہو کر پھر درخواست کی ابھی طبیعت بھری نہیں۔ ایک قصہ اور سنائو۔ درزی کے ہاں ایسے قصوں کی کیا کمی تھی۔ اس نے پھر چرب زبانی کا مظاہرہ کیا اور ترک پھڑک پھڑک گیا۔ اتنا ہنسا اتنا ہنسا کہ آنکھیں بالکل مند گئیں۔ ہوش و حواس رخصت اور عقل و خرد الوداع۔ اس مرتبہ پھر درزی نے اطلس کی پٹی چرا کر نیفے میں اُڑس لی۔جب چوتھی بار ترک نے درزی سے ایک اور قصہ سنانے کی فرمائش کی تو درزی ہی کو کچھ حیا آگئی کہنے لگا ’’بس حضور بس۔ اب میں تھک گیا اور آپ کو بھی کئی کام ہوں گے۔ زندگی رہی تو انشاء اللہ بہت قصے سنائوں گا‘‘۔
اے عزیز! اب اس حکایت کی حقیقت پر غور کر۔ وہ ترک کون ہے؟ اور دغا باز درزی کون، اطلس کیا ہے، اور ہنسی مذاق کیا؟۔ سن، وہ غافل ترک تیری ذات ہے۔ جسے اپنی عقل و خرد پر بڑا بھروسا ہے لیکن یہ دھوکا دینے والی چیزیں ہیں۔ وہ عیار درزی یہ دنیائے فانی ہے۔ اطلس کی جو قبا تجھے تقویٰ،بھلائی اور نیکی کے لیے سلوانی تھی، وہ فضول مذاق اور قہقہوں میں تباہ و برباد ہوگئی۔ اطلس تیری عمر ہے۔ ہنسی مذاق نفسانی جذبات ہیں۔ تیری عمر کی اطلس پر دن رات درزی کی قینچی کی مانند چل رہے ہیں اور دل لگی کا شوق تیری غفلت ہے۔ گھوڑا کون ہے؟ تیرا ایمان، جس کی گھات میں شیطان لگا ہوا ہے۔ اس لیے اے عزیز! اپنے ہوش و حواس درست کر۔ ظاہر کوچھوڑ،باطن کی طرف توجہ کر۔ تیری قیمتی عمر کی اطلس لیل و نہار کی قینچی سے دنیا کا مکار درزی ٹکڑے کر کر کے چرائے جا رہا ہے اور تو ہنسی مذاق میں مشغول ہے۔
Hikayat-e-Maulana Rumi (R.A) , Faani Dunya