I
intelligent086
Guest
حکایت مولانا رومیؒ , ۔۔۔۔۔۔۔۔ جاہل بڑھیا
بادشاہ کے محل سے شاہی بازاڑکر کہیں چلا گیا۔بادشاہ سلامت کو اس شاہی باز سے بڑی محبت تھی اس لئے وہ خود اسے تلاش کرنے محل سے نکل پڑا۔ باز اڑ کر ایک بڑھیا کے گھر جا پہنچا۔بڑھیا اس خوبصورت پرندے کو دیکھ کر بے حد خوش ہوئی۔اسے پکڑ کر کہنے لگی ، ''تو کس نااہل کے ہتھے چڑھا ہوا تھا؟ہائے ظالم نے تیری قدر نہ جانی، تیرے ناخن اور پر کس قدر لمبے ہوگئے ہیں‘‘۔یہ کہہ کر اس نے باز کے پائوں باندھے اور اس کے پر اور ناخن کاٹ ڈالے۔
یہاں رومیؒ نے ایک شعر لکھا جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے: '' جاہل اگر تجھ سے محبت بھی کرے گا تو اپنی جہالت کی وجہ سے تجھے تکلیف ہی دے گا‘‘۔
بادشاہ سارا دن باز کو تلاش کرتے کرتے آخر کار اس بڑھیا کے گھر پہنچا۔ باز کو اس قدر برے حال میں دیکھ کر بادشاہ کے آنسو نکل آئے۔بادشاہ باز سے کہنے لگا،
'' حقیقت میں تیری اس بے وفائی کی یہی سزا ہے، کیونکہ تو ہماری وفاداری پر قائم نہ رہا‘‘۔ باز اپنے پروں کو بادشاہ کے ہاتھ پر ملنے لگا، اور زبان حال سے کہنے لگا کہ '' میں نے آپ سے جدائی کا نتیجہ دیکھ لیا، یہ مجھ سے سخت خطا سرزد ہوئی۔ اے بادشاہ! میں شرمندہ ہوں۔ معافی کا طلب گار ہوں،اور تجھ سے نیا عہد و پیمان کرتا ہوں کہ آئندہ ایسی حرکت نہ کروں گا۔ اگر تو نے مجھے معاف نہ کیا تو میں کہیں اور چلا جائوںگا۔ کسی اور کے دروازے پر بیٹھ جائوں گا، اگر تیرا لطف و کرم میرے شامل حال ہوجائے تو ناخنوں اور پروں کے بغیر بھی میں شہباز ہوں‘‘۔ باز کی پشیمانی اور گریہ زاری دیکھ کر بادشاہ کو رحم آگیا، دل میں باز کی پہلے جیسی محبت جاگ اٹھی۔ بادشاہ نے پھر باز کو اپنا محبوب بنا لیا۔
یہاں رومیؒ ایک اور شعر لکھتے ہیںجس کا مطلب ہے کہ ''جو شخص کسی جاہل کی صحبت اختیار کرے گا اس کا یہی حال ہو گا، باز جیسا واقعہ اس کے ساتھ بھی پیش آ سکتا ہے۔باز کے پر اور ناخن ہی تو اس کے کمالات تھے، جن سے وہ شکار کرتا ہے، جاہل بڑھیا کو وہی کمالات معیوب نظر آئے۔ جس کی وجہ سے ظالم نے باز کوبالکل ہی بے کار کر دیا‘‘۔
درس حیات: یہ دنیا بھی جاہل عورت کی مانند ہے، جو شخص اس کی جانب مائل ہو گا، اس کے پر کاٹ دیئے جائیں گے ، اس کی اصل خوبی یعنی باطنی حسن ضائع ہو جائے گی ۔اور پھر وہ اپنے رب کی نظروں میں گر جائے گا۔ لہٰذا فوراََ اپنے گناہوں کی معافی مانگ کر ، رب کے حضور سجدہ ریز ہو کر اصل زندگی کا آغاز کر ،ورنہ اس دنیامیں ہی بھٹکتا رہ جائے گا۔ایک در سے دوسرے در تک پھرتا رہے گا مگر کوئی کہیں ٹھکانہ نہیں ملے گا۔ جب انسان پشیمانی کے ساتھ معافی کا طلب گار ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کا دریا جوش میں آ جاتا ہے۔وہ دل سے سجدہ ریز ہونے والے کا دامن رحمت سے بھر دیتا ہے۔
بادشاہ کے محل سے شاہی بازاڑکر کہیں چلا گیا۔بادشاہ سلامت کو اس شاہی باز سے بڑی محبت تھی اس لئے وہ خود اسے تلاش کرنے محل سے نکل پڑا۔ باز اڑ کر ایک بڑھیا کے گھر جا پہنچا۔بڑھیا اس خوبصورت پرندے کو دیکھ کر بے حد خوش ہوئی۔اسے پکڑ کر کہنے لگی ، ''تو کس نااہل کے ہتھے چڑھا ہوا تھا؟ہائے ظالم نے تیری قدر نہ جانی، تیرے ناخن اور پر کس قدر لمبے ہوگئے ہیں‘‘۔یہ کہہ کر اس نے باز کے پائوں باندھے اور اس کے پر اور ناخن کاٹ ڈالے۔
یہاں رومیؒ نے ایک شعر لکھا جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے: '' جاہل اگر تجھ سے محبت بھی کرے گا تو اپنی جہالت کی وجہ سے تجھے تکلیف ہی دے گا‘‘۔
بادشاہ سارا دن باز کو تلاش کرتے کرتے آخر کار اس بڑھیا کے گھر پہنچا۔ باز کو اس قدر برے حال میں دیکھ کر بادشاہ کے آنسو نکل آئے۔بادشاہ باز سے کہنے لگا،
'' حقیقت میں تیری اس بے وفائی کی یہی سزا ہے، کیونکہ تو ہماری وفاداری پر قائم نہ رہا‘‘۔ باز اپنے پروں کو بادشاہ کے ہاتھ پر ملنے لگا، اور زبان حال سے کہنے لگا کہ '' میں نے آپ سے جدائی کا نتیجہ دیکھ لیا، یہ مجھ سے سخت خطا سرزد ہوئی۔ اے بادشاہ! میں شرمندہ ہوں۔ معافی کا طلب گار ہوں،اور تجھ سے نیا عہد و پیمان کرتا ہوں کہ آئندہ ایسی حرکت نہ کروں گا۔ اگر تو نے مجھے معاف نہ کیا تو میں کہیں اور چلا جائوںگا۔ کسی اور کے دروازے پر بیٹھ جائوں گا، اگر تیرا لطف و کرم میرے شامل حال ہوجائے تو ناخنوں اور پروں کے بغیر بھی میں شہباز ہوں‘‘۔ باز کی پشیمانی اور گریہ زاری دیکھ کر بادشاہ کو رحم آگیا، دل میں باز کی پہلے جیسی محبت جاگ اٹھی۔ بادشاہ نے پھر باز کو اپنا محبوب بنا لیا۔
یہاں رومیؒ ایک اور شعر لکھتے ہیںجس کا مطلب ہے کہ ''جو شخص کسی جاہل کی صحبت اختیار کرے گا اس کا یہی حال ہو گا، باز جیسا واقعہ اس کے ساتھ بھی پیش آ سکتا ہے۔باز کے پر اور ناخن ہی تو اس کے کمالات تھے، جن سے وہ شکار کرتا ہے، جاہل بڑھیا کو وہی کمالات معیوب نظر آئے۔ جس کی وجہ سے ظالم نے باز کوبالکل ہی بے کار کر دیا‘‘۔
درس حیات: یہ دنیا بھی جاہل عورت کی مانند ہے، جو شخص اس کی جانب مائل ہو گا، اس کے پر کاٹ دیئے جائیں گے ، اس کی اصل خوبی یعنی باطنی حسن ضائع ہو جائے گی ۔اور پھر وہ اپنے رب کی نظروں میں گر جائے گا۔ لہٰذا فوراََ اپنے گناہوں کی معافی مانگ کر ، رب کے حضور سجدہ ریز ہو کر اصل زندگی کا آغاز کر ،ورنہ اس دنیامیں ہی بھٹکتا رہ جائے گا۔ایک در سے دوسرے در تک پھرتا رہے گا مگر کوئی کہیں ٹھکانہ نہیں ملے گا۔ جب انسان پشیمانی کے ساتھ معافی کا طلب گار ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کا دریا جوش میں آ جاتا ہے۔وہ دل سے سجدہ ریز ہونے والے کا دامن رحمت سے بھر دیتا ہے۔
Hikayat-e-Maulana Rumi (R.A) , Jahil Budhiya