I
intelligent086
Guest
حکایت مولانا رومیؒ ۔۔۔۔۔ کھوٹی قسمت
ایک دفعہ کا ذکر ہے، کسی عرب بدُّو نے اپنے اونٹ پر اناج کی ایک گونی بھری اور دوسری گونی میں ریت بھر کر لاد دی۔ خود ان دونوں گونیوں کے اوپر جا بیٹھا۔ راستے میں ایک دانش مند سے آمنا سامنا ہوگیا۔ اس نے بدو سے پوچھا کہ بھائی! ان دونوں گونیوں میں تو نے کیا بھرا ہے؟ بدو نے جواب دیا کہ ایک گونی میں اناج ہے،دوسری میں ریت بھری ہے۔ دانش مند نے حیرت سے کہا کہ دوسری گونی میں ریت بھری ہے؟ آخر یہ کس لیے؟ بدو کہنے لگا، اس لیے کہ دونوں طرف وزن برابر رہے۔ کسی ایک طرف اونٹ جھکنے نہ پائے اور اسے تھکن نہ ہو۔ دانش مند نے کہا کہ ابے احمق کہیں کے ایک گونی میں سے آدھا اناج نکال کر دوسری گونی میں ڈال دے۔ وزن برابر ہو جائے گا اور اونٹ پر زیادہ بوجھ بھی نہ رہے گا۔ بدو نے تعجب سے دانتوں میں انگلی دے کر کہا :’’کمال ہے اور آفرین ہے تجھ پر اے دانش مند کہ ایسی بہترین سوجھ بوجھ رکھنے کے باوجود تو اس صحرا میں پھٹے پرانے کپڑے پہنے بے سرو سامانی کے عالم میں پیدل سفر کر رہا ہے۔ آ، میرے ساتھ اس اونٹ پر سوار ہو جا۔‘‘ دانش مند اونٹ پر سوار ہوگیا۔
بدو نے کہا ’’اے عقل و حکمت سے بھر ے ہوئے حکیم، سچ سچ بتا تو کون ہے اور اس بوسیدہ لباس میں کیوں ہے؟ ایسی دانائی اور خوش تدبیری جیسی تجھ میں ہے، وہ میں نے سنا ہے کہ حاکموں اور وزیروں ہی میں ہوتی ہے۔‘‘
دانش مند نے جواب دیا ’’نہیں بھائی! تیرا قیاس غلط ہے۔ میں حاکم ہوں نہ وزیر، نہ امیر، بلکہ ایک مسکین اوربے آسرا شخص ہوں۔ میری ظاہری حالت اس حقیقت کی گواہ ہے۔‘‘
بدو نے دریافت کیا ’’اچھا، یہ بتا تیرے پاس کتنے اونٹ اور کتنی بھیڑ بکریاں ہیں؟‘‘اس نے کہا ’’ان میں سے ایک جانور بھی میرے قبضے میں نہیں۔‘‘
بدو نے پوچھا ’’پھر تیرا دھندا کیا ہے؟ خرچ کیسے چلتا ہے؟ کوئی دکان مکان ہے کیا؟‘‘
دانش مند نے کہا ’’نہیں بھائی، دکان میرے پاس کہاں۔ دُکان تو ایک طرف، رہنے کا کوئی مستقل ٹھکانہ بھی نہیں ہے۔‘‘
بدو نے کہا ’’آخر ایسی بھی کیا بے سرو سامانی، کچھ نقدی وقدی ضرور تمہارے پاس ہوگی۔ میں نے سنا ہے تمام دنیا تانبا ہے اور تانبے کو سونا کر دینے والی کیمیا تمہارے قبضے میں ہے۔ کیا عقل و دانش کے اَن گنت موتی تمہارے پاس نہیں ہیں۔‘‘
دانش مند نے آہ بھر کر کہا ’’واللہ! اے امیر عرب ،میری ملکیت میں تو ایک شب کا کھانا بھی نہیں۔ تو دیکھ رہا ہے کہ ننگے پائوں، ننگے سر آوارہ پھر رہا ہوں اور امید یہ ہے کہ جو مجھے روٹی کے دو ٹکڑے دے ، اسی کا ہو جائوں۔ جو حکمت و دانش تو نے میرے پاس دیکھی ، اس کا مصرف اس کے سوا کچھ نہیں کہ خیالی پلائو پکاتا رہوں۔‘‘
یہ سن کر بدو نے اونٹ روک لیا اور جھڑک کر کہا ’’چل اُتر ،اور جہاں تیرا جی چاہے بھاگ جا۔ ایسا نہ ہو کہیں تیری پھوٹی قسمت میرا گھر تاک لے اور مجھے بھی تیری طرح ویران کرے۔ اپنی اس بدنصیبی کی دانائی اور حکمت کو دور لے جا۔ تیری باتیں دنیا والوں کو افلاس اور تنگ دستی کے عذاب میں مبتلا کرنے والی ہیں۔‘‘
ایک دفعہ کا ذکر ہے، کسی عرب بدُّو نے اپنے اونٹ پر اناج کی ایک گونی بھری اور دوسری گونی میں ریت بھر کر لاد دی۔ خود ان دونوں گونیوں کے اوپر جا بیٹھا۔ راستے میں ایک دانش مند سے آمنا سامنا ہوگیا۔ اس نے بدو سے پوچھا کہ بھائی! ان دونوں گونیوں میں تو نے کیا بھرا ہے؟ بدو نے جواب دیا کہ ایک گونی میں اناج ہے،دوسری میں ریت بھری ہے۔ دانش مند نے حیرت سے کہا کہ دوسری گونی میں ریت بھری ہے؟ آخر یہ کس لیے؟ بدو کہنے لگا، اس لیے کہ دونوں طرف وزن برابر رہے۔ کسی ایک طرف اونٹ جھکنے نہ پائے اور اسے تھکن نہ ہو۔ دانش مند نے کہا کہ ابے احمق کہیں کے ایک گونی میں سے آدھا اناج نکال کر دوسری گونی میں ڈال دے۔ وزن برابر ہو جائے گا اور اونٹ پر زیادہ بوجھ بھی نہ رہے گا۔ بدو نے تعجب سے دانتوں میں انگلی دے کر کہا :’’کمال ہے اور آفرین ہے تجھ پر اے دانش مند کہ ایسی بہترین سوجھ بوجھ رکھنے کے باوجود تو اس صحرا میں پھٹے پرانے کپڑے پہنے بے سرو سامانی کے عالم میں پیدل سفر کر رہا ہے۔ آ، میرے ساتھ اس اونٹ پر سوار ہو جا۔‘‘ دانش مند اونٹ پر سوار ہوگیا۔
بدو نے کہا ’’اے عقل و حکمت سے بھر ے ہوئے حکیم، سچ سچ بتا تو کون ہے اور اس بوسیدہ لباس میں کیوں ہے؟ ایسی دانائی اور خوش تدبیری جیسی تجھ میں ہے، وہ میں نے سنا ہے کہ حاکموں اور وزیروں ہی میں ہوتی ہے۔‘‘
دانش مند نے جواب دیا ’’نہیں بھائی! تیرا قیاس غلط ہے۔ میں حاکم ہوں نہ وزیر، نہ امیر، بلکہ ایک مسکین اوربے آسرا شخص ہوں۔ میری ظاہری حالت اس حقیقت کی گواہ ہے۔‘‘
بدو نے دریافت کیا ’’اچھا، یہ بتا تیرے پاس کتنے اونٹ اور کتنی بھیڑ بکریاں ہیں؟‘‘اس نے کہا ’’ان میں سے ایک جانور بھی میرے قبضے میں نہیں۔‘‘
بدو نے پوچھا ’’پھر تیرا دھندا کیا ہے؟ خرچ کیسے چلتا ہے؟ کوئی دکان مکان ہے کیا؟‘‘
دانش مند نے کہا ’’نہیں بھائی، دکان میرے پاس کہاں۔ دُکان تو ایک طرف، رہنے کا کوئی مستقل ٹھکانہ بھی نہیں ہے۔‘‘
بدو نے کہا ’’آخر ایسی بھی کیا بے سرو سامانی، کچھ نقدی وقدی ضرور تمہارے پاس ہوگی۔ میں نے سنا ہے تمام دنیا تانبا ہے اور تانبے کو سونا کر دینے والی کیمیا تمہارے قبضے میں ہے۔ کیا عقل و دانش کے اَن گنت موتی تمہارے پاس نہیں ہیں۔‘‘
دانش مند نے آہ بھر کر کہا ’’واللہ! اے امیر عرب ،میری ملکیت میں تو ایک شب کا کھانا بھی نہیں۔ تو دیکھ رہا ہے کہ ننگے پائوں، ننگے سر آوارہ پھر رہا ہوں اور امید یہ ہے کہ جو مجھے روٹی کے دو ٹکڑے دے ، اسی کا ہو جائوں۔ جو حکمت و دانش تو نے میرے پاس دیکھی ، اس کا مصرف اس کے سوا کچھ نہیں کہ خیالی پلائو پکاتا رہوں۔‘‘
یہ سن کر بدو نے اونٹ روک لیا اور جھڑک کر کہا ’’چل اُتر ،اور جہاں تیرا جی چاہے بھاگ جا۔ ایسا نہ ہو کہیں تیری پھوٹی قسمت میرا گھر تاک لے اور مجھے بھی تیری طرح ویران کرے۔ اپنی اس بدنصیبی کی دانائی اور حکمت کو دور لے جا۔ تیری باتیں دنیا والوں کو افلاس اور تنگ دستی کے عذاب میں مبتلا کرنے والی ہیں۔‘‘