I
intelligent086
Guest
حکایت مولانا رومیؒ ۔۔۔۔ نقاب پوش عاشق
یہ نقاب پوش بزرگ کسی خطہ عرب کے بادشاہ تھے،پہلے بڑے شاعر تھے، اور عشق مجازی میں مبتلا تھے۔حکومت اور ملک کے حریص،نازک طبع اور صاحب جمال تھے۔بعد میں عشق حقیقی کی طرف ان کی رغبت ہونے لگی۔اس کیف کاان پر بڑا اثر پڑا۔ حکومت و سلطنت تلخ محسوس ہونے لگی۔
عشق دل میں پیدا کرو،محض خرد سے حق تک رسائی نہ ہوگی۔بلکہ جو عقل نو روحی سے منور نہ ہو،اس سے تو جاہل رہنا ہی بہتر ہے۔
بالآخر عشق حقیقی نے اس بادشاہ کو تخت و تاراج سے بے نیاز کر کے آدھی رات کو جنگل کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔ دشت و دمن سے دیوانہ وار گزرتا ہوا وہ بادشاہ اپنی حدود سلطنت سے نکل کر سرحد تبوک میں داخل ہو گیا۔ چہرہ پر نقاب ڈال لیا تاکہ جلالت شاہانہ سے لوگ نہ سمجھ لیں کہ یہ گڈری پوش کسی ملک کا امیر یا بادشاہ ہے ۔ ملک تبوک میں اس بادشاہ پر جب فاقے گزرگئے تو ضعف و نقاہت سے مجبور ہو کرمزدورں کے ساتھ اینٹیں اٹھانے لگا۔اگرچہ وہ بادشاہ چہرے پر نقاب کئے ہوئے تھا لیکن اس کے رنگ ڈھنگ سے مزدوروں میں تذکرے ہونے لگے۔ کہ یہ نقاب پوش کسی ملک کا سفیر یا بادشاہ معلوم ہوتا ہے۔ یہ خبر شاہ تبوک تک پہنچ گئی۔ شاہ تبوک کو فکرلاحق ہوئی کہ یہ ماجرا کیا ہے۔ شاہ تبوک نے فوراََ سامان باندھا ، اور اس مزدور بادشاہ کی جھونپڑی میں جا پہنچا۔ اور دریافت کرنے لگا،
''اے صاحب جمال! آپ اپنے صحیح حال سے مجھے آگاہ کیجئے۔ آپ کا یہ روشن چہرہ شہادت دیتا ہے کہ آپ کسی ملک کے بادشاہ ہیں۔اس فقر و مسکنت کا سبب کیا ہے؟۔ آپ نے اپنی راحت اورسلطانیت کو فقر کی ذلت پر کیوں قربان کیا۔اے عالی حوصلہ!آپ کی ہمت پر میری سلطنت تبوک ہی نہیں، بلکہ صد ہا سلطنتیں قربان ہوں۔ مجھے جلد اپنے راز سے آگاہ کیجئے۔اگر آپ میرے پاس مہمان رہیں، تو یہ میری خوش نصیبی ہو گی۔آپ کی قربت سے میری جان بوجہ خوشی سو جان کے برابر ہوجائے گی‘‘۔
اس طرح بہت سی ترکیبوں سے شاہ تبوک اس لباس فقر میں ملبوس بادشاہ سے دیر تک باتیں کرتا رہا۔تاکہ اس کا راز منکشف ہو جائے۔ راز و نیاز کی گفتگو کی بجائے نقاب پوش بادشاہ نے شاہ تبوک کے کان میں درد و عشق کی نجانے کیا بات کہہ دی کہ شاہ تبوک نے درد بھری چیخ ماری ، گریبان چاک کر دیا۔ شاہانہ جاہ و جلال کا ہوش نہ رہا۔ حسن لازوال کے عشق و محبت میں ماہی بے آب کی طرح تڑپنے لگا۔۔۔۔آدھی رات کا وقت ہوا، دونوں بادشاہ اس ملک سے نکل کر مالک الملک کی طرف کسی اور علاقے میں چل دیئے، تاکہ خلقت پریشان نہ کرے۔اور فراغ قلب سے محبوب حقیقی کی یاد میں مشغولی نصیب ہو۔
اس نقاب پوش عاشق صادق کی بات میں نجانے کیسی لذت تھی کہ شاہ تبوک پر سلطنت کی تمام لذتیں حرام ہو گئیں۔دنیا کی ساری باتیں اس لذت کے سامنے ہیچ ہو گئیں۔ اور دل میں عشق الہٰی کا ایک دریاموجزن ہو گیا۔ شاہ تبوک نے اسی وقت اپنے سینے میں اللہ تعالیٰ سے تعلق کی دولت محسوس کی۔
خدا، آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے کہ آپ نے میری آنکھیں کھول دیں اور مجھے محبوب حقیقی سے ہم راز کر دیا۔اس نے نقاب پوش صاحب نسبت بادشاہ سے عرض کیا کہ ہمیں بھی اپنے ہمراہ لے چلیں۔آپ کا قلب سر چشمہ آتش عشق ہے۔ اس عشق حق کی آگ سے میرا سینہ بھی بھر دیجئے۔ سلطنت ترک کر کے آپ کا مزدوروں کے ساتھ اینٹیں بنانا اور لباس فقر میں خستہ حال رہنا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ باطن میں کوئی دوسری سلطنت دیکھ چکے ہیں۔جس کے سامنے ہفت اقلیم کی سلطنت بھی گرد ہے۔
مولانا رومیؒ فرماتے ہیں :
صرف دو بادشاہوں کو ہی نہیں، اور بھی بے شمار بادشاہوں کو عشق نے ان کے ملک اور خاندان سے جدا کر دیا، جب عشق کمان پر چلہ چڑھا لیتا ہے تو لاکھوں سر اس وقت ایک پیسے کے مول بک جاتے ہیں۔
درس حیات: جب حق سے آشنائی ہو جائے تو دنیا کی ہر چیز حقیر نظر آنے لگتی ہے۔
یہ نقاب پوش بزرگ کسی خطہ عرب کے بادشاہ تھے،پہلے بڑے شاعر تھے، اور عشق مجازی میں مبتلا تھے۔حکومت اور ملک کے حریص،نازک طبع اور صاحب جمال تھے۔بعد میں عشق حقیقی کی طرف ان کی رغبت ہونے لگی۔اس کیف کاان پر بڑا اثر پڑا۔ حکومت و سلطنت تلخ محسوس ہونے لگی۔
عشق دل میں پیدا کرو،محض خرد سے حق تک رسائی نہ ہوگی۔بلکہ جو عقل نو روحی سے منور نہ ہو،اس سے تو جاہل رہنا ہی بہتر ہے۔
بالآخر عشق حقیقی نے اس بادشاہ کو تخت و تاراج سے بے نیاز کر کے آدھی رات کو جنگل کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔ دشت و دمن سے دیوانہ وار گزرتا ہوا وہ بادشاہ اپنی حدود سلطنت سے نکل کر سرحد تبوک میں داخل ہو گیا۔ چہرہ پر نقاب ڈال لیا تاکہ جلالت شاہانہ سے لوگ نہ سمجھ لیں کہ یہ گڈری پوش کسی ملک کا امیر یا بادشاہ ہے ۔ ملک تبوک میں اس بادشاہ پر جب فاقے گزرگئے تو ضعف و نقاہت سے مجبور ہو کرمزدورں کے ساتھ اینٹیں اٹھانے لگا۔اگرچہ وہ بادشاہ چہرے پر نقاب کئے ہوئے تھا لیکن اس کے رنگ ڈھنگ سے مزدوروں میں تذکرے ہونے لگے۔ کہ یہ نقاب پوش کسی ملک کا سفیر یا بادشاہ معلوم ہوتا ہے۔ یہ خبر شاہ تبوک تک پہنچ گئی۔ شاہ تبوک کو فکرلاحق ہوئی کہ یہ ماجرا کیا ہے۔ شاہ تبوک نے فوراََ سامان باندھا ، اور اس مزدور بادشاہ کی جھونپڑی میں جا پہنچا۔ اور دریافت کرنے لگا،
''اے صاحب جمال! آپ اپنے صحیح حال سے مجھے آگاہ کیجئے۔ آپ کا یہ روشن چہرہ شہادت دیتا ہے کہ آپ کسی ملک کے بادشاہ ہیں۔اس فقر و مسکنت کا سبب کیا ہے؟۔ آپ نے اپنی راحت اورسلطانیت کو فقر کی ذلت پر کیوں قربان کیا۔اے عالی حوصلہ!آپ کی ہمت پر میری سلطنت تبوک ہی نہیں، بلکہ صد ہا سلطنتیں قربان ہوں۔ مجھے جلد اپنے راز سے آگاہ کیجئے۔اگر آپ میرے پاس مہمان رہیں، تو یہ میری خوش نصیبی ہو گی۔آپ کی قربت سے میری جان بوجہ خوشی سو جان کے برابر ہوجائے گی‘‘۔
اس طرح بہت سی ترکیبوں سے شاہ تبوک اس لباس فقر میں ملبوس بادشاہ سے دیر تک باتیں کرتا رہا۔تاکہ اس کا راز منکشف ہو جائے۔ راز و نیاز کی گفتگو کی بجائے نقاب پوش بادشاہ نے شاہ تبوک کے کان میں درد و عشق کی نجانے کیا بات کہہ دی کہ شاہ تبوک نے درد بھری چیخ ماری ، گریبان چاک کر دیا۔ شاہانہ جاہ و جلال کا ہوش نہ رہا۔ حسن لازوال کے عشق و محبت میں ماہی بے آب کی طرح تڑپنے لگا۔۔۔۔آدھی رات کا وقت ہوا، دونوں بادشاہ اس ملک سے نکل کر مالک الملک کی طرف کسی اور علاقے میں چل دیئے، تاکہ خلقت پریشان نہ کرے۔اور فراغ قلب سے محبوب حقیقی کی یاد میں مشغولی نصیب ہو۔
اس نقاب پوش عاشق صادق کی بات میں نجانے کیسی لذت تھی کہ شاہ تبوک پر سلطنت کی تمام لذتیں حرام ہو گئیں۔دنیا کی ساری باتیں اس لذت کے سامنے ہیچ ہو گئیں۔ اور دل میں عشق الہٰی کا ایک دریاموجزن ہو گیا۔ شاہ تبوک نے اسی وقت اپنے سینے میں اللہ تعالیٰ سے تعلق کی دولت محسوس کی۔
خدا، آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے کہ آپ نے میری آنکھیں کھول دیں اور مجھے محبوب حقیقی سے ہم راز کر دیا۔اس نے نقاب پوش صاحب نسبت بادشاہ سے عرض کیا کہ ہمیں بھی اپنے ہمراہ لے چلیں۔آپ کا قلب سر چشمہ آتش عشق ہے۔ اس عشق حق کی آگ سے میرا سینہ بھی بھر دیجئے۔ سلطنت ترک کر کے آپ کا مزدوروں کے ساتھ اینٹیں بنانا اور لباس فقر میں خستہ حال رہنا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ باطن میں کوئی دوسری سلطنت دیکھ چکے ہیں۔جس کے سامنے ہفت اقلیم کی سلطنت بھی گرد ہے۔
مولانا رومیؒ فرماتے ہیں :
صرف دو بادشاہوں کو ہی نہیں، اور بھی بے شمار بادشاہوں کو عشق نے ان کے ملک اور خاندان سے جدا کر دیا، جب عشق کمان پر چلہ چڑھا لیتا ہے تو لاکھوں سر اس وقت ایک پیسے کے مول بک جاتے ہیں۔
درس حیات: جب حق سے آشنائی ہو جائے تو دنیا کی ہر چیز حقیر نظر آنے لگتی ہے۔
Hikayat-e-Maulana Rumi (R.A) , Naqaab Posh Ashiq