Hikayat-e-Maulana Rumi (R.A) , Nooh (A.S) ka Beta

I

intelligent086

Guest
حکایت مولانا رومیؒ ۔۔۔۔ نوح کا بیٹا

rumi-jpg.jpg

کہتے ہیں، جب حضرت نوح علیہ السلام اپنی قوم کی نافرمانی سے عاجز آگئے تو انہوں نے پروردگار سے دعا کی کہ یا الٰہی، اس نافرمان قوم پر اپنا عذاب بھیج۔ خدانے حضرت نوعؑ کی یہ دعا فرمائی اور کہا کہ میں عنقریب زمین پر ایک زبردست سیلاب نازل کرنے والا ہوں۔ تو اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لیے ایک کشتی بنا لے۔ حضرت نوحؑ نے اس حکم کے مطابق کشتی بنائی۔وقت مقررہ پر پانی کا طوفان آیا تو حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے نافرمان اور ضدی بیٹے کنعان سے کہا ’’اے بیٹا، اگر سلامتی چاہتا ہے تو اس کشتی میں آجا ، ورنہ ڈوب جائے گا۔‘‘
کنعان تیراکی کے فن میں ماہر تھا اور اس کے دماغ میں تیراک ہونے کا غرور سمایا ہوا تھا۔ اس نے جواب دیا۔ ’’اے (حضرت)نوحؑ، آپ ؑہمارے دشمن ہیں۔ ہمیں آپ ؑ کی اس کشتی کی ضرورت نہیں۔ میں پانی میں تیرنا اچھی طرح جانتا ہوں۔ میری شمع اندھیرے میں راہ دکھانے کے لیے میرے پاس موجود ہے۔ پھر مجھے آپ ؑ شمع کی کیا ضرورت ہے؟‘‘
حضرت نوح ؑنے کہا ’’بیٹا،ایسا کلمہ زبان سے نہ نکال۔ یہ طوفان ایک مہیب بلا ہے۔ تیری ساری تیراکی دھری کی دھری رہ جائے گی۔ کہاں تک تیرے گا؟ ہاتھ پائوں شل ہو کر جواب دے جائیں گے۔ اس طوفانِ بلا خیز کے ہولناک جھکڑ ساری شمعوں کو گل کر دیں گے۔ ہاں، ایک حق کی شمع جلتی رہے گی۔ آ، میری بات مان لے اور کشتی میں سوار ہو جا۔‘‘
کنعان نے قہقہہ لگا کر کہا ’’اے نوحؑ ٗ تو میری فکر مت کر میں سب سے اونچے پہاڑ پر چڑھ جائوں گا اور پہاڑ کی چوٹی پر پانی ہرگز نہیں پہنچ سکتا۔‘‘
یہ سن کر حضرت نوح ؑپکار اٹھے ’’اے بے خبر ٗ خبردار! ایسا نہ کرنا۔ اس طوفان میں بڑے سے بڑا پہاڑ بھی گھاس کے ایک حقیر تنکے کے برابر ہے اور خدا اپنے دوستوں کے سوا کسی کو اس بلائے عظیم سے نجات نہ دے گا۔ میری نصیحت مان، ضد اور غرور چھوڑ دے، اس کشتی میں آجا ،تاکہ سلامت رہے۔‘‘
کنعان نے کہا ’’اے نوحؑ میں نے پہلے تیری نصیحت کب مانی تھی کہ اب مانوں گا۔ تو ایسی بات کی توقع ہی مجھ سے کیوں کرتا ہے کہ میں تجھے سچا جان لوں۔ یاد رکھ ٗمیں دونوں جہانوں میں تجھ سے الگ ہوں۔‘‘
غرض حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو سمجھانے بجھانے اور خدا کے عذاب سے ڈرانے کی بہت کوشش کی لیکن اس بدبخت نے ایک نہ سنی۔ ابھی یہ بحث و تکرار جاری تھی کہ ایک سربفلک اور تیز و تند موج آئی اور کنعان کے پرخچے اڑاتی ہوئی نکل گئی۔ بیٹے کا یہ عبرت خیز حشر دیکھ کر حضرت نوح ؑ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور بار گاہ ایزدی میں عرض کی: ’’اے رحیم و کریم اور تمام جہانوں کے مالک ٗ تو نے مجھ سے وعدہ فرمایا تھا کہ میرے لوگ طوفان سے محفوظ رہیں گے۔ پھر یہ کیا ہوا؟‘‘
حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’اے نوح ؑ ٗ جسے ہم نے غرق کیا ٗ وہ تیرے لوگوں میں سے نہ تھا۔ تجھے خود نیلے اور سفید کی پہچان نہ رہی۔ دیکھ ، جب تیرے دانت میں کیڑا لگ جائے ، تب اس دانت کو اُکھڑ وا دے۔ بے شک وہ دانت تیرے ہی جسم کا حصہ ہے ، لیکن جب وہ تکلیف دیتا تو تو اس سے بیزار ہو جاتا ہے اور سوچتا ہے کہ اس کا نکال ڈالنا ہی بہتر ہے ورنہ باقی دانت بھی بے کار ہوجائیں گے‘‘۔
یہ سن کر حضرت نوح علیہ السلام نے بارگاہِ ایزدی میں سجدہ کیا اور کہنے لگے ‘‘اے پروردگار،میں پناہ مانگتا ہوں اور تیری ذات کے سوا غیر سے بیزار ہوں۔ پس مجھے معاف کر دے۔‘‘ارشاد ہوا ’’اے نوح ؑ وہ سب نافرمان جو اس طوفان میں غرق ہوئے اگر تو چاہے تو ان سب کو ایک آن میں دوبارہ پیدا کر دوں۔ ایک کنعان کے لیے میں تجھے آزردہ نہ کروں گا لیکن پھر کہتا ہوں کہ وہ تیری ذرّیّت سے نہیں۔‘‘
یہ کلام سنتے ہی حضرت نوح علیہ السلام نے عر ض کیا :’’اے میرے رب، میں ایسا نہیں چاہتا ٗ میں تو تیرے ہر کام میں راضی ہوں۔ اگر تجھے منظور ہو تو مجھے بھی غرق کر دے۔ میں راضی برضا رہوں گا۔ اگر تو مجھے ہلاک کرے گا تو وہ موت ہی میری زندگی بن جائے گی۔ میں تیری ذات کے سوا کسی پر نظر نہ رکھوں گا۔‘‘

 
Top Bottom