I
intelligent086
Guest
حکایت مولانا رومیؒ ۔۔۔۔۔۔۔ راستہ عشق
دل کو کسی گھڑی چین نہیں آ رہا تھا۔مجنوں اونٹنی پر سوار ہوااور لیلیٰ کی بستی کی جانب چل دیا۔لیلیٰ کے خیال میں مستغرق ہو گیا اور ہاتھ سے اونٹنی کی مہار ڈھیلی پڑتی چلی گئی۔ اونٹنی نے لیلیٰ کی بستی کی طرف چلنے کی بجائے فوراََ اپنا رخ مجنوں کے گھر کی طرف کر لیا۔کیونکہ گھر میں اونٹنی کا بچہ تھا۔ جس کی محبت اسے بے چین کئے ہوئے تھی۔ جب مجنوں کو عالم بے خودی سے افاقہ ہوا تو یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گیا کہ جہاں سے چلا تھا پھر وہیں آن پہنچا ہے۔ دوبارہ اونٹنی کو لیلیٰ کے گھر کی طرف چلنے پر مجبور کیا، آدھا راستہ طے ہو گیا، مجنوں پر پھر لیلیٰ کا خیال غالب آ گیا اور بے خودی طاری ہو گئی۔مہار کی گرفت جب ڈھیلی ہوئی، اونٹنی پھر مجنوں کے گھر کی جانب بھاگی۔ اپنے گھر کے قریب پہنچ کر مجنوں کو ہوش آیا تو یہ منظر دیکھ کر مجنوں کو غصہ آ گیا۔ اور کہنے لگا کہ ’’میری لیلیٰ تو آگے ہے اور تیری لیلیٰ (تیری محبت ، تیرا بچہ) پیچھے ہے۔ بچے کی محبت تجھے پیچھے بھاگنے پر مجبور کرتی ہے، اس طرح یہ راستہ عشق طے نہیں ہو سکتا اور میں اپنے محبوب کی منزل تک تمام عمر نہ پہنچ سکوں گا‘‘۔ مجنوں نے اونٹنی کے اوپر سے چھلانگ لگا دی اور نیچے گرتے ہی زخمی ہو گیا۔
درس حیات: اونٹی انسان کا خاکی بدن ہے۔ جبکہ اوٹنی کی بچے سے محبت انسان کی رب کریم کی جانب کشش کی علامت ہے ۔انسانی جان صاحب عرش و فرش محبوب حقیقی اللہ کریم کی جدائی میں فاقہ زدہ ہے۔ وہ اس کے راستے پر چلنے کی خواہش رکھتی ہے، جب کہ لیلیٰ ایک انسان ہے، جس کے عشق میں مجنوں اس قدر کھویا ہوا ہے کہ اس سے ملنے کے لئے تن من دھن کی بازی لگا رہا ہے، کہ اسے عشق حقیقی کی کوئی فکر نہیں ہے۔ ہم اللہ اور اس کے محبوب نبی کریم ﷺکے عاشقین کہلاتے ہیں، ہمیں یہ بات اپنے قول وفعل سے بھی ثابت کرنا چاہیے۔
دل کو کسی گھڑی چین نہیں آ رہا تھا۔مجنوں اونٹنی پر سوار ہوااور لیلیٰ کی بستی کی جانب چل دیا۔لیلیٰ کے خیال میں مستغرق ہو گیا اور ہاتھ سے اونٹنی کی مہار ڈھیلی پڑتی چلی گئی۔ اونٹنی نے لیلیٰ کی بستی کی طرف چلنے کی بجائے فوراََ اپنا رخ مجنوں کے گھر کی طرف کر لیا۔کیونکہ گھر میں اونٹنی کا بچہ تھا۔ جس کی محبت اسے بے چین کئے ہوئے تھی۔ جب مجنوں کو عالم بے خودی سے افاقہ ہوا تو یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گیا کہ جہاں سے چلا تھا پھر وہیں آن پہنچا ہے۔ دوبارہ اونٹنی کو لیلیٰ کے گھر کی طرف چلنے پر مجبور کیا، آدھا راستہ طے ہو گیا، مجنوں پر پھر لیلیٰ کا خیال غالب آ گیا اور بے خودی طاری ہو گئی۔مہار کی گرفت جب ڈھیلی ہوئی، اونٹنی پھر مجنوں کے گھر کی جانب بھاگی۔ اپنے گھر کے قریب پہنچ کر مجنوں کو ہوش آیا تو یہ منظر دیکھ کر مجنوں کو غصہ آ گیا۔ اور کہنے لگا کہ ’’میری لیلیٰ تو آگے ہے اور تیری لیلیٰ (تیری محبت ، تیرا بچہ) پیچھے ہے۔ بچے کی محبت تجھے پیچھے بھاگنے پر مجبور کرتی ہے، اس طرح یہ راستہ عشق طے نہیں ہو سکتا اور میں اپنے محبوب کی منزل تک تمام عمر نہ پہنچ سکوں گا‘‘۔ مجنوں نے اونٹنی کے اوپر سے چھلانگ لگا دی اور نیچے گرتے ہی زخمی ہو گیا۔
درس حیات: اونٹی انسان کا خاکی بدن ہے۔ جبکہ اوٹنی کی بچے سے محبت انسان کی رب کریم کی جانب کشش کی علامت ہے ۔انسانی جان صاحب عرش و فرش محبوب حقیقی اللہ کریم کی جدائی میں فاقہ زدہ ہے۔ وہ اس کے راستے پر چلنے کی خواہش رکھتی ہے، جب کہ لیلیٰ ایک انسان ہے، جس کے عشق میں مجنوں اس قدر کھویا ہوا ہے کہ اس سے ملنے کے لئے تن من دھن کی بازی لگا رہا ہے، کہ اسے عشق حقیقی کی کوئی فکر نہیں ہے۔ ہم اللہ اور اس کے محبوب نبی کریم ﷺکے عاشقین کہلاتے ہیں، ہمیں یہ بات اپنے قول وفعل سے بھی ثابت کرنا چاہیے۔