I
intelligent086
Guest
حکایت مولانا رومیؒ ۔۔۔۔۔۔۔ سخاوت کا انوکھاانداز
کہتے ہیں، شہر بخارا میں صدرِ جہاں کی سخاوت اور داد و دہش بہت مشہور تھی۔ صبح سے شام تک دریائے فیض و سخاوت رواں رہتا، محتاجوں پر اشرفیاں بارش کی طرح برسا کرتی تھیں۔ وہ کاغذ کے پرزوں میں بے شمار اشرفیاں لپیٹ کر رکھ لیتے تھے اور ان کے ختم ہونے تک تقسیم کرتے رہتے تھے۔ صدرِ جہاں کی سخاوت کے انداز بھی نرالے تھے۔ ضرورت مندوں کے لیے دن مقرر تھے اور کوئی شخص اپنی باری کے بغیر صدرِ جہاں سے خیرات وصول نہیں کرسکتا تھا ۔ یہ قاعدہ اس لیے مقرر کیا گیا تھا کہ کوئی جماعت ان کی داد و دہش سے محروم نہ رہے۔ ایک دن مصیبت زدوں ، دوسرا دن بیوائوں ، تیسرا فقیروں اور گوشہ نشینوں کے لیے تھا۔ چوتھا عام محتاجوں ، پانچواں عام مسکینوں ، ساتواں یتیم بچوں ، آٹھواں قیدیوں، نواں مسافروں اور دسواں دن غلاموں کے لیے مقرر تھا۔یہ شرط بھی تھی کہ کوئی ضرورت مند اپنی زبان سے سوال نہ کرے گا۔ طریقہ یہ تھا کہ ضرورت مند اور محتاج اپنی باری کے دن صدرِ جہاں کی گزرگاہ کے دونوں جانب قطاریں باندھے کھڑے ہو جاتے تھے اور وہ انہیں اشرفیاں دیتا ہوا آگے نکل جاتا تھا۔ جو کوئی بے صبرا اتفاق سے سوال کر دیتا، اس جرم میں صدرِ جہاں اسے کچھ نہ دیتا۔
ایک دن کسی بوڑھے سائل نے کہا ''کئی روز سے بھوکا ہوں۔ کچھ مالِ زکوٰۃ میں سے عنایت ہو۔‘‘لوگوں نے ہر چند اسے روکا اور سمجھایا کہ صدرِ جہاں سوال کرنے سے چڑتے ہیں، لیکن اس نے ایک نہ سنی اور برابر دستِ سوال کرتا رہا۔ صدرِ جہاں نے بوڑھے سے کہا :
''تم بے شرم شخص ہو۔‘‘بوڑھے نے ترکی بہ ترکی جوا ب دیا، ''اے صدرِ جہاں، مجھ سے زیادہ بے حیا اور بے شرم تو خود ہے۔ پہلے تو نے اس دنیا میں خوب کمایا اور بے اندازہ دولت جمع کی۔ اس کے بعد لالچ کر رہا ہے کہ دوسرے جہان کی نعمتیں بھی ہتھیائے۔ افسوس ہے تیری اس حرص و ہوس پر۔ کچھ خوفِ خدا کر۔ الٹا مجھے بے حیا کہتا ہے‘‘۔ اس جواب پر صدرِ جہاں کہنے لگا ''بڑے میاں، سچ کہتے ہو۔‘‘ اس کے بعد غلاموں کو حکم دیا کہ جس قدر مال و دولت یہ بوڑھا طلب کرے، اسے دے دو۔ چنانچہ وہ جس قدر مال لے جاسکتا تھا لے گیا۔ کہتے ہیں اس بوڑھے کے سوا صدر جہاں نے کسی اور سائل کو کچھ نہ دیا۔
اب ایک اور دلچسپ واقعہ اسی صدرِ جہاں کی سخاوت کا سنیے۔ جس دن عام محتاجوں کی باری تھی، اس دن ایک عام آدمی ملا جذبۂ حرص سے مجبور ہو کر چلا اٹھاکہ صدرِ جہاں میں نہایت غریب اور مفلس ہوں۔ مجھے کچھ دے۔ صدرِ جہاں نے حسب عادت اسے کچھ نہ دیا۔ ہر چند وہ خوب رویا۔ گڑ گڑایا، اپنی مفلسی اور محتاجی کی عبرت خیز کہانیاں سنائیں۔ لیکن صدرِ جہاں کے دل پر کوئی اثر نہ ہوا۔ اس نے باقی سب کو داد و دہش سے نوازا، مگر اسے ایک کوڑی نہ دی۔دوسرے دن وہی شخص اپنے دونوں پیروں پر دھجیاں اور پٹیاں لپیٹ کر بیماروں کی صف میں جا بیٹھا۔ پنڈلیوں پر بھی کھپچیاں باندھ رکھی تھیں تاکہ دیکھنے والے ترس کھائیں کہ بے چارہ معذور ہے۔ دونوں پائوں ٹوٹے ہوئے ہیں۔ صدرِ جہاں مریضوں میں مال تقسیم کرنے آیا تو اس نے فوراً پہچان لیا۔ سب مریضوں کو کچھ نہ کچھ عطا کیا اور اسے یونہی چھوڑ کر چلا گیا۔
تیسرے دن ملّا نے اپنے چہرے پر کالا کپڑا لپیٹا اور اندھا بن کر اندھوں کی قطار میں لگ گیا۔ صدرِ جہاں نے اسے وہاں بھی پہچان لیا اور کچھ عطانہ کیا۔ جب یہ سارے حیلے آزما لیے اور صدرِ جہاں سے کچھ پانے میں ناکام رہا، تب ملّا نے عورتوں کی طرح ایک چادر سر پر ڈال لی اور بیوائوں کے درمیان میں جاکر بیٹھ گیا۔ گردن جھکالی اور دونوں ہاتھ چادر میں چھپا لیے۔ صدرِ جہاں کی نگاہ بڑی تیز تھی۔ ایک ہی نظر میں اس نے بھانپ لیا کہ بیوہ عورت کے بھیس میں وہی شخص ہے۔ اس نے سب بیوائوں کو توڑے اور اشرفیاں دیں لیکن اس ''بیوہ ‘‘ کے قریب سے ہنستا ہوا آگے بڑھ گیا۔
جب یہ وار بھی خالی گیا تو ملّا کے دل میں غم و غصے کی آگ بھڑک اٹھی۔ اگلے روز منہ اندھیرے ایک کفن چور کے پاس پہنچا اور درخواست کی کہ مجھے ایک نمدے میں لپیٹ کرسرِ راہ جنازہ بنا کر رکھ دو۔ کوئی کچھ پوچھے توجواب نہ دینا۔ استقلال سے میرے جنازے کے قریب بیٹھے رہنا۔ صدرِ جہاں اُدھر سے گزرے گا اور مردہ لاوارث جان کر تدفین کے لیے چند اشرفیاں ضرور دے گا۔ وہ جو کچھ عطا کرے گا، اس میں سے نصف تمہارا ہوگا۔کفن چور یہ تجویز سن کر راضی ہوگیا، ملّا کا جنازہ بنایا اور اس راہ پر رکھ دیا جدھر سے صدرِ جہاں کی سواری گزرتی تھی۔ تھوڑی دیر بعد معمول کے مطابق صدرِ جہاں اُدھر آیا۔ دیکھا کہ ایک لاشہ نمدے میں لپٹا ہوا سرِ راہ پڑا ہے اور قریب ایک شخص غمگین صورت بنائے بیٹھا ہے۔ صدرِ جہاں نے اشرفیوں کا ایک توڑا اس نمدے پر پھینک دیا۔ ملّا نے فوراً کفن سے ہاتھ باہر نکالے اور اشرفیوں کا توڑا اپنے قبضے میں کیا۔ اسے خوف تھا کہ کہیں ساری اشرفیاں کفن چور ہی ہضم نہ کرجائے۔ یہ تماشا دیکھ کر صدرِ جہاں رُک گیا۔ اسی وقت ملّا نے کفن سے منہ باہر نکالا اور صدرِ جہاں سے مخاطب ہو کر کہا :
''اے جودو سخا کا دروازہ بند کرنے والے ، دیکھا؟ آخر ہم نے تجھ سے لے کر ہی چھوڑا۔‘‘
صدرِ جہاں نے جواب دیا ''ارے احمق، جب تک تو نہ مرا ،میری سرکار سے کوئی فائدہ حاصل نہ کر سکا۔‘‘
کہتے ہیں، شہر بخارا میں صدرِ جہاں کی سخاوت اور داد و دہش بہت مشہور تھی۔ صبح سے شام تک دریائے فیض و سخاوت رواں رہتا، محتاجوں پر اشرفیاں بارش کی طرح برسا کرتی تھیں۔ وہ کاغذ کے پرزوں میں بے شمار اشرفیاں لپیٹ کر رکھ لیتے تھے اور ان کے ختم ہونے تک تقسیم کرتے رہتے تھے۔ صدرِ جہاں کی سخاوت کے انداز بھی نرالے تھے۔ ضرورت مندوں کے لیے دن مقرر تھے اور کوئی شخص اپنی باری کے بغیر صدرِ جہاں سے خیرات وصول نہیں کرسکتا تھا ۔ یہ قاعدہ اس لیے مقرر کیا گیا تھا کہ کوئی جماعت ان کی داد و دہش سے محروم نہ رہے۔ ایک دن مصیبت زدوں ، دوسرا دن بیوائوں ، تیسرا فقیروں اور گوشہ نشینوں کے لیے تھا۔ چوتھا عام محتاجوں ، پانچواں عام مسکینوں ، ساتواں یتیم بچوں ، آٹھواں قیدیوں، نواں مسافروں اور دسواں دن غلاموں کے لیے مقرر تھا۔یہ شرط بھی تھی کہ کوئی ضرورت مند اپنی زبان سے سوال نہ کرے گا۔ طریقہ یہ تھا کہ ضرورت مند اور محتاج اپنی باری کے دن صدرِ جہاں کی گزرگاہ کے دونوں جانب قطاریں باندھے کھڑے ہو جاتے تھے اور وہ انہیں اشرفیاں دیتا ہوا آگے نکل جاتا تھا۔ جو کوئی بے صبرا اتفاق سے سوال کر دیتا، اس جرم میں صدرِ جہاں اسے کچھ نہ دیتا۔
ایک دن کسی بوڑھے سائل نے کہا ''کئی روز سے بھوکا ہوں۔ کچھ مالِ زکوٰۃ میں سے عنایت ہو۔‘‘لوگوں نے ہر چند اسے روکا اور سمجھایا کہ صدرِ جہاں سوال کرنے سے چڑتے ہیں، لیکن اس نے ایک نہ سنی اور برابر دستِ سوال کرتا رہا۔ صدرِ جہاں نے بوڑھے سے کہا :
''تم بے شرم شخص ہو۔‘‘بوڑھے نے ترکی بہ ترکی جوا ب دیا، ''اے صدرِ جہاں، مجھ سے زیادہ بے حیا اور بے شرم تو خود ہے۔ پہلے تو نے اس دنیا میں خوب کمایا اور بے اندازہ دولت جمع کی۔ اس کے بعد لالچ کر رہا ہے کہ دوسرے جہان کی نعمتیں بھی ہتھیائے۔ افسوس ہے تیری اس حرص و ہوس پر۔ کچھ خوفِ خدا کر۔ الٹا مجھے بے حیا کہتا ہے‘‘۔ اس جواب پر صدرِ جہاں کہنے لگا ''بڑے میاں، سچ کہتے ہو۔‘‘ اس کے بعد غلاموں کو حکم دیا کہ جس قدر مال و دولت یہ بوڑھا طلب کرے، اسے دے دو۔ چنانچہ وہ جس قدر مال لے جاسکتا تھا لے گیا۔ کہتے ہیں اس بوڑھے کے سوا صدر جہاں نے کسی اور سائل کو کچھ نہ دیا۔
اب ایک اور دلچسپ واقعہ اسی صدرِ جہاں کی سخاوت کا سنیے۔ جس دن عام محتاجوں کی باری تھی، اس دن ایک عام آدمی ملا جذبۂ حرص سے مجبور ہو کر چلا اٹھاکہ صدرِ جہاں میں نہایت غریب اور مفلس ہوں۔ مجھے کچھ دے۔ صدرِ جہاں نے حسب عادت اسے کچھ نہ دیا۔ ہر چند وہ خوب رویا۔ گڑ گڑایا، اپنی مفلسی اور محتاجی کی عبرت خیز کہانیاں سنائیں۔ لیکن صدرِ جہاں کے دل پر کوئی اثر نہ ہوا۔ اس نے باقی سب کو داد و دہش سے نوازا، مگر اسے ایک کوڑی نہ دی۔دوسرے دن وہی شخص اپنے دونوں پیروں پر دھجیاں اور پٹیاں لپیٹ کر بیماروں کی صف میں جا بیٹھا۔ پنڈلیوں پر بھی کھپچیاں باندھ رکھی تھیں تاکہ دیکھنے والے ترس کھائیں کہ بے چارہ معذور ہے۔ دونوں پائوں ٹوٹے ہوئے ہیں۔ صدرِ جہاں مریضوں میں مال تقسیم کرنے آیا تو اس نے فوراً پہچان لیا۔ سب مریضوں کو کچھ نہ کچھ عطا کیا اور اسے یونہی چھوڑ کر چلا گیا۔
تیسرے دن ملّا نے اپنے چہرے پر کالا کپڑا لپیٹا اور اندھا بن کر اندھوں کی قطار میں لگ گیا۔ صدرِ جہاں نے اسے وہاں بھی پہچان لیا اور کچھ عطانہ کیا۔ جب یہ سارے حیلے آزما لیے اور صدرِ جہاں سے کچھ پانے میں ناکام رہا، تب ملّا نے عورتوں کی طرح ایک چادر سر پر ڈال لی اور بیوائوں کے درمیان میں جاکر بیٹھ گیا۔ گردن جھکالی اور دونوں ہاتھ چادر میں چھپا لیے۔ صدرِ جہاں کی نگاہ بڑی تیز تھی۔ ایک ہی نظر میں اس نے بھانپ لیا کہ بیوہ عورت کے بھیس میں وہی شخص ہے۔ اس نے سب بیوائوں کو توڑے اور اشرفیاں دیں لیکن اس ''بیوہ ‘‘ کے قریب سے ہنستا ہوا آگے بڑھ گیا۔
جب یہ وار بھی خالی گیا تو ملّا کے دل میں غم و غصے کی آگ بھڑک اٹھی۔ اگلے روز منہ اندھیرے ایک کفن چور کے پاس پہنچا اور درخواست کی کہ مجھے ایک نمدے میں لپیٹ کرسرِ راہ جنازہ بنا کر رکھ دو۔ کوئی کچھ پوچھے توجواب نہ دینا۔ استقلال سے میرے جنازے کے قریب بیٹھے رہنا۔ صدرِ جہاں اُدھر سے گزرے گا اور مردہ لاوارث جان کر تدفین کے لیے چند اشرفیاں ضرور دے گا۔ وہ جو کچھ عطا کرے گا، اس میں سے نصف تمہارا ہوگا۔کفن چور یہ تجویز سن کر راضی ہوگیا، ملّا کا جنازہ بنایا اور اس راہ پر رکھ دیا جدھر سے صدرِ جہاں کی سواری گزرتی تھی۔ تھوڑی دیر بعد معمول کے مطابق صدرِ جہاں اُدھر آیا۔ دیکھا کہ ایک لاشہ نمدے میں لپٹا ہوا سرِ راہ پڑا ہے اور قریب ایک شخص غمگین صورت بنائے بیٹھا ہے۔ صدرِ جہاں نے اشرفیوں کا ایک توڑا اس نمدے پر پھینک دیا۔ ملّا نے فوراً کفن سے ہاتھ باہر نکالے اور اشرفیوں کا توڑا اپنے قبضے میں کیا۔ اسے خوف تھا کہ کہیں ساری اشرفیاں کفن چور ہی ہضم نہ کرجائے۔ یہ تماشا دیکھ کر صدرِ جہاں رُک گیا۔ اسی وقت ملّا نے کفن سے منہ باہر نکالا اور صدرِ جہاں سے مخاطب ہو کر کہا :
''اے جودو سخا کا دروازہ بند کرنے والے ، دیکھا؟ آخر ہم نے تجھ سے لے کر ہی چھوڑا۔‘‘
صدرِ جہاں نے جواب دیا ''ارے احمق، جب تک تو نہ مرا ،میری سرکار سے کوئی فائدہ حاصل نہ کر سکا۔‘‘
Hikayat-e-Maulana Rumi (R.A) , Sakhawat Ka Anokha Andaz