I
intelligent086
Guest
حکایت رومیؒ ۔۔۔۔۔۔ سنقر غلام
کہتے ہیں کسی امیر کا ایک غلام تھا جس کا نام سنقر تھا۔ نہایت محنتی، دیانتدار متقی اور پرہیز گار۔ لیکن وہ اپنے ایمان اور خدا کی محبت میں جتنا پختہ تھا اس کا آقا اتنا ہی کمزور اور نافرمان تھا۔ ایک دفعہ آدھی رات کے قریب آقا نے سنقر کو آواز دی کہ بستر سے نکل ،سفر کا سامان ساتھ لے اور میرے ہمراہ چل۔ سنقر نے آقا کی پہلی آواز ہی پر گرم گرم بستر چھوڑ دیا ۔ جھٹ پٹ ضروری سامان ساتھ لیا اور آقا کے ہمراہ چل پڑا۔ راستے میں ایک مسجد سے اذانِ فجر کی آواز آئی سنقر نے آقا سے کہا :
''حضور! آپ ذرا ایک طرف قیام فرمائیں ، فجر کی نماز ادا کرلوں۔‘‘
آقا نے کہا ''بہت اچھا لیکن جلدی آنا۔‘‘
سنقر تو مسجد کے اندر گیا اور خدا سے غافل آقا باہر اس کا انتظار کرنے لگا۔ اس انتظار میں بہت دیر ہوگئی۔ ایک ایک کر کے سارے نمازی اور آخر میں امام مسجد بھی باہر آگیا لیکن سنقر کی شکل دکھائی نہ دی۔ تب آقا نے مسجد کے دروازے پر کھڑے ہو کر آواز دی ''سنقر! سنقر! باہر کیوں نہیں نکلتا؟‘‘ مسجد کے اندر سے سنقر نے جواب دیا ''آقا! کیا بتائوں مجھے باہر نہیں آنے دیتے ذرا رُکیے ابھی آیا۔ مجھے خبر ہے ، آپ انتظار کر رہے ہیں۔‘‘
غرض7 بار آقا نے مسجد کے دروازے پر جاکر غلام کو پکارا اور ہر مرتبہ اس نے اندر سے یہی جواب دیا کہ مجھے ابھی باہر نہیں آنے دیتے۔ ذرا ٹھہرئیے۔‘‘ بار بار یہی جواب سن کر آقا کو طیش آیا۔ کہنے لگا ''ارے سنقر! نمازی اور امام تو سب نماز پڑھ پڑھ کر اپنے ٹھکانوں کو جا چکے اب تو اکیلا مسجد میں کیا کر رہا ہے؟ وہ کون ہے جو تجھے باہر نہیں آنے دیتا۔‘‘
سنقر کی آواز آئی ''حضور! یہ وہی ہے جو آپ کو مسجد کے اندر نہیں آنے دیتا۔ اس نے مجھے باہر جانے سے روک رکھا ہے۔‘‘
اے فرزند عزیز! تو نے دیکھا کہ سمندر میں لاکھوں ،کروڑوں مچھلیاں ہوتی ہیں لیکن وہ انہیں اپنے ارادے اور اجازت سے باہر نہیں نکلنے دیتا اور خشکی کے جانوروں کو اپنے اندر آنے نہیں دیتا۔ مچھلی کی اصل پانی اور چوپائے کی اصل مٹی ہے ، اس لیے ان قوانین قدرت کے آگے کوئی حیلہ ، کوئی تدبیر کارگر نہیں ہوتی۔ اگر ایسا بھاری تالا کبھی پڑ جائے تو خدا کے کھولنے ہی سے کھل سکتا ہے۔ انسان کی کیا مجال جو اسے کھولے۔
کہتے ہیں کسی امیر کا ایک غلام تھا جس کا نام سنقر تھا۔ نہایت محنتی، دیانتدار متقی اور پرہیز گار۔ لیکن وہ اپنے ایمان اور خدا کی محبت میں جتنا پختہ تھا اس کا آقا اتنا ہی کمزور اور نافرمان تھا۔ ایک دفعہ آدھی رات کے قریب آقا نے سنقر کو آواز دی کہ بستر سے نکل ،سفر کا سامان ساتھ لے اور میرے ہمراہ چل۔ سنقر نے آقا کی پہلی آواز ہی پر گرم گرم بستر چھوڑ دیا ۔ جھٹ پٹ ضروری سامان ساتھ لیا اور آقا کے ہمراہ چل پڑا۔ راستے میں ایک مسجد سے اذانِ فجر کی آواز آئی سنقر نے آقا سے کہا :
''حضور! آپ ذرا ایک طرف قیام فرمائیں ، فجر کی نماز ادا کرلوں۔‘‘
آقا نے کہا ''بہت اچھا لیکن جلدی آنا۔‘‘
سنقر تو مسجد کے اندر گیا اور خدا سے غافل آقا باہر اس کا انتظار کرنے لگا۔ اس انتظار میں بہت دیر ہوگئی۔ ایک ایک کر کے سارے نمازی اور آخر میں امام مسجد بھی باہر آگیا لیکن سنقر کی شکل دکھائی نہ دی۔ تب آقا نے مسجد کے دروازے پر کھڑے ہو کر آواز دی ''سنقر! سنقر! باہر کیوں نہیں نکلتا؟‘‘ مسجد کے اندر سے سنقر نے جواب دیا ''آقا! کیا بتائوں مجھے باہر نہیں آنے دیتے ذرا رُکیے ابھی آیا۔ مجھے خبر ہے ، آپ انتظار کر رہے ہیں۔‘‘
غرض7 بار آقا نے مسجد کے دروازے پر جاکر غلام کو پکارا اور ہر مرتبہ اس نے اندر سے یہی جواب دیا کہ مجھے ابھی باہر نہیں آنے دیتے۔ ذرا ٹھہرئیے۔‘‘ بار بار یہی جواب سن کر آقا کو طیش آیا۔ کہنے لگا ''ارے سنقر! نمازی اور امام تو سب نماز پڑھ پڑھ کر اپنے ٹھکانوں کو جا چکے اب تو اکیلا مسجد میں کیا کر رہا ہے؟ وہ کون ہے جو تجھے باہر نہیں آنے دیتا۔‘‘
سنقر کی آواز آئی ''حضور! یہ وہی ہے جو آپ کو مسجد کے اندر نہیں آنے دیتا۔ اس نے مجھے باہر جانے سے روک رکھا ہے۔‘‘
اے فرزند عزیز! تو نے دیکھا کہ سمندر میں لاکھوں ،کروڑوں مچھلیاں ہوتی ہیں لیکن وہ انہیں اپنے ارادے اور اجازت سے باہر نہیں نکلنے دیتا اور خشکی کے جانوروں کو اپنے اندر آنے نہیں دیتا۔ مچھلی کی اصل پانی اور چوپائے کی اصل مٹی ہے ، اس لیے ان قوانین قدرت کے آگے کوئی حیلہ ، کوئی تدبیر کارگر نہیں ہوتی۔ اگر ایسا بھاری تالا کبھی پڑ جائے تو خدا کے کھولنے ہی سے کھل سکتا ہے۔ انسان کی کیا مجال جو اسے کھولے۔