I
intelligent086
Guest
حکایت مولانا رومیؒ ۔۔۔۔۔۔ شاہ اور چور
کہتے ہیں، ایک شب سلطان محمود غزنوی حسب عادت رعایا کا حال معلوم کرنے کے لیے بھیس بدل کر محل سے نکلا۔ پھرتا پھراتاایسے مقام پر پہنچا جہاں چند آدمی بیٹھے چپکے چپکے باتیں کر رہے تھے۔ سلطان بھی ان کے قریب جا بیٹھا اور دعا سلام کے بعد پوچھا ''تم لوگ کون ہو اور رات گئے یہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘
انہوں نے جواب میں کہا ''سن بھائی، ہم سب چور اُچکے ہیں اور آج کی شب قسمت آزمائی کے لیے نکلے ہیں۔ اب یہ بتا کہ تو کون ہے؟‘‘
سلطان نے کہا ''میں بھی تم جیسا ہوں۔‘‘
یہ سن کر وہ خوش ہوئے اور کہا ''خوش آمدید۔‘‘ اتنے میں ایک چور نے کہا ''یارو ذرا اپنا اپنا ہنر اور کمال تو بیان کرتے چلو کہ کون کس وصف میں کامل ہے۔‘‘
پہلے نے کہا ''سنو! میرے کانوں میں یہ کمال ہے کہ رات کو جب کتا بھونکتا ہے تو میں سمجھ جاتا ہوں کہ کیا کہہ رہا ہے۔‘‘
سب نے یہ سن کر کہا ''بھئی واہ! یہ تو بڑے کمال کی بات ہے۔‘‘
دوسرا بولا ''بھائیو! میری آنکھوں میں یہ خوبی ہے کہ کیسا ہی گھپ اندھیرا ہو، میں جس کسی کو اس اندھیرے میں ایک مرتبہ دیکھ لوں، دن کی روشنی میں دیکھتے ہی فوراً پہچان لیتا ہوں۔‘‘
سب نے اس کمال پر بھی واہ واہ کی۔
تیسرے نے کہا، ''میرے بازو میں یہ قوت ہے کہ صرف اسی کی مدد سے مضبوط سے مضبوط دیوار میں نقب لگا لیتا ہوں۔‘‘
چوتھے نے کہا ''میری ناک میں یہ کمال ہے کہ زمین سونگھ کر بتا دیتا ہوں کہ خزانہ کس جگہ دبا ہوا ہے۔‘‘
پانچواں کہنے لگا، ''میرے پنجے میں وہ زور ہے کہ اونچی سے اونچی جگہ پر کمند پھینک سکتا ہوں اور وہ وہیں چپک جاتی ہے۔‘‘
جب پانچوں چور اپنا اپنا ہنر بیان کر چکے، تب انہوں نے سلطان محمود غزنی کی طرف دیکھا اور کہنے لگے ، ''ہاں بھائی! اب تو بھی بتا ،تجھ میں کیا کمال ہے تاکہ ہم فیصلہ کریں کہ تجھے اپنے ساتھ رکھیں یا نہ رکھیں۔‘‘
سلطان نے جواب دیا، ''یارو! میرا کیا پوچھتے ہو، بس اتنا سن لو کہ میری داڑھی میں ایک خاص وصف ہے۔ جب مجرموں کو قتل کرنے کے لیے جلاد کے حوال کرتے ہیں ، اس وقت اگر میں اپنی داڑھی کو ذرا سی حرکت دوں تو مجرم رہا ہو جاتے ہیں۔‘‘یہ سن کر چور خوش ہو کر پکار اٹھے ''واہ واہ ! بہت خوب ! یہ کمال تو سب سے بڑھ کر ہے۔ بس آج سے تو ہمارا سردار اور آقا ٹھہرا ۔ مصیبت کے دن ہم تیری ہی وجہ سے چھٹکارا پائیں گے۔‘‘
ان باتوں کے بعد طے پایا کہ چلو، کہیں قسمت آزمائی کریں۔ پھرتے پھراتے بادشاہ کے محل کی جانب جانکلے۔ یکایک کتے کے بھونکنے کی آواز آئی۔ سب چوکنے ہوگئے۔ وہ چور جو کتوں کی بولی سمجھنے کا دعویٰ کرتا تھا، ہراساں ہو کردبی زبان میں بولا۔ غضب ہوگیا! یہ کتا کہہ رہا ہے کہ بادشاہ تمہارے دائیں بائیں ہی موجود ہے۔ یہ سن کر دوسرے چورہنس پڑے اوربولے، بے وقوف پاگل ہوا ہے یا گھاس کھا گیا ہے؟ بادشاہ کا یہاں کیا کام، وہ اس وقت محل میں اپنے آرام دہ بستر پر پڑا خراٹے لے رہا ہوگا۔ پہلے چور نے پھر کہا، نہیں۔ کتا یہی بات کہہ رہا ہے کہ بادشاہ تمہارے ساتھ ہے۔ بادشاہ تمہارے ساتھ ہے۔ اتنے میں دوسرے چور نے ناک زمین سے لگائی اور کہا، بس ذرا سی ہمت درکار ہے۔ شاہی خزانہ قریب ہی موجود ہے۔
کمند پھینکنے والے نے محل کی چھت پر کمند پھینکی جو فوراً ایک کنگورے میں اٹک گئی اور وہ سب کمند کے ذریعے محل کی چھت پر جا پہنچے۔ نقب زن نے نقب لگائی اور اس کمرے میں ساتھیوں کو لے گیا جہاں شاہی خزانہ رکھا تھا۔ جس کے جو ہاتھ لگا، جی سمیٹ لیا۔ اشرفیاں، ہیرے، جواہر، قیمتی کپڑوں کے تھان اور سونے چاندی کے برتن۔ پھر وہاں سے نکلے اور سارا مال ایک محفوظ مقام پر چھپا دیا تاکہ اگلے روز دن کی روشنی میں حصے بخرے کریں۔ سلطان نے ان کی جائے پناہ اچھی طرح دیکھ لی اور ایک ایک کا نام اور حلیہ بھی ذہن نشین کرلیا۔ اس کے بعد ان کی نگاہوں سے چھپ کر محل میں واپس چلا آیا۔
دوسرے دن دربار میں آتے ہی سلطان نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ فلاں جگہ جائیں اور اِس اِس حلیے کے پانچ آدمیوں کو پکڑ لائیں۔ سپاہی ہاتھوں میں ننگی تلواریں لیے دوڑے دوڑے گئے اور چوری کے مال سمیت تمام مجرموں کو دربار میں حاضر کردیا۔ سب کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پیروں میں بیڑیاں پڑی تھیں۔ چہرے موت کے خوف سے زرد تھے اور بدن خشک تنکے کی طرح کانپ رہے تھے۔ جب انہیں تخت شاہی کے روبرو کھڑا کیا گیا تو انہوں نے نگاہیں اٹھا کر بادشاہ کی طرف دیکھا۔ اس چور نے جو رات کی تاریکی میں کسی کو دیکھ کر، دن میں پہچان لینے کا دعویٰ رکھتا تھا ، اس نے بادشاہ کا چہرہ دیکھتے ہی کہا :
''اے بھیس بدل کر راتوں کو گشت کرنے والے بادشاہ، ہم میں سے ہر شخص اپنا اپنا کمال دکھا چکا، اب تیری باری ہے۔ جلدی سے اپنی داڑھی کو حرکت دے تاکہ ہم جلاد سے رہائی پائیں۔ بے شک ہمارا ہر کمال بدبختی اور آفت ہی ڈھاتا رہا ہے۔ یہاں تک کہ ہمارے ہاتھ اور پائوں بندھ گئے۔ جلاد ہماری گردنیں اُڑا دینے کے لیے تیار کھڑا ہے۔ ہمارے ہنر ہمیں موت کے پنجے سے نہیں چھڑا سکتے کیونکہ وہ تو کھجور کی بٹی ہوئی رسیاں ثابت ہوئے۔ ہاں ،ایسے نازک اور جان لیوا مرحلے پر کوئی کام آیا تو وہ آنکھ جس نے بادشاہ کو پہچان لیا۔‘‘
چوروں کی یہ التجا سن کر سلطان محمود غزنوی ہنس پڑا۔ کمال لطف و کرم سے اپنی ڈاڑھی کو جنبش دی اور جلاد نے ان سب کو آزاد کر دیا۔
کہتے ہیں، ایک شب سلطان محمود غزنوی حسب عادت رعایا کا حال معلوم کرنے کے لیے بھیس بدل کر محل سے نکلا۔ پھرتا پھراتاایسے مقام پر پہنچا جہاں چند آدمی بیٹھے چپکے چپکے باتیں کر رہے تھے۔ سلطان بھی ان کے قریب جا بیٹھا اور دعا سلام کے بعد پوچھا ''تم لوگ کون ہو اور رات گئے یہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘
انہوں نے جواب میں کہا ''سن بھائی، ہم سب چور اُچکے ہیں اور آج کی شب قسمت آزمائی کے لیے نکلے ہیں۔ اب یہ بتا کہ تو کون ہے؟‘‘
سلطان نے کہا ''میں بھی تم جیسا ہوں۔‘‘
یہ سن کر وہ خوش ہوئے اور کہا ''خوش آمدید۔‘‘ اتنے میں ایک چور نے کہا ''یارو ذرا اپنا اپنا ہنر اور کمال تو بیان کرتے چلو کہ کون کس وصف میں کامل ہے۔‘‘
پہلے نے کہا ''سنو! میرے کانوں میں یہ کمال ہے کہ رات کو جب کتا بھونکتا ہے تو میں سمجھ جاتا ہوں کہ کیا کہہ رہا ہے۔‘‘
سب نے یہ سن کر کہا ''بھئی واہ! یہ تو بڑے کمال کی بات ہے۔‘‘
دوسرا بولا ''بھائیو! میری آنکھوں میں یہ خوبی ہے کہ کیسا ہی گھپ اندھیرا ہو، میں جس کسی کو اس اندھیرے میں ایک مرتبہ دیکھ لوں، دن کی روشنی میں دیکھتے ہی فوراً پہچان لیتا ہوں۔‘‘
سب نے اس کمال پر بھی واہ واہ کی۔
تیسرے نے کہا، ''میرے بازو میں یہ قوت ہے کہ صرف اسی کی مدد سے مضبوط سے مضبوط دیوار میں نقب لگا لیتا ہوں۔‘‘
چوتھے نے کہا ''میری ناک میں یہ کمال ہے کہ زمین سونگھ کر بتا دیتا ہوں کہ خزانہ کس جگہ دبا ہوا ہے۔‘‘
پانچواں کہنے لگا، ''میرے پنجے میں وہ زور ہے کہ اونچی سے اونچی جگہ پر کمند پھینک سکتا ہوں اور وہ وہیں چپک جاتی ہے۔‘‘
جب پانچوں چور اپنا اپنا ہنر بیان کر چکے، تب انہوں نے سلطان محمود غزنی کی طرف دیکھا اور کہنے لگے ، ''ہاں بھائی! اب تو بھی بتا ،تجھ میں کیا کمال ہے تاکہ ہم فیصلہ کریں کہ تجھے اپنے ساتھ رکھیں یا نہ رکھیں۔‘‘
سلطان نے جواب دیا، ''یارو! میرا کیا پوچھتے ہو، بس اتنا سن لو کہ میری داڑھی میں ایک خاص وصف ہے۔ جب مجرموں کو قتل کرنے کے لیے جلاد کے حوال کرتے ہیں ، اس وقت اگر میں اپنی داڑھی کو ذرا سی حرکت دوں تو مجرم رہا ہو جاتے ہیں۔‘‘یہ سن کر چور خوش ہو کر پکار اٹھے ''واہ واہ ! بہت خوب ! یہ کمال تو سب سے بڑھ کر ہے۔ بس آج سے تو ہمارا سردار اور آقا ٹھہرا ۔ مصیبت کے دن ہم تیری ہی وجہ سے چھٹکارا پائیں گے۔‘‘
ان باتوں کے بعد طے پایا کہ چلو، کہیں قسمت آزمائی کریں۔ پھرتے پھراتے بادشاہ کے محل کی جانب جانکلے۔ یکایک کتے کے بھونکنے کی آواز آئی۔ سب چوکنے ہوگئے۔ وہ چور جو کتوں کی بولی سمجھنے کا دعویٰ کرتا تھا، ہراساں ہو کردبی زبان میں بولا۔ غضب ہوگیا! یہ کتا کہہ رہا ہے کہ بادشاہ تمہارے دائیں بائیں ہی موجود ہے۔ یہ سن کر دوسرے چورہنس پڑے اوربولے، بے وقوف پاگل ہوا ہے یا گھاس کھا گیا ہے؟ بادشاہ کا یہاں کیا کام، وہ اس وقت محل میں اپنے آرام دہ بستر پر پڑا خراٹے لے رہا ہوگا۔ پہلے چور نے پھر کہا، نہیں۔ کتا یہی بات کہہ رہا ہے کہ بادشاہ تمہارے ساتھ ہے۔ بادشاہ تمہارے ساتھ ہے۔ اتنے میں دوسرے چور نے ناک زمین سے لگائی اور کہا، بس ذرا سی ہمت درکار ہے۔ شاہی خزانہ قریب ہی موجود ہے۔
کمند پھینکنے والے نے محل کی چھت پر کمند پھینکی جو فوراً ایک کنگورے میں اٹک گئی اور وہ سب کمند کے ذریعے محل کی چھت پر جا پہنچے۔ نقب زن نے نقب لگائی اور اس کمرے میں ساتھیوں کو لے گیا جہاں شاہی خزانہ رکھا تھا۔ جس کے جو ہاتھ لگا، جی سمیٹ لیا۔ اشرفیاں، ہیرے، جواہر، قیمتی کپڑوں کے تھان اور سونے چاندی کے برتن۔ پھر وہاں سے نکلے اور سارا مال ایک محفوظ مقام پر چھپا دیا تاکہ اگلے روز دن کی روشنی میں حصے بخرے کریں۔ سلطان نے ان کی جائے پناہ اچھی طرح دیکھ لی اور ایک ایک کا نام اور حلیہ بھی ذہن نشین کرلیا۔ اس کے بعد ان کی نگاہوں سے چھپ کر محل میں واپس چلا آیا۔
دوسرے دن دربار میں آتے ہی سلطان نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ فلاں جگہ جائیں اور اِس اِس حلیے کے پانچ آدمیوں کو پکڑ لائیں۔ سپاہی ہاتھوں میں ننگی تلواریں لیے دوڑے دوڑے گئے اور چوری کے مال سمیت تمام مجرموں کو دربار میں حاضر کردیا۔ سب کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پیروں میں بیڑیاں پڑی تھیں۔ چہرے موت کے خوف سے زرد تھے اور بدن خشک تنکے کی طرح کانپ رہے تھے۔ جب انہیں تخت شاہی کے روبرو کھڑا کیا گیا تو انہوں نے نگاہیں اٹھا کر بادشاہ کی طرف دیکھا۔ اس چور نے جو رات کی تاریکی میں کسی کو دیکھ کر، دن میں پہچان لینے کا دعویٰ رکھتا تھا ، اس نے بادشاہ کا چہرہ دیکھتے ہی کہا :
''اے بھیس بدل کر راتوں کو گشت کرنے والے بادشاہ، ہم میں سے ہر شخص اپنا اپنا کمال دکھا چکا، اب تیری باری ہے۔ جلدی سے اپنی داڑھی کو حرکت دے تاکہ ہم جلاد سے رہائی پائیں۔ بے شک ہمارا ہر کمال بدبختی اور آفت ہی ڈھاتا رہا ہے۔ یہاں تک کہ ہمارے ہاتھ اور پائوں بندھ گئے۔ جلاد ہماری گردنیں اُڑا دینے کے لیے تیار کھڑا ہے۔ ہمارے ہنر ہمیں موت کے پنجے سے نہیں چھڑا سکتے کیونکہ وہ تو کھجور کی بٹی ہوئی رسیاں ثابت ہوئے۔ ہاں ،ایسے نازک اور جان لیوا مرحلے پر کوئی کام آیا تو وہ آنکھ جس نے بادشاہ کو پہچان لیا۔‘‘
چوروں کی یہ التجا سن کر سلطان محمود غزنوی ہنس پڑا۔ کمال لطف و کرم سے اپنی ڈاڑھی کو جنبش دی اور جلاد نے ان سب کو آزاد کر دیا۔