I
intelligent086
Guest
حکایت مولانا رومیؒ ,...... شیر پر سواری
طالقان کے علاقے کا رہنے والا ایک آدمی جس کو شیخ ابوالحسن خرقانی کی زیارت کا بے حد شوق تھا۔راستے کی دوری اور سفر کی مشکلات کا خیال آتا تو خرقان جانے کی ہمت نہ پڑتی۔
آخر ایک دن شوق زیارت نے اسے بے تاب کر دیا۔ رخ زیبا کی زیارت کے لئے سفر باندھ لیا۔راستہ کٹھن اور دشوار گزار تھا۔ لیکن ہمت کا پکا تھا، کئی دن تک پہاڑی اور جنگلی راستے سے ہوتا ہوا ایک طویل اور پر صعوبت سفر کے بعد آخر کار منزل تک پہنچ ہی گیا۔ شہر خرقان میں آ کر اس نے شیخ ابوالحسن کے گھر کا پتہ دریافت کیا، وہاں جا کر نہایت ادب کے ساتھ دروازے کی زنجیرہلائی۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک عورت نے کھڑکی سے جھانک کر پوچھا ، ''کون ہے؟‘‘۔اس نے جواب دیا ، ''میں ....شیخ ابوالحسن کی قدم بوسی اور مزاج پرسی کے لئے طالقان سے حاضرخدمت ہوا ہوں‘‘۔ اس عورت نے کہا ، ''واہ یاں درویش، بھلا یہ بھی کوئی مقصد تھا،جس کے لئے تم نے اتنا طویل اور کٹھن سفر طے کیا۔معلوم ہوتا ہے کہ تم نے دھوپ میں داڑھی سفید کی ہے ، تمہاری عقل و دانش پر رونے کو جی چاہتا ہے۔ کیا تمہیں اپنے وطن میں کوئی کام دھندا نہ تھا؟‘‘۔عقیدت مند یہ ماجرادیکھ کر ہکا بکا رہ گیا۔ اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔ تاہم اس نے ہمت کر کے پوچھ لیا کہ ''حقیقت کیاہے،حال کچھ بھی ہو یہ تو بتائیے کہ شیخ صاحب کہاں ہیں ؟‘‘۔ چونکہ وہ عقیدت کا ہاتھ تھام کر آیا تھا، اس لئے خاموش رہا۔ عورت نے جواب دیا، ''ارے وہ کہاں کا شیخ اور شاہ بن گیا، اس نے تو دھوکے کا جال بچھا رکھا ہے، تم جیسے احمقوں کو اپنے جال میں پھانستا ہے ۔ اب بھی وقت ہے جہاں سے آیا ہے الٹے پائوں بھاگ جا ورنہ اس دغاباز کے چکر میں پھنس کر برباد ہو جائے گا نہ دین کا رہے گا نہ دنیا کا۔ وہ بڑا حضرت ہے اس کی زبان اور آنکھوں میں ایسا جادو ہے کہ اچھا خاصا عقلمند بھی اس کے فریب میں آ جاتا ہے ‘‘۔
ان جیسے لوگوں نے تقویٰ اور ا حکام شریعت کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ آج تو حضرت عمر فاروقؓ کی ضرورت ہے جو ان جیسے لوگوں کا محاسبہ کریں
اب تو شیخ کے معتقد کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ اور کہنے لگا: ''چراغ تلے اندھیرا۔ بی بی شیخ کے انوار فیوض سے ایک دنیا جگمگا رہی ہے اور ان کی عظمتوں نے ا فلاک کی عظمتوں کو چھو لیا ہے۔چاند پر تھوکنے والا اپنے منہ پر ہی تھوکتا ہے، کتا دریا میں گر جائے تو پانی ناپاک نہیں ہوتا۔ آفتا ب عالم تاب پر لاکھ پھونکیں مارو، وہ کبھی نہیں بجھ سکتا۔ چمگاڈر، رات کے اندھیرے میں اڑنے والا جانور ،سورج کی روشنی کو کیسے روک سکتا ہے؟‘‘ غرض درویش نے شیخ کی اہلیہ کو ایسی کھری کھری سنائیں کہ وہ اپنا سا منہ لے کر رہ گئی۔
وہ آدمی وہاں سے نکل کر شہرکے لوگوں سے شیخ کاپتہ پوچھنے لگا۔ کسی نے کہا کہ وہ جنگل کی طرف گئے ہوئے ہیں، یہ سنتے ہی وہ راہ حق کا مسافر دیوانہ وار شیخ کی تلاش میں جنگل کی جانب روانہ ہو گیا۔ راستے میں شیطان نے اس کے دل میں وسوسے ڈالنا شروع کر دیئے.....سمجھ میں نہیں آتا کہ شیخ نے ایسی بے ہودہ اور بدتمیز بیوی کو کیوں گھر میں رکھا ہوا ہے، عجیب معاملہ ہے۔ یہ میاں بیوی آپس میں کس طرح زندگی گزارتے ہوں گے۔ایک آگ ہے اور دوسرا پانی۔ ان مجموعہ اضداد میں محبت کیسے ہو سکتی ہے۔ ایسے وسوسے آتے، تو بے چارہ لاحول پڑھتااور کانوں کو ہاتھ لگاتا۔ شیخ کے بارے میں ایسے خیالات کو دل میں جاگزیں کرنا نادانی ہے۔ وہ انہی سوچوں کے تانے بانے بنتاچلا جا رہا تھا کہ آخر دل نے کہا کہ اس میں بھی کوئی بھید ہو گا۔ وہ انہیں خیالات کی دنیا میں گم تھا کہ اس کی نظر ایک شخص پر پڑی جو شیر کی پیٹھ پر اس شان سے سوار تھا کہ پیچھے لکڑیوں کا گٹھا لدا تھا اور ہاتھ میں ایک سیاہ سانپ کا کوڑا تھا۔
عقیدت مند سمجھ گیا کہ یہی حضرت شیخ ابوالحسن خرقانی ہیں۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ عرض کرتا، شیخ نے دور ہی سے مسکراتے ہوئے فرمایا، '' عزیزم!اپنے فریبی نفس کی باتوں میں نہ آ۔ اور ان پر دھیان نہ دے۔ ہمارا اکیلا پن اور جوڑا ہونا عام خواہش کے لئے نہیں ہے۔ اللہ عز و جل کے حکم کی تعمیل کے لئے ہے۔ ہم اس جیسے سینکڑوں بے وقوفوں کا بوجھ برداشت کرتے ہیں،یہ گفتگو میں نے تمہاری خاطر کی ہے، تاکہ تم بھی بد خو ساتھی سے بنائے رکھو۔تنگی کا بار ہنسی خوشی برداشت کرو، کیونکہ صبر کشادگی کی کنجی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے بلند مقام میری بیوی کی بد زبانی اور صبر کرنے کی وجہ سے عطا فرمایا ہے، اگر میں اپنی بیوی کی ہرزہ سرائی برداشت نہ کرتا تو یہ شیر میرا مطیع کیسے ہوتا۔ اگر میرا صبر اس عورت کا بوجھ نہیں اٹھا سکتاتویہ شیر میرا بوجھ کیسے اٹھاتا؟
درس حیات: انسان کو ہر حال میں راضی بہ رضائے الہٰی رہنا چاہیے اور صبر و شکر سے کام لینا چاہیے۔ صبر سے ہی اعلیٰ مقامات و عرفان حاصل ہوتے ہیں۔
طالقان کے علاقے کا رہنے والا ایک آدمی جس کو شیخ ابوالحسن خرقانی کی زیارت کا بے حد شوق تھا۔راستے کی دوری اور سفر کی مشکلات کا خیال آتا تو خرقان جانے کی ہمت نہ پڑتی۔
آخر ایک دن شوق زیارت نے اسے بے تاب کر دیا۔ رخ زیبا کی زیارت کے لئے سفر باندھ لیا۔راستہ کٹھن اور دشوار گزار تھا۔ لیکن ہمت کا پکا تھا، کئی دن تک پہاڑی اور جنگلی راستے سے ہوتا ہوا ایک طویل اور پر صعوبت سفر کے بعد آخر کار منزل تک پہنچ ہی گیا۔ شہر خرقان میں آ کر اس نے شیخ ابوالحسن کے گھر کا پتہ دریافت کیا، وہاں جا کر نہایت ادب کے ساتھ دروازے کی زنجیرہلائی۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک عورت نے کھڑکی سے جھانک کر پوچھا ، ''کون ہے؟‘‘۔اس نے جواب دیا ، ''میں ....شیخ ابوالحسن کی قدم بوسی اور مزاج پرسی کے لئے طالقان سے حاضرخدمت ہوا ہوں‘‘۔ اس عورت نے کہا ، ''واہ یاں درویش، بھلا یہ بھی کوئی مقصد تھا،جس کے لئے تم نے اتنا طویل اور کٹھن سفر طے کیا۔معلوم ہوتا ہے کہ تم نے دھوپ میں داڑھی سفید کی ہے ، تمہاری عقل و دانش پر رونے کو جی چاہتا ہے۔ کیا تمہیں اپنے وطن میں کوئی کام دھندا نہ تھا؟‘‘۔عقیدت مند یہ ماجرادیکھ کر ہکا بکا رہ گیا۔ اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔ تاہم اس نے ہمت کر کے پوچھ لیا کہ ''حقیقت کیاہے،حال کچھ بھی ہو یہ تو بتائیے کہ شیخ صاحب کہاں ہیں ؟‘‘۔ چونکہ وہ عقیدت کا ہاتھ تھام کر آیا تھا، اس لئے خاموش رہا۔ عورت نے جواب دیا، ''ارے وہ کہاں کا شیخ اور شاہ بن گیا، اس نے تو دھوکے کا جال بچھا رکھا ہے، تم جیسے احمقوں کو اپنے جال میں پھانستا ہے ۔ اب بھی وقت ہے جہاں سے آیا ہے الٹے پائوں بھاگ جا ورنہ اس دغاباز کے چکر میں پھنس کر برباد ہو جائے گا نہ دین کا رہے گا نہ دنیا کا۔ وہ بڑا حضرت ہے اس کی زبان اور آنکھوں میں ایسا جادو ہے کہ اچھا خاصا عقلمند بھی اس کے فریب میں آ جاتا ہے ‘‘۔
ان جیسے لوگوں نے تقویٰ اور ا حکام شریعت کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ آج تو حضرت عمر فاروقؓ کی ضرورت ہے جو ان جیسے لوگوں کا محاسبہ کریں
اب تو شیخ کے معتقد کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ اور کہنے لگا: ''چراغ تلے اندھیرا۔ بی بی شیخ کے انوار فیوض سے ایک دنیا جگمگا رہی ہے اور ان کی عظمتوں نے ا فلاک کی عظمتوں کو چھو لیا ہے۔چاند پر تھوکنے والا اپنے منہ پر ہی تھوکتا ہے، کتا دریا میں گر جائے تو پانی ناپاک نہیں ہوتا۔ آفتا ب عالم تاب پر لاکھ پھونکیں مارو، وہ کبھی نہیں بجھ سکتا۔ چمگاڈر، رات کے اندھیرے میں اڑنے والا جانور ،سورج کی روشنی کو کیسے روک سکتا ہے؟‘‘ غرض درویش نے شیخ کی اہلیہ کو ایسی کھری کھری سنائیں کہ وہ اپنا سا منہ لے کر رہ گئی۔
وہ آدمی وہاں سے نکل کر شہرکے لوگوں سے شیخ کاپتہ پوچھنے لگا۔ کسی نے کہا کہ وہ جنگل کی طرف گئے ہوئے ہیں، یہ سنتے ہی وہ راہ حق کا مسافر دیوانہ وار شیخ کی تلاش میں جنگل کی جانب روانہ ہو گیا۔ راستے میں شیطان نے اس کے دل میں وسوسے ڈالنا شروع کر دیئے.....سمجھ میں نہیں آتا کہ شیخ نے ایسی بے ہودہ اور بدتمیز بیوی کو کیوں گھر میں رکھا ہوا ہے، عجیب معاملہ ہے۔ یہ میاں بیوی آپس میں کس طرح زندگی گزارتے ہوں گے۔ایک آگ ہے اور دوسرا پانی۔ ان مجموعہ اضداد میں محبت کیسے ہو سکتی ہے۔ ایسے وسوسے آتے، تو بے چارہ لاحول پڑھتااور کانوں کو ہاتھ لگاتا۔ شیخ کے بارے میں ایسے خیالات کو دل میں جاگزیں کرنا نادانی ہے۔ وہ انہی سوچوں کے تانے بانے بنتاچلا جا رہا تھا کہ آخر دل نے کہا کہ اس میں بھی کوئی بھید ہو گا۔ وہ انہیں خیالات کی دنیا میں گم تھا کہ اس کی نظر ایک شخص پر پڑی جو شیر کی پیٹھ پر اس شان سے سوار تھا کہ پیچھے لکڑیوں کا گٹھا لدا تھا اور ہاتھ میں ایک سیاہ سانپ کا کوڑا تھا۔
عقیدت مند سمجھ گیا کہ یہی حضرت شیخ ابوالحسن خرقانی ہیں۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ عرض کرتا، شیخ نے دور ہی سے مسکراتے ہوئے فرمایا، '' عزیزم!اپنے فریبی نفس کی باتوں میں نہ آ۔ اور ان پر دھیان نہ دے۔ ہمارا اکیلا پن اور جوڑا ہونا عام خواہش کے لئے نہیں ہے۔ اللہ عز و جل کے حکم کی تعمیل کے لئے ہے۔ ہم اس جیسے سینکڑوں بے وقوفوں کا بوجھ برداشت کرتے ہیں،یہ گفتگو میں نے تمہاری خاطر کی ہے، تاکہ تم بھی بد خو ساتھی سے بنائے رکھو۔تنگی کا بار ہنسی خوشی برداشت کرو، کیونکہ صبر کشادگی کی کنجی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے بلند مقام میری بیوی کی بد زبانی اور صبر کرنے کی وجہ سے عطا فرمایا ہے، اگر میں اپنی بیوی کی ہرزہ سرائی برداشت نہ کرتا تو یہ شیر میرا مطیع کیسے ہوتا۔ اگر میرا صبر اس عورت کا بوجھ نہیں اٹھا سکتاتویہ شیر میرا بوجھ کیسے اٹھاتا؟
درس حیات: انسان کو ہر حال میں راضی بہ رضائے الہٰی رہنا چاہیے اور صبر و شکر سے کام لینا چاہیے۔ صبر سے ہی اعلیٰ مقامات و عرفان حاصل ہوتے ہیں۔