I
intelligent086
Guest
حکایت رومیؒ ..... وفا
روزن کے بادشاہ کا ایک وزیر تھا، شریف النفس اور ہر کسی کے روبرو بہت اچھا سلوک کر تا تھا اور عدم موجودگی میں بھی نیکی سے یاد کرتا۔ اتفاقاً اس سے ایسی حرکت سر زد ہوگئی جو بادشاہ کو ناگوار گزری۔ بادشاہ نے اسے جرمانہ کی سزا دے کر قید کر دیا۔ سپاہی اس کے گزشتہ فضل وکرم کے معترف اور اس کے احسانات کے ممنون تھے۔ لہٰذا قید کے دنوں میں اس کے ساتھ بڑی نرمی اور شفقت کرتے رہے اور کبھی بے ادبی و سختی سے پیش نہ آئے۔جن باتوں پہ بادشاہ ناراض ہوا تھا کچھ عرصے بعد ان میں سے بعض کی تو صفائی ہوگئی باقی ماندہ کے لیے وہ ہنوز جیل ہی میں تھا۔ ہمسایہ ریاستوں میں سے کسی بادشاہ نے چوری چھپے اسے ایک خط بھیجا کہ آپ کے حاکم نے آپ جیسے بزرگ کی قدر نہ کی، آپ کی بے عزتی کی، ہمیں دُکھ ہوا۔ خدا آپ کو بطریق احسن رہائی عطا کرے۔ اگر آپ ہمارے یہاں آنا پسند کریں تو آپ کی قدروعزت میں کوئی دقیقہ اُٹھا نہ رکھا جائے گا۔ اس سلطنت کے سب سر دار آپ کے دیدار کے مشتاق اور جواب کے منتظر ہیں۔ وزیر کو اس کا پتہ چلا تو خطرے سے اس کا ماتھا ٹھنکا۔ فوراً اسی خط کی پشت پر ایک ایسا مناسب جواب لکھا کہ اگر خط پکڑا بھی جائے تو وہ پوچھ گچھ سے محفوظ رہے۔ کسی ملازم نے بادشاہ کو اطلاع دے دی کہ فلاں وزیر جسے حضور نے قید کر رکھا ہے نواحی رئیسوں سے خط وکتابت کر رہا ہے۔ بادشاہ کو غصہ آیا، تفتیش کا حکم دیا، قاصد کو گرفتار کر لیا گیا اور خط پڑھا گیا۔ لکھا یہ تھا کہ آپ کا نیک گمان میری قابلیت سے بہت بڑھ چڑھ کر ہے جس کے لیے دلی شکریہ، لیکن ملازمت کا جو ارشاد ہُوا یہ خاکسار اسے منظور نہیں کر سکتا، کیونکہ میں اس خاندان کا پروردہ ہوں اور ذرا سی خفگی پر اپنے پُرانے آقا اور مخدوم سے آنکھیں پھیر لینا اور بے وفائی کرنا میں ہر گز مناسب نہیں سمجھتا جیسا کہ کہا گیا ہے: جس نے عمر بھر تجھ پہ لُطف و کرم کیا ہو اگر اس سے کبھی سختی بھی ہو جائے تو نظر انداز کر دو۔ بادشاہ کو وزیر کی نمک حلالی اور نیک خیالی اس قدر پسند آئی کہ فوراً رہا کر کے نہ فقط خلعت اور انعام و اکرام سے نوازا، بلکہ عذر خواہی بھی کی کہ تم جیسے خیر خواہ اور بیگناہ شخص کو ستانے میں مُجھ سے بہت بڑی غلطی ہوئی۔ اس نے جواباً کہا: جہاں پناہ اس سلسلے میں آپ کی کوئی تقصیر نہیں۔ میرا مقدر یونہی تھا کہ مجھے تکلیف پہنچے۔ کسی اور کے ہاتھوں پہنچنے کے بجائے اگر حضور کے ہاتھوں پہنچ گئی تو اور بھی اچھا ہوا کہ میں آپ کا زیر احسان ہوں۔
روزن کے بادشاہ کا ایک وزیر تھا، شریف النفس اور ہر کسی کے روبرو بہت اچھا سلوک کر تا تھا اور عدم موجودگی میں بھی نیکی سے یاد کرتا۔ اتفاقاً اس سے ایسی حرکت سر زد ہوگئی جو بادشاہ کو ناگوار گزری۔ بادشاہ نے اسے جرمانہ کی سزا دے کر قید کر دیا۔ سپاہی اس کے گزشتہ فضل وکرم کے معترف اور اس کے احسانات کے ممنون تھے۔ لہٰذا قید کے دنوں میں اس کے ساتھ بڑی نرمی اور شفقت کرتے رہے اور کبھی بے ادبی و سختی سے پیش نہ آئے۔جن باتوں پہ بادشاہ ناراض ہوا تھا کچھ عرصے بعد ان میں سے بعض کی تو صفائی ہوگئی باقی ماندہ کے لیے وہ ہنوز جیل ہی میں تھا۔ ہمسایہ ریاستوں میں سے کسی بادشاہ نے چوری چھپے اسے ایک خط بھیجا کہ آپ کے حاکم نے آپ جیسے بزرگ کی قدر نہ کی، آپ کی بے عزتی کی، ہمیں دُکھ ہوا۔ خدا آپ کو بطریق احسن رہائی عطا کرے۔ اگر آپ ہمارے یہاں آنا پسند کریں تو آپ کی قدروعزت میں کوئی دقیقہ اُٹھا نہ رکھا جائے گا۔ اس سلطنت کے سب سر دار آپ کے دیدار کے مشتاق اور جواب کے منتظر ہیں۔ وزیر کو اس کا پتہ چلا تو خطرے سے اس کا ماتھا ٹھنکا۔ فوراً اسی خط کی پشت پر ایک ایسا مناسب جواب لکھا کہ اگر خط پکڑا بھی جائے تو وہ پوچھ گچھ سے محفوظ رہے۔ کسی ملازم نے بادشاہ کو اطلاع دے دی کہ فلاں وزیر جسے حضور نے قید کر رکھا ہے نواحی رئیسوں سے خط وکتابت کر رہا ہے۔ بادشاہ کو غصہ آیا، تفتیش کا حکم دیا، قاصد کو گرفتار کر لیا گیا اور خط پڑھا گیا۔ لکھا یہ تھا کہ آپ کا نیک گمان میری قابلیت سے بہت بڑھ چڑھ کر ہے جس کے لیے دلی شکریہ، لیکن ملازمت کا جو ارشاد ہُوا یہ خاکسار اسے منظور نہیں کر سکتا، کیونکہ میں اس خاندان کا پروردہ ہوں اور ذرا سی خفگی پر اپنے پُرانے آقا اور مخدوم سے آنکھیں پھیر لینا اور بے وفائی کرنا میں ہر گز مناسب نہیں سمجھتا جیسا کہ کہا گیا ہے: جس نے عمر بھر تجھ پہ لُطف و کرم کیا ہو اگر اس سے کبھی سختی بھی ہو جائے تو نظر انداز کر دو۔ بادشاہ کو وزیر کی نمک حلالی اور نیک خیالی اس قدر پسند آئی کہ فوراً رہا کر کے نہ فقط خلعت اور انعام و اکرام سے نوازا، بلکہ عذر خواہی بھی کی کہ تم جیسے خیر خواہ اور بیگناہ شخص کو ستانے میں مُجھ سے بہت بڑی غلطی ہوئی۔ اس نے جواباً کہا: جہاں پناہ اس سلسلے میں آپ کی کوئی تقصیر نہیں۔ میرا مقدر یونہی تھا کہ مجھے تکلیف پہنچے۔ کسی اور کے ہاتھوں پہنچنے کے بجائے اگر حضور کے ہاتھوں پہنچ گئی تو اور بھی اچھا ہوا کہ میں آپ کا زیر احسان ہوں۔