Hikayat-e-Rumi (R.A) , Azab-e-Elahi

I

intelligent086

Guest


مولانا رومیؒ ۔۔۔۔۔۔ عذابِ الٰہی

rumi-jpg.jpg

حضرت سلیمان علیہ السلام کی بادشاہت کا اعلان جب اس زمین پر ہوا تو درندوں، چرندوں کے ساتھ پرندے بھی اطاعت کے لیے بارگاہِ عالی میں حاضر ہوئے۔ انہوں نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو زبان داں اور محرم رازپایا تو جان و دل سے آپؑ پر فدا ہوگئے۔ اپنی چوں چوں ترک کی اور پیغمبرؑ خدا کی صحبت اختیار کی۔ چند ہی دنوں کے اندر ندر سب پرندے بنی آدم سے زیادہ فصیح و بلیغ زبان میں باتیں کرنے لگے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں کیا چرند کیا پرند سبھی حکمت و دانائی کی باتیں کرتے۔ یہ اصل میں اپنی خلقت کا اظہار تھا۔ غرور یا شیخی کو اس میں دخل نہ تھا ان باتوں کا مقصد بھی یہ تھا کہ پیغمبر ؑخدا کو تعلیم و ہدایت کی تبلیغ کرنے میں کچھ مدد ملے۔
ایک دن دربار لگا ہوا تھا اور معمول کے مطابق حاضرین دربار اپنی اپنی بولیاں بول رہے تھے۔ علم، حکمت، تجربے اور دانائی کی نہریں جاری تھیں۔ اس روز پرندے اپنی صفات اور ہنر بیان کر رہے تھے۔ آخر میں ہد ہد کی باری آئی ‘ اس نے کہا :’’اے علم و حکمت والے بادشاہ، مجھ میں ایک خوبی جو سب سے ادنیٰ ہے، صرف وہی عرض کرنے کی جسارت کرتا ہوں کہ دانائوں نے کہا ہے مختصر کلام ہی سود مند ہوتا ہے؟‘‘
حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا ’’وہ کون سی ادنیٰ خوبی تیری ذات میں ہے؟‘‘
ہد ہد نے ادب سے عرض کیا ’’وہ خوبی یہ ہے کہ جب میں بے پناہ بلندیوں پر پرواز کرتا ہوں تو پانی اگر زمین کی گہرائیوں میں بھی ہوتو مجھے نظر آجاتا ہے۔ میں یہ بھی جان لیتا ہوں کہ اس پانی کی خاصیت کیا ہے، کتنی گہرائی میں ہے، اس کارنگ کیا ہے، زمین سے نکل رہا ہے یا پتھر سے رِس رہا ہے۔ اے پیغمبرؑ! تو اپنے لشکر جرار کے ساتھ مجھے لے کرچل تاکہ پانی کی ضرورت پڑے تو میں نشاندہی کروں۔‘‘
حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہد ہد کی اس خوبی کی بہت تعریف و توصیف فرمائی اور اجازت عطا ہوئی کہ بے آب و گیاہ صحرائوں میں سفر کے دوران تو ہمارے ہراول دستے کے ساتھ رہا کر تاکہ پانی کا کھوج لگاتا رہے۔اُدھر بری عادات والے کوّے نے جب یہ سنا کہ ہد ہد کو ہراول دستے میں شریک رہنے کا اعزاز حضرت سلیمان علیہ السلام کی جانب سے عطا ہوا ہے تو مارے رشک و حسد کے سیاہ پڑ گیا۔ اَنگاروں پر لوٹنے لگا۔ فوراً پیغمبرؑ خدا کے سامنے آ کر کہا :’’اس ہد ہد نے آپؑ کے حضور سخت گستاخی کی ہے اور قطعی جھوٹا دعویٰ کیا ہے۔ اسے اس جھوٹ اور غلط بیانی کی سزا دی جائے۔ اس سے پوچھیے کہ اگر تیری نظرایسی ہی تیز ہے کہ زمین کی گہرائیوں میں چھپے ہوئے پانی کی خبر لاتی ہے تو پھر تجھے ذرا سی خاک میں چھپا ہوا وہ پھندا کیوں نہیں دکھائی دیتا جو شکاری تجھے پھانسنے کے لیے لگاتا ہے؟ ایسا ہی ہنر رکھتا ہے تو جال میں گرفتار کیوں ہوتا ہے، آسمان کی بے پناہ بلندیوں سے وہ جال کیوں نہیں دیکھ لیتا؟‘‘
کوّے کی یہ بات سن کر حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہد ہد سے کہا، ’’اے ہد ہد، کوّے نے جو بات کہی وہ تو نے سنی۔ اب اس کا جواب تیرے ذمے ہے۔ اپنے دعوے کی صداقت کا ثبوت پیش کر ورنہ سزا کے لیے تیار ہو جا‘‘۔
ہد ہد نے بے خوف ہو کر عرض کیا ’’اے بادشاہ! بدطنیت دشمن نے حسد سے جل بھن کر میرے خلاف جو بات کی ہے اس پر دھیان نہ دیجئے۔ اگر میرا دعویٰ صحیح نہ ہو تو یہ گردن حاضر ہے۔ اب رہا یہ سوال کہ مجھے وہ مٹھی بھر خاک میں چھپا ہوا پھندا کیوں نظر نہیں آتا تواس بارے میں کیا عرض کروں۔ اگر حق تعالیٰ کی حکمت و مرضی میری عقل کی روشنی نہ بجھائے تو میں یقینا پرواز کے دوران وہ حقیر پھندا بھی دیکھ لوں۔ لیکن جب فرمانِ قضا و قدر جاری ہو اور میرا وقت آجائے تو نگاہ کی خوبی کیا کرے۔ ایسے موقع پر عقل کام نہیں کرتی۔ چاند سیاہ ہو جاتا ہے اورسورج گہن میں آجاتا ہے۔ میری عقل اور بصارت میں یہ طاقت کہاں کہ فرمانِ خداوندی کا مقابلہ کر سکے۔‘‘
اے عزیز! اسی طرح جب قوموں اور افراد پر عذابِ الٰہی، ان کے بداعمالوں کے سبب نازل ہوتا ہے تو ان کی عقل اور بینائی سلب کرلی جاتی ہے۔


 
Top