I
intelligent086
Guest
حکایت مولانا رومیؒ ۔۔۔۔۔ باہمت شخص
مولانا رومؒ فرماتے ہیں کہ لومڑی کی بزدلی ضرب المثل ہے۔لیکن جس لومڑی کی کمر پر شیر کا ہاتھ ہو کہ گھبرانا مت، میں تیرے ساتھ ہوں، تو باوجود ضعف کے، اس کی پشت پناہی کے فیض سے اس قدرباہمت ہوجائے گی کہ چیتوں کے ریوڑ سے بھی ہرگز خائف نہ ہو گی، شیر سے طاقتور سہارے کی امید رکھنے کی وجہ سے وہ دلیر ہوجائے گی۔ یہی حال اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں کا بھی ہوتا ہے کہ باوجود خستہ حال، شکستہ بدن اور فاقہ زدہ چہروں کے، باطل کی اکثریت سے خوف زدہ نہیں ہوتے۔
حضرت جعفر ؒطیار ایک قلعہ فتح کرنے تنہا اس قوت سے حملہ آور ہوئے کہ معلوم ہوا کہ گویا دشمن گھوڑوں کے سامنے ایک پوری فوج کے برابر تھے ۔ان کے سامنے دشمن کی حیثیت خاک سے زیادہ نہ تھی۔ قلعے کے اندر دشمن کی فوج نے قلعہ بندی کر لی۔ تمام دروازوں کو اچھی طرح تالے لگا کر اندر آنے کے راستے بند کر دیئے۔کسی کو آپ ؒ کے سامنے آنے اور مقابلہ کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔
بادشاہ نے وزیر سے مشورہ کیا کہ اس وقت کیاتدبیر کی جائے۔وزیر نے کہا،
'' ہماری سلامتی اسی میں ہے کہ ہم جنگ کے تمام منصوبوں کو ترک کر دیں۔ اس با ہمت شخص کے سامنے شمشیر اور کفن لے کر حاضر ہو جائیں اور ہتھیارڈال دیں‘‘۔
بادشاہ نے کہا کہ
'' آخر وہ تنہا ایک شخص ہی تو ہے تو پھر یہ رائے کیوں دی جارہی ہے، ہمیں ڈر کس بات کا ہے؟‘‘۔
وزیر نے کہا: '' آپ ایک شخص کی تنہائی کو بے وقعتی کی نگاہ سے نہ دیکھیں ،ذرا ٓنکھ کھول کر قلعہ کو دیکھیں، سیماب کی طرح لرزاں ہے۔ اوراہل قلعہ کو دیکھیں، بھیڑوں کی طرح نظریں نیچی کئے سہمے ہوئے ہیں۔ یہ شخص اگرچہ تنہا ہے لیکن اس کے سینے میں جو دل ہے، وہ عام انسانوں جیسا نہیں ہے، اس کی عالی ہمتی کو دیکھیں ، اتنی بڑی مسلح اکثریت کے سامنے تنہا شمشیر برہنہ لئے کھڑا ہے۔کس ثابت قدمی اور فاتحانہ انداز سے اعلان جنگ کر رہا ہے۔ (اللہ اکبر) ۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مشرق و مغرب کی تمام فوجیں اس کے ساتھ ہیں۔ وہ تنہا بجملہ لاکھوں انسانوں کے برابر ہے۔ کیا آپ نہیں دیکھ رہے کہ قلعہ سے جو سپاہی اس کے مقابلے کے لئے بھیجا جاتا ہے، وہ اس کے گھوڑوں کی ٹاپ کے نیچے پڑا نظر آتاہے۔ جب میں نے اس کی عظیم الشان انفرادیت دیکھ لی ہے تو پھر اے بادشاہ ! آپ بھی اپنی اکثریت سے کچھ نہ کر پائیں گے۔آپ کثرت اعداد کا اعتبا ر نہ کیجئے، اصل چیز جمعیت قلب ہے۔ جو اس شخص کے دل میں بے پناہ ہے۔ یہ نعمت مجاہدات کے بعد اللہ سے تعلق کی برکت سے عطا ہوتی ہے۔ اس عطائے حق کو تم اس حالت کفر میں ہرگز حاصل نہیں کر سکتے۔ لہٰذا فی الحال تمہارے لئے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ اس جاں باز مرد کے سامنے ہتھیار ڈال دو اور قلعہ کا دروازہ کھول دو، کیونکہ اس کے سامنے ہماری یہ اکثریت بالکل بے کار ہے‘‘۔
نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
جو ہو ذوق یقیں پیدا ، تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
مولانا رومؒ بعض اقلیت کے سامنے اکثریت کے تعطل اور ضعف کو ان کی چند مثالوں سے سمجھاتے ہیں۔ بے شمار ستارے روشن ہیں، لیکن ایک خورشید عالم تاب کا ظہور سب کو ماند کر دیتا ہے۔
بے شک چوہے ہزاروں کی تعداد میں ہی کیوں نہ ہوں، اگر وہاں لاغر و نحیف بلی بھی آ جائے، تو سب چوہوں کی اکثریت ہیبت و خوف سے بیک وقت مفرور ہوجاتی ہے۔ اس کی میائوںسنتے ہی ان کے کانوں میں مغلوبیت کی خوفنا ک ضربیں گونج اٹھتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چوہوں کے سینوں میں جو قلوب ہیں، اور بلی کے سینے میں جو دل ہے، اس میں فرق ہے۔بلی کے دل میں ہمت ہے، جو کہ چوہوں کے قلوب میں نہیں ہے۔ بلی کے سامنے چوہوں کا حواس باختہ ہو جانا فطری عمل ہے۔ بلی کے جگر میں ہمت کا شامل ہونا ہی امر اکی دلیل ہے کہ وہ چوہوں کے ایک غول پر بھی حاوی ہو سکتی ہے۔
درس حیات: جب نصرت الٰہی پر کامل یقین ہو جائے تو مسلمان کے دل سے مخلوق کا خوف ختم ہوجاتا ہے۔ انسان اس دنیا میں بہت سارے برے کام مختلف قسم کے خوف کی وجہ سے کرتا ہے، اگر خدا کی مدد پر کامل یقین ہو جائے تو انسان متعدد برائیوں سے بچ سکتا ہے۔
مولانا رومؒ فرماتے ہیں کہ لومڑی کی بزدلی ضرب المثل ہے۔لیکن جس لومڑی کی کمر پر شیر کا ہاتھ ہو کہ گھبرانا مت، میں تیرے ساتھ ہوں، تو باوجود ضعف کے، اس کی پشت پناہی کے فیض سے اس قدرباہمت ہوجائے گی کہ چیتوں کے ریوڑ سے بھی ہرگز خائف نہ ہو گی، شیر سے طاقتور سہارے کی امید رکھنے کی وجہ سے وہ دلیر ہوجائے گی۔ یہی حال اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں کا بھی ہوتا ہے کہ باوجود خستہ حال، شکستہ بدن اور فاقہ زدہ چہروں کے، باطل کی اکثریت سے خوف زدہ نہیں ہوتے۔
حضرت جعفر ؒطیار ایک قلعہ فتح کرنے تنہا اس قوت سے حملہ آور ہوئے کہ معلوم ہوا کہ گویا دشمن گھوڑوں کے سامنے ایک پوری فوج کے برابر تھے ۔ان کے سامنے دشمن کی حیثیت خاک سے زیادہ نہ تھی۔ قلعے کے اندر دشمن کی فوج نے قلعہ بندی کر لی۔ تمام دروازوں کو اچھی طرح تالے لگا کر اندر آنے کے راستے بند کر دیئے۔کسی کو آپ ؒ کے سامنے آنے اور مقابلہ کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔
بادشاہ نے وزیر سے مشورہ کیا کہ اس وقت کیاتدبیر کی جائے۔وزیر نے کہا،
'' ہماری سلامتی اسی میں ہے کہ ہم جنگ کے تمام منصوبوں کو ترک کر دیں۔ اس با ہمت شخص کے سامنے شمشیر اور کفن لے کر حاضر ہو جائیں اور ہتھیارڈال دیں‘‘۔
بادشاہ نے کہا کہ
'' آخر وہ تنہا ایک شخص ہی تو ہے تو پھر یہ رائے کیوں دی جارہی ہے، ہمیں ڈر کس بات کا ہے؟‘‘۔
وزیر نے کہا: '' آپ ایک شخص کی تنہائی کو بے وقعتی کی نگاہ سے نہ دیکھیں ،ذرا ٓنکھ کھول کر قلعہ کو دیکھیں، سیماب کی طرح لرزاں ہے۔ اوراہل قلعہ کو دیکھیں، بھیڑوں کی طرح نظریں نیچی کئے سہمے ہوئے ہیں۔ یہ شخص اگرچہ تنہا ہے لیکن اس کے سینے میں جو دل ہے، وہ عام انسانوں جیسا نہیں ہے، اس کی عالی ہمتی کو دیکھیں ، اتنی بڑی مسلح اکثریت کے سامنے تنہا شمشیر برہنہ لئے کھڑا ہے۔کس ثابت قدمی اور فاتحانہ انداز سے اعلان جنگ کر رہا ہے۔ (اللہ اکبر) ۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مشرق و مغرب کی تمام فوجیں اس کے ساتھ ہیں۔ وہ تنہا بجملہ لاکھوں انسانوں کے برابر ہے۔ کیا آپ نہیں دیکھ رہے کہ قلعہ سے جو سپاہی اس کے مقابلے کے لئے بھیجا جاتا ہے، وہ اس کے گھوڑوں کی ٹاپ کے نیچے پڑا نظر آتاہے۔ جب میں نے اس کی عظیم الشان انفرادیت دیکھ لی ہے تو پھر اے بادشاہ ! آپ بھی اپنی اکثریت سے کچھ نہ کر پائیں گے۔آپ کثرت اعداد کا اعتبا ر نہ کیجئے، اصل چیز جمعیت قلب ہے۔ جو اس شخص کے دل میں بے پناہ ہے۔ یہ نعمت مجاہدات کے بعد اللہ سے تعلق کی برکت سے عطا ہوتی ہے۔ اس عطائے حق کو تم اس حالت کفر میں ہرگز حاصل نہیں کر سکتے۔ لہٰذا فی الحال تمہارے لئے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ اس جاں باز مرد کے سامنے ہتھیار ڈال دو اور قلعہ کا دروازہ کھول دو، کیونکہ اس کے سامنے ہماری یہ اکثریت بالکل بے کار ہے‘‘۔
نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
جو ہو ذوق یقیں پیدا ، تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
مولانا رومؒ بعض اقلیت کے سامنے اکثریت کے تعطل اور ضعف کو ان کی چند مثالوں سے سمجھاتے ہیں۔ بے شمار ستارے روشن ہیں، لیکن ایک خورشید عالم تاب کا ظہور سب کو ماند کر دیتا ہے۔
بے شک چوہے ہزاروں کی تعداد میں ہی کیوں نہ ہوں، اگر وہاں لاغر و نحیف بلی بھی آ جائے، تو سب چوہوں کی اکثریت ہیبت و خوف سے بیک وقت مفرور ہوجاتی ہے۔ اس کی میائوںسنتے ہی ان کے کانوں میں مغلوبیت کی خوفنا ک ضربیں گونج اٹھتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چوہوں کے سینوں میں جو قلوب ہیں، اور بلی کے سینے میں جو دل ہے، اس میں فرق ہے۔بلی کے دل میں ہمت ہے، جو کہ چوہوں کے قلوب میں نہیں ہے۔ بلی کے سامنے چوہوں کا حواس باختہ ہو جانا فطری عمل ہے۔ بلی کے جگر میں ہمت کا شامل ہونا ہی امر اکی دلیل ہے کہ وہ چوہوں کے ایک غول پر بھی حاوی ہو سکتی ہے۔
درس حیات: جب نصرت الٰہی پر کامل یقین ہو جائے تو مسلمان کے دل سے مخلوق کا خوف ختم ہوجاتا ہے۔ انسان اس دنیا میں بہت سارے برے کام مختلف قسم کے خوف کی وجہ سے کرتا ہے، اگر خدا کی مدد پر کامل یقین ہو جائے تو انسان متعدد برائیوں سے بچ سکتا ہے۔