I
intelligent086
Guest
حکایت رومیؒ ۔۔۔۔۔۔ ہمیشہ جوان رکھنے والا پھل
حکایت ہے کہ کسی عقلمند شخص نے محض قصے کی طرح بیان کیا کہ ملکِ ہند میں ایک عجیب و غریب درخت پایا جاتا ہے جو اس درخت کا پھل ایک مرتبہ کھائے ‘ہمیشہ جوان اور توانا رہے اور کبھی اس پر موت طاری نہ ہو۔ ایک بادشاہ نے حکایت سنی اور جی میں کہا ''اگر اس شجر کا میوہ ملے تو کیا کہنے۔‘‘ چنانچہ اپنے مصاحبوں اور وزیروں سے ذکر کیا۔ سب نے ہاں میں ہاں ملائی کہ جہاں پناہ اگر اس درخت کا پھل کھالیں تو رعیت ہمیشہ آپ کے زیر سایہ آباد اور خوش و خرم رہے۔
غرض بادشاہ نے ایک ہوشیار مصاحب کو اس درخت کے پھل کی تلاش میں ہند روانہ کیا۔ وہ بے چارہ مدتوں جنگل جنگل ‘صحرا صحرا مارا مارا پھرتا رہا ‘ لیکن گوہر مقصود ہاتھ نہ آیا۔ جس کسی سے ایسے درخت اور پھل کا پتا پوچھتا ‘وہ ہنسی اڑاتا کہ میاں‘ سودائی ہوئے ہو؟ ایسا درخت کہاں؟ کسی نے اچھی ہوائی چھوڑی ہے۔ کیوں در بدر خاک بسر ہوتے پھر رہے ہو؟ ٹھنڈے ٹھنڈے جدھر سے آئے ہو اُدھر کو لوٹ جائو۔ وہ شخص اسی طرح نت نئی باتیں سنتا اور اپنی ہنسی اُڑواتا رہا‘ لیکن تھا دُھن کا پکا۔ ارادے میں خم نہ آنے دیا اوربرابر کوہ و دشت کی خاک چھانتا رہا۔
جب برسہا برس گزر گئے‘ پورے ہندوستان کے گوشے گوشے ‘چپے چپے میں پھر چکا اور بقائے دوام کے شجر کا کہیں نشان نہ ملا‘ تب مایوس ہو کر اپنے وطن کی طرف واپس چلا ۔ اس قدر محنت اور تکلیف ضائع جانے سے رنج و غم کی کوئی انتہا نہ تھی۔ بدقسمتی پر آنسو بہاتا اور یہ سوچتا جاتا تھا کہ بادشاہ کو کیا منہ دکھائے گا کہ یکایک معلوم ہوا کہ اس راہ میں ایک آدمی کہ ولی اللہ اور قطبِ وقت مشہور ہے‘ قیام پذیر ہے۔ اس نے سوچا چلو‘ اسی بلند مرتبہ شیخ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی مشکل بیان کروں۔ ممکن ہے شیخ کی نگہ التفات سے بگڑا کام بن جائے اورمایوسی راحت میں بدلے۔ یہ سوچ کرچشم برآب لے کر شیخ کے پاس حاضر ہوا اور اس کی نورانی صورت دیکھتے ہی اپنے آپ پر اختیار نہ رہا۔ ضبط کا دامن ہاتھ سے نکل گیا اور روتا ہوا اس کے قدموں میں جاگرا۔ اس قدر آنسو بہائے کہ شیخ کے پیروں کو بھگو دیا۔
شیخ نے اٹھا کرشفقت سے گلے لگایا اورپوچھا ''کیا بات ہے؟ اس قدر آشفتہ سری اور پریشانی کا سبب کیا ہے؟ تفصیل سے بیان کرو۔‘‘
اس نے عرض کیا ''حضرت‘ کیا کہوں‘ جس کام کے لیے برسوں پہلے وطن سے نکلا تھا وہ کام نہیں ہوا۔ اب سوچتا ہوں واپس جاکر بادشاہ کو کیا جواب دوں گا۔ اس کے عتاب کا نشانہ بننے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ آپ میرے حق میں اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ وہ مجھ پر رحم کرے۔ بادشاہ کے حکم سے بقائے دوام کے شجر کی تلاش میں یہاں آیا تھا۔ کہتے ہیں اس کا پھل کوئی کھا لے تو حیات جاوداں مل جاتی ہے۔ میں نے اس کی جستجو میں اس ملک کا چپا چپا چھان مارا‘ مگر ناکامی اور مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا۔‘‘
یہ سن کر وہ شیخ کامل ہنس پڑا۔ پھر ارشاد فرمایا ''سبحان اللہ! بھائی‘ تو نے بھی سادہ لوحی کی حد قائم کر دی ہے۔ ارے اتنا وقت خواہ مخواہ ضائع کیا۔ پہلے ہی میرے پاس چلاآتا اور معلوم کر لیتا۔ اب گوشِ ہوش سے سن کہ وہ شجر علم ہے جس کا پھل ہمیشہ کی زندگی کا اثر رکھتا ہے۔ تو اور تیرا بادشاہ درخت کی ظاہری صورت سے بدگمانی میں مبتلا ہوگئے‘ اس لیے شاخِ معنی ہاتھ نہ آئی۔ اس کے نام بے شمار ہیں۔ کہیں مہر عالم تاب‘ کہیں بحر بے کراں‘ کبھی درخت‘ کبھی بادل۔ انہی ہزار صفات میں سے اس کی ایک صفت بقائے دوام بھی ہے۔ اے عزیز! صورت کے پیچھے مت بھاگ‘ سیرت دیکھ۔ ظاہر پر نہ جا‘ باطن پر دھیان دے۔ الفاظ پر غور نہ کر‘ معنی کے اندر غوطہ لگا۔ ظاہری صورت کی مثال چھلکے کی سی ہے اور معنی اس چھلکے کے اندر چھپا ہوا گودا ہے۔ صفت پر نظر رکھ تاکہ تجھے ذات کی جانب لے جائے۔ یہ نام ہی کا جھگڑا ہے جس نے مخلوق کے اندر اختلاف کی گرہیں ڈال دی ہیں۔ جہاں معنی پر نگاہ گئی‘ اختلاف ختم ہوا۔
حکایت ہے کہ کسی عقلمند شخص نے محض قصے کی طرح بیان کیا کہ ملکِ ہند میں ایک عجیب و غریب درخت پایا جاتا ہے جو اس درخت کا پھل ایک مرتبہ کھائے ‘ہمیشہ جوان اور توانا رہے اور کبھی اس پر موت طاری نہ ہو۔ ایک بادشاہ نے حکایت سنی اور جی میں کہا ''اگر اس شجر کا میوہ ملے تو کیا کہنے۔‘‘ چنانچہ اپنے مصاحبوں اور وزیروں سے ذکر کیا۔ سب نے ہاں میں ہاں ملائی کہ جہاں پناہ اگر اس درخت کا پھل کھالیں تو رعیت ہمیشہ آپ کے زیر سایہ آباد اور خوش و خرم رہے۔
غرض بادشاہ نے ایک ہوشیار مصاحب کو اس درخت کے پھل کی تلاش میں ہند روانہ کیا۔ وہ بے چارہ مدتوں جنگل جنگل ‘صحرا صحرا مارا مارا پھرتا رہا ‘ لیکن گوہر مقصود ہاتھ نہ آیا۔ جس کسی سے ایسے درخت اور پھل کا پتا پوچھتا ‘وہ ہنسی اڑاتا کہ میاں‘ سودائی ہوئے ہو؟ ایسا درخت کہاں؟ کسی نے اچھی ہوائی چھوڑی ہے۔ کیوں در بدر خاک بسر ہوتے پھر رہے ہو؟ ٹھنڈے ٹھنڈے جدھر سے آئے ہو اُدھر کو لوٹ جائو۔ وہ شخص اسی طرح نت نئی باتیں سنتا اور اپنی ہنسی اُڑواتا رہا‘ لیکن تھا دُھن کا پکا۔ ارادے میں خم نہ آنے دیا اوربرابر کوہ و دشت کی خاک چھانتا رہا۔
جب برسہا برس گزر گئے‘ پورے ہندوستان کے گوشے گوشے ‘چپے چپے میں پھر چکا اور بقائے دوام کے شجر کا کہیں نشان نہ ملا‘ تب مایوس ہو کر اپنے وطن کی طرف واپس چلا ۔ اس قدر محنت اور تکلیف ضائع جانے سے رنج و غم کی کوئی انتہا نہ تھی۔ بدقسمتی پر آنسو بہاتا اور یہ سوچتا جاتا تھا کہ بادشاہ کو کیا منہ دکھائے گا کہ یکایک معلوم ہوا کہ اس راہ میں ایک آدمی کہ ولی اللہ اور قطبِ وقت مشہور ہے‘ قیام پذیر ہے۔ اس نے سوچا چلو‘ اسی بلند مرتبہ شیخ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی مشکل بیان کروں۔ ممکن ہے شیخ کی نگہ التفات سے بگڑا کام بن جائے اورمایوسی راحت میں بدلے۔ یہ سوچ کرچشم برآب لے کر شیخ کے پاس حاضر ہوا اور اس کی نورانی صورت دیکھتے ہی اپنے آپ پر اختیار نہ رہا۔ ضبط کا دامن ہاتھ سے نکل گیا اور روتا ہوا اس کے قدموں میں جاگرا۔ اس قدر آنسو بہائے کہ شیخ کے پیروں کو بھگو دیا۔
شیخ نے اٹھا کرشفقت سے گلے لگایا اورپوچھا ''کیا بات ہے؟ اس قدر آشفتہ سری اور پریشانی کا سبب کیا ہے؟ تفصیل سے بیان کرو۔‘‘
اس نے عرض کیا ''حضرت‘ کیا کہوں‘ جس کام کے لیے برسوں پہلے وطن سے نکلا تھا وہ کام نہیں ہوا۔ اب سوچتا ہوں واپس جاکر بادشاہ کو کیا جواب دوں گا۔ اس کے عتاب کا نشانہ بننے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ آپ میرے حق میں اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ وہ مجھ پر رحم کرے۔ بادشاہ کے حکم سے بقائے دوام کے شجر کی تلاش میں یہاں آیا تھا۔ کہتے ہیں اس کا پھل کوئی کھا لے تو حیات جاوداں مل جاتی ہے۔ میں نے اس کی جستجو میں اس ملک کا چپا چپا چھان مارا‘ مگر ناکامی اور مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا۔‘‘
یہ سن کر وہ شیخ کامل ہنس پڑا۔ پھر ارشاد فرمایا ''سبحان اللہ! بھائی‘ تو نے بھی سادہ لوحی کی حد قائم کر دی ہے۔ ارے اتنا وقت خواہ مخواہ ضائع کیا۔ پہلے ہی میرے پاس چلاآتا اور معلوم کر لیتا۔ اب گوشِ ہوش سے سن کہ وہ شجر علم ہے جس کا پھل ہمیشہ کی زندگی کا اثر رکھتا ہے۔ تو اور تیرا بادشاہ درخت کی ظاہری صورت سے بدگمانی میں مبتلا ہوگئے‘ اس لیے شاخِ معنی ہاتھ نہ آئی۔ اس کے نام بے شمار ہیں۔ کہیں مہر عالم تاب‘ کہیں بحر بے کراں‘ کبھی درخت‘ کبھی بادل۔ انہی ہزار صفات میں سے اس کی ایک صفت بقائے دوام بھی ہے۔ اے عزیز! صورت کے پیچھے مت بھاگ‘ سیرت دیکھ۔ ظاہر پر نہ جا‘ باطن پر دھیان دے۔ الفاظ پر غور نہ کر‘ معنی کے اندر غوطہ لگا۔ ظاہری صورت کی مثال چھلکے کی سی ہے اور معنی اس چھلکے کے اندر چھپا ہوا گودا ہے۔ صفت پر نظر رکھ تاکہ تجھے ذات کی جانب لے جائے۔ یہ نام ہی کا جھگڑا ہے جس نے مخلوق کے اندر اختلاف کی گرہیں ڈال دی ہیں۔ جہاں معنی پر نگاہ گئی‘ اختلاف ختم ہوا۔
Hikayat-e-Rumi (R.A) , Hamesha Jawan Rakhne Wala Phal