I
intelligent086
Guest
حکایت سعدیؒ ۔۔۔۔۔ اپنی جان عزیز
ایک دفعہ حسب معمول بیربل اور شہنشاہ باتیں کر رہے تھے ۔شہنشاہ نے فرمایا :''بیربل! وہ کیا ہے جو زیادہ عزیزہے ہر ذی روح کو۔‘‘
بیربل نے عرض کیا:''عالی جاہ! زندگی بہت پیاری ہے ہر ایک انسان اور دوسرے جاندارکو۔‘‘
شہنشاہ نے فرمایا :''کیا تم اسے ثابت کر سکتے ہو؟‘‘
بیربل نے عرض کیا:''ہاں میں ثابت کر سکتاہوں۔‘‘
چند دنوں بعد بیربل ایک بندر کا چھوٹا بچہ اس کی ماں کے ساتھ دربار میں لایا۔ محل کے باغ کے درمیان میں ایک بڑا تالاب تھا۔ بیربل نے نوکروں کو یہ تالاب خالی کرنے کاحکم دیا۔ اس نے تالاب کے درمیان میں ایک بڑا پول نصب کرنے کے لیے کہا۔ اس کے بعد اس نے بندر اور اس کے بچے کو تالاب میں چھوڑ دیا۔ اور اس کے بعد نوکروں کو تالاب کو آہستہ سے پانی سے بھر دینے کے لیے کہا۔ شہنشاہ اس سارے عمل کوبڑے شوق اور دلچسپی سے دیکھ رہا تھا۔ جونہی تالاب میں پانی کی سطح بلند ہونی شروع ہوئی تو بندریا پول پر چڑھ گئی اپنے بچے کے ساتھ جو کہ اس کے جسم کے ساتھ چمٹا ہوا تھا۔آخر کار پانی کی سطح اتنی بلندہو گئی کہ یہ بندریا کی چھاتی تک پہنچ گئی تو بندریانے اپنے بچے کو اپنے ہاتھوں میں اوپر اٹھا لیا اور حفاظت کی خاطر پول کے اوپر کھڑی ہو گئی۔ شہنشاہ نے یہ سب کچھ مشاہدہ کیااور بلند آواز سے فرمایا :''دیکھو بیربل ! وہ کس طرح اپنے بچے کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس کا بچہ اس کی اپنی زندگی سے بھی زیادہ عزیز ہے۔‘‘
اسی دوران پانی کی سطح اس کی گردن تک پہنچ گئی۔ پانی نے اس کے ناک اورکانوں میں جانا شروع کر دیا۔ یہ ظاہر ہوا گویا کہ وہ ڈوب جائے گی۔بندریا نے تھوڑی دیر بعد اردگرد دیکھا پھر وہ اپنے بچے کو اپنے پائوں تلے دبا کر اس کے اوپر کھڑی ہوگئی اور پانی سے باہر نکلنے کی کوشش کرنے لگی۔ بیربل نے کہا ''اب دیکھئے عالی جاہ! اپنی جان بچانے کے لیے وہ اپنے بچے کی جان کی بھی پرواہ نہیں کر رہی۔ اس نے اپنے بچے کو پائوں کے نیچے دے دیا اور اپنی جان بچائی۔ کیا یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ہر ایک کو سب سے عزیزاپنی جان ہے۔شہنشاہ کو بڑا صدمہ سا پہنچا اور وہ کچھ بھی تبصرہ نہ کر سکا یا کہہ نہ سکا۔ اس نے آرام سے کہا :''بیربل! زندگی تمام کو سب سے عزیز ہے۔‘‘
بیربل مسکرا دیا اور نوکروں کو تالاب سے پانی نکالنے کا حکم دے دیا تاکہ بندریا اور اس کے بچے کو بچایا جا سکے۔
ایک دفعہ حسب معمول بیربل اور شہنشاہ باتیں کر رہے تھے ۔شہنشاہ نے فرمایا :''بیربل! وہ کیا ہے جو زیادہ عزیزہے ہر ذی روح کو۔‘‘
بیربل نے عرض کیا:''عالی جاہ! زندگی بہت پیاری ہے ہر ایک انسان اور دوسرے جاندارکو۔‘‘
شہنشاہ نے فرمایا :''کیا تم اسے ثابت کر سکتے ہو؟‘‘
بیربل نے عرض کیا:''ہاں میں ثابت کر سکتاہوں۔‘‘
چند دنوں بعد بیربل ایک بندر کا چھوٹا بچہ اس کی ماں کے ساتھ دربار میں لایا۔ محل کے باغ کے درمیان میں ایک بڑا تالاب تھا۔ بیربل نے نوکروں کو یہ تالاب خالی کرنے کاحکم دیا۔ اس نے تالاب کے درمیان میں ایک بڑا پول نصب کرنے کے لیے کہا۔ اس کے بعد اس نے بندر اور اس کے بچے کو تالاب میں چھوڑ دیا۔ اور اس کے بعد نوکروں کو تالاب کو آہستہ سے پانی سے بھر دینے کے لیے کہا۔ شہنشاہ اس سارے عمل کوبڑے شوق اور دلچسپی سے دیکھ رہا تھا۔ جونہی تالاب میں پانی کی سطح بلند ہونی شروع ہوئی تو بندریا پول پر چڑھ گئی اپنے بچے کے ساتھ جو کہ اس کے جسم کے ساتھ چمٹا ہوا تھا۔آخر کار پانی کی سطح اتنی بلندہو گئی کہ یہ بندریا کی چھاتی تک پہنچ گئی تو بندریانے اپنے بچے کو اپنے ہاتھوں میں اوپر اٹھا لیا اور حفاظت کی خاطر پول کے اوپر کھڑی ہو گئی۔ شہنشاہ نے یہ سب کچھ مشاہدہ کیااور بلند آواز سے فرمایا :''دیکھو بیربل ! وہ کس طرح اپنے بچے کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس کا بچہ اس کی اپنی زندگی سے بھی زیادہ عزیز ہے۔‘‘
اسی دوران پانی کی سطح اس کی گردن تک پہنچ گئی۔ پانی نے اس کے ناک اورکانوں میں جانا شروع کر دیا۔ یہ ظاہر ہوا گویا کہ وہ ڈوب جائے گی۔بندریا نے تھوڑی دیر بعد اردگرد دیکھا پھر وہ اپنے بچے کو اپنے پائوں تلے دبا کر اس کے اوپر کھڑی ہوگئی اور پانی سے باہر نکلنے کی کوشش کرنے لگی۔ بیربل نے کہا ''اب دیکھئے عالی جاہ! اپنی جان بچانے کے لیے وہ اپنے بچے کی جان کی بھی پرواہ نہیں کر رہی۔ اس نے اپنے بچے کو پائوں کے نیچے دے دیا اور اپنی جان بچائی۔ کیا یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ہر ایک کو سب سے عزیزاپنی جان ہے۔شہنشاہ کو بڑا صدمہ سا پہنچا اور وہ کچھ بھی تبصرہ نہ کر سکا یا کہہ نہ سکا۔ اس نے آرام سے کہا :''بیربل! زندگی تمام کو سب سے عزیز ہے۔‘‘
بیربل مسکرا دیا اور نوکروں کو تالاب سے پانی نکالنے کا حکم دے دیا تاکہ بندریا اور اس کے بچے کو بچایا جا سکے۔