I
intelligent086
Guest
حکایت سعدیؒ ۔۔۔۔۔۔۔ بد دیانت سوداگر
دہلی شہر میں دو سوداگررہتے تھے۔ ان کا گھی کا کاروبار تھا،اور دکانیں بھی ایک دوسرے کے نزدیک تھیں۔
ایک سوداگرکو ضرورت پڑی تو اس نے دوسرے سے ایک ہزار سونے کے سکے بطور قرض لے لیے۔لیکن ادائیگی کا وقت آنے پر قرض واپس کرنے سے انکار کر دیا۔ دوسرا سوداگر اکبر بادشاہ کے دربار میں چلا گیا اور شکایت درج کروائی۔ اکبر شہنشاہ نے اس مقدمے کو بیربل کے حوالے کر دیا۔ بیر بل نے دونوں سوداگروں کے بیانات قلمبند کیے۔
مدعی نے کہا :'' اس سوداگر نے مجھ سے ایک ہزار سونے کے سکے بطور قرض لیے تھے۔ اب وہ واپس کرنے سے انکاری ہے۔‘‘
دوسرے سوداگر نے کہا :''نہیں جناب، یہ جھوٹ بولتا ہے۔ مجھ سے حاسد ہے، اس لیے مجھے جھوٹے مقدمے میں ملوث کرنا چاہتا ہے۔‘‘
بیربل نے دونوں سوداگروں کو دس دن کے بعد عدالت میں مقدمے میں انصاف کے لیے آنے کو کہا۔ پھر بیربل نے دس کنستروں کا آرڈر دیا، ہر کنسترمیں بیس سیر گھی بھروایا ۔ ان کنستروں میں سے صرف دو میں اس نے ایک ایک سنہری سکہ رکھ دیا۔ اس کے بعد شہر کے گھی کے سوداگروں کو بلایا۔ وہ دو سوداگر بھی آئے۔ اس نے ہر ایک کو گھی کا کنستر دیا اور کہا :
''ہر کنستر میں بیس سیر گھی ہے۔ گھر لے جائیے اور گھی کی کوالٹی کا محتاط انداز میں معائنہ کرتے ہوئے قیمت کا تعین کریں۔‘‘
اس نے دانستہ طور پر سنہری سکوں والے کنٹینر مدعی اور مدعاالیہ کو دیے۔
تمام سوداگر گھی اپنے اپنے گھر لے گئے۔ انہوں نے مختلف طریقوں سے گھی کا جائزہ لیا اور مارکیٹ کی قیمت کا تعین کیا۔ دونوں سوداگروں نے اپنے اپنے ٹین میں سنہری سکے بھی پائے۔ جس سوداگر نے عدالت میں اپیل کی تھی وہ ایماندار تھا۔ اس نے بیربل کو سنہری سکہ واپس کر دیا۔ مگر دوسرے سوداگر نے کنستر سے سنہری سکہ نکال کر اپنے بیٹے کو دے دیا۔
مقررہ دن سوداگر شہنشاہ کی عدالت میں اپنے گھی کے کنستروں کے ساتھ آئے۔ بیربل نے بڑی احتیاط سے مدعا الیہ کے کنستر کو دیکھا۔ اس کو پتہ چلا کہ گھی کی کوالٹی کم کر دی گئی ہے۔ جب اس نے اس کے بارے میں تحقیق کی تو مدعا الیہ سوداگر نے کہا کہ:
''مہاراج! گرمی کی وجہ سے گھی کی کوالٹی کم ہو گئی ہے۔‘‘ ''کیا ایسا ہے؟ پھر اس معاملے میں۔ میں دوسرے گھی کے کنستروں کی پڑتال کروں گا۔‘‘
بیربل نے جواب دیا۔بیربل اندر گیا اور اپنے نوکروں سے کہا :''تم مدعا الیہ کے گھر جائو اور اس کے بیٹے کو اس سنہری سکے کے ساتھ عدالت میں آنے کے لیے کہوجو اس کے باپ نے گھی کے کنستر سے حاصل کیا تھا۔ جلد ہی مدعا الیہ تاجر کا بیٹا سنہری سکے کے ساتھ عدالت میں آگیا۔ بیربل نے اس سے دریافت کیا:'' گھی کے کنستر سے نکلنے والے سونے کے دوسرے پانچ سکے کہاں ہیں؟‘‘
اس نے جواب دیا:''ہمیں کنستر سے صرف ایک ہی سونے کا سکہ دستیاب ہوا تھا، پانچ نہیں تھے۔‘‘
اس کی بات سنتے ہی بیربل مدعا الیہ تاجر کی طرف مڑا اور کہا:''اگر تم مجھے ایک سونے کے سکے کے لیے دھوکہ دے سکتے ہوتو یہ بھی عین ممکن ہے کہ تم نے مدعی کو بھی دھوکہ دیا ہو گا؟‘‘
''اس سلسلے میں آپ لوگوں کا کیا خیال ہے؟۔‘‘
بیربل سمجھ گیا تھا کہ چور وہی ہے، وہ جھوٹا بھی ہے اور دوسرے تاجر کے ایک ہزار سکے بھی اسی نے ہڑپ کئے ہیں۔بیربل کے دلائل کے سننے بعد جھوٹے آدمی کے پاس سوائے اپنا جرم تسلیم کرنے کے ،کوئی چارہ نہ تھا۔ اس نے بیربل کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے اور معافی طلب کی، مدعی کو ایک ہزار سونے کے سکے لوٹا دئیے اور کنستر سے چوری کیا گیا ایک سنہری سکہ بھی بیربل کو ادا کر دیا۔
دہلی شہر میں دو سوداگررہتے تھے۔ ان کا گھی کا کاروبار تھا،اور دکانیں بھی ایک دوسرے کے نزدیک تھیں۔
ایک سوداگرکو ضرورت پڑی تو اس نے دوسرے سے ایک ہزار سونے کے سکے بطور قرض لے لیے۔لیکن ادائیگی کا وقت آنے پر قرض واپس کرنے سے انکار کر دیا۔ دوسرا سوداگر اکبر بادشاہ کے دربار میں چلا گیا اور شکایت درج کروائی۔ اکبر شہنشاہ نے اس مقدمے کو بیربل کے حوالے کر دیا۔ بیر بل نے دونوں سوداگروں کے بیانات قلمبند کیے۔
مدعی نے کہا :'' اس سوداگر نے مجھ سے ایک ہزار سونے کے سکے بطور قرض لیے تھے۔ اب وہ واپس کرنے سے انکاری ہے۔‘‘
دوسرے سوداگر نے کہا :''نہیں جناب، یہ جھوٹ بولتا ہے۔ مجھ سے حاسد ہے، اس لیے مجھے جھوٹے مقدمے میں ملوث کرنا چاہتا ہے۔‘‘
بیربل نے دونوں سوداگروں کو دس دن کے بعد عدالت میں مقدمے میں انصاف کے لیے آنے کو کہا۔ پھر بیربل نے دس کنستروں کا آرڈر دیا، ہر کنسترمیں بیس سیر گھی بھروایا ۔ ان کنستروں میں سے صرف دو میں اس نے ایک ایک سنہری سکہ رکھ دیا۔ اس کے بعد شہر کے گھی کے سوداگروں کو بلایا۔ وہ دو سوداگر بھی آئے۔ اس نے ہر ایک کو گھی کا کنستر دیا اور کہا :
''ہر کنستر میں بیس سیر گھی ہے۔ گھر لے جائیے اور گھی کی کوالٹی کا محتاط انداز میں معائنہ کرتے ہوئے قیمت کا تعین کریں۔‘‘
اس نے دانستہ طور پر سنہری سکوں والے کنٹینر مدعی اور مدعاالیہ کو دیے۔
تمام سوداگر گھی اپنے اپنے گھر لے گئے۔ انہوں نے مختلف طریقوں سے گھی کا جائزہ لیا اور مارکیٹ کی قیمت کا تعین کیا۔ دونوں سوداگروں نے اپنے اپنے ٹین میں سنہری سکے بھی پائے۔ جس سوداگر نے عدالت میں اپیل کی تھی وہ ایماندار تھا۔ اس نے بیربل کو سنہری سکہ واپس کر دیا۔ مگر دوسرے سوداگر نے کنستر سے سنہری سکہ نکال کر اپنے بیٹے کو دے دیا۔
مقررہ دن سوداگر شہنشاہ کی عدالت میں اپنے گھی کے کنستروں کے ساتھ آئے۔ بیربل نے بڑی احتیاط سے مدعا الیہ کے کنستر کو دیکھا۔ اس کو پتہ چلا کہ گھی کی کوالٹی کم کر دی گئی ہے۔ جب اس نے اس کے بارے میں تحقیق کی تو مدعا الیہ سوداگر نے کہا کہ:
''مہاراج! گرمی کی وجہ سے گھی کی کوالٹی کم ہو گئی ہے۔‘‘ ''کیا ایسا ہے؟ پھر اس معاملے میں۔ میں دوسرے گھی کے کنستروں کی پڑتال کروں گا۔‘‘
بیربل نے جواب دیا۔بیربل اندر گیا اور اپنے نوکروں سے کہا :''تم مدعا الیہ کے گھر جائو اور اس کے بیٹے کو اس سنہری سکے کے ساتھ عدالت میں آنے کے لیے کہوجو اس کے باپ نے گھی کے کنستر سے حاصل کیا تھا۔ جلد ہی مدعا الیہ تاجر کا بیٹا سنہری سکے کے ساتھ عدالت میں آگیا۔ بیربل نے اس سے دریافت کیا:'' گھی کے کنستر سے نکلنے والے سونے کے دوسرے پانچ سکے کہاں ہیں؟‘‘
اس نے جواب دیا:''ہمیں کنستر سے صرف ایک ہی سونے کا سکہ دستیاب ہوا تھا، پانچ نہیں تھے۔‘‘
اس کی بات سنتے ہی بیربل مدعا الیہ تاجر کی طرف مڑا اور کہا:''اگر تم مجھے ایک سونے کے سکے کے لیے دھوکہ دے سکتے ہوتو یہ بھی عین ممکن ہے کہ تم نے مدعی کو بھی دھوکہ دیا ہو گا؟‘‘
''اس سلسلے میں آپ لوگوں کا کیا خیال ہے؟۔‘‘
بیربل سمجھ گیا تھا کہ چور وہی ہے، وہ جھوٹا بھی ہے اور دوسرے تاجر کے ایک ہزار سکے بھی اسی نے ہڑپ کئے ہیں۔بیربل کے دلائل کے سننے بعد جھوٹے آدمی کے پاس سوائے اپنا جرم تسلیم کرنے کے ،کوئی چارہ نہ تھا۔ اس نے بیربل کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے اور معافی طلب کی، مدعی کو ایک ہزار سونے کے سکے لوٹا دئیے اور کنستر سے چوری کیا گیا ایک سنہری سکہ بھی بیربل کو ادا کر دیا۔