I
intelligent086
Guest
حکایت سعدیؒ ۔۔۔۔۔۔ بیٹے کی خواہش
حضرت سعدیؒ بیان فرماتے ہیں کہ میں دیار بکر (موجودہ ترکی کا ایک شہر) میں ایک امیر آدمی کے گھر مہمان تھا۔ مال و دولت کے علاوہ خدا نے اس شخص کو ایک خوبرو بیٹا بھی دیا تھا۔ ایک رات وہ شخص مجھ سے کہنے لگا کہ سعدیؒ، شاید تمھیں یہ معلوم نہیں ہے کہ میرے گھر یہ بیٹا ایک مدت کی دعاؤں اور تمناؤں کے بعد پیدا ہوا ہے۔ فلاں مقام پر ایک بابرکت درخت ہے۔ لوگ اس درخت کے قریب جا کر دعائیں مانگتے ہیں اور ان کی مرادیں مل جاتی ہیں۔ میں نے اس بابرکت درخت کے پاس جا کر دعا مانگی اور اللہ نے میری مراد پوری کر دی۔
سعدیؒ فرماتے ہیں کہ جس وقت امیر باپ اپنے بیٹے کے بارے میں یہ باتیں کر رہا تھا بیٹا اپنے دوستوں کی محفل میں بیٹھا ہوا یہ کہہ رہا تھا۔ کہ اے کاش !مجھے معلوم ہو جائے کہ وہ بابرکت درخت کس جگہ ہے۔ میں آج ہی وہاں جاؤں اور یہ دعا مانگوں کہ میرا باپ جلد مر جائے تاکہ سارا مال اور جائیداد میرے قبضے میں آئے۔
گزر جاتی ہے مدت تجھ سے اتنا بھی نہیں ہوتا
سمجھ لے تیرا بیٹا بھی یونہی اغماض برتے گا
کہ اپنے باپ کی تربت پہ بہر فاتحہ جائے
یہی قانون قدرت ہے کہ جو بوئے وہی پائے
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں انسانی زندگی کے ایک المیے کے طرف اشارہ کیا ہے کہ جس اولاد کے لیے انسان اتنے پاپڑ بیلتا ہے اور رنگارنگ تمنائیں سینے میں بساتا ہے وہ اس کی ذات کے مقابلے میں اس کے مال کو زیادہ عزیز رکھتی ہے اور بالعموم یہ تمنا کرتی ہے کہ بڑے میاں کل کی جگہ آج ہی دنیا سے چلے جائیں تاکہ اسے کھل کھیلنے کا موقع ملے۔ اس حکایت میں اولاد کے لیے یہ سبق ہے کہ آج جیسا سلوک وہ اپنے ماں باپ سے کر رہے ہیں، کل ویساہی سلوک ان کی اولاد ان کے ساتھ کرے گی۔
حضرت سعدیؒ بیان فرماتے ہیں کہ میں دیار بکر (موجودہ ترکی کا ایک شہر) میں ایک امیر آدمی کے گھر مہمان تھا۔ مال و دولت کے علاوہ خدا نے اس شخص کو ایک خوبرو بیٹا بھی دیا تھا۔ ایک رات وہ شخص مجھ سے کہنے لگا کہ سعدیؒ، شاید تمھیں یہ معلوم نہیں ہے کہ میرے گھر یہ بیٹا ایک مدت کی دعاؤں اور تمناؤں کے بعد پیدا ہوا ہے۔ فلاں مقام پر ایک بابرکت درخت ہے۔ لوگ اس درخت کے قریب جا کر دعائیں مانگتے ہیں اور ان کی مرادیں مل جاتی ہیں۔ میں نے اس بابرکت درخت کے پاس جا کر دعا مانگی اور اللہ نے میری مراد پوری کر دی۔
سعدیؒ فرماتے ہیں کہ جس وقت امیر باپ اپنے بیٹے کے بارے میں یہ باتیں کر رہا تھا بیٹا اپنے دوستوں کی محفل میں بیٹھا ہوا یہ کہہ رہا تھا۔ کہ اے کاش !مجھے معلوم ہو جائے کہ وہ بابرکت درخت کس جگہ ہے۔ میں آج ہی وہاں جاؤں اور یہ دعا مانگوں کہ میرا باپ جلد مر جائے تاکہ سارا مال اور جائیداد میرے قبضے میں آئے۔
گزر جاتی ہے مدت تجھ سے اتنا بھی نہیں ہوتا
سمجھ لے تیرا بیٹا بھی یونہی اغماض برتے گا
کہ اپنے باپ کی تربت پہ بہر فاتحہ جائے
یہی قانون قدرت ہے کہ جو بوئے وہی پائے
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں انسانی زندگی کے ایک المیے کے طرف اشارہ کیا ہے کہ جس اولاد کے لیے انسان اتنے پاپڑ بیلتا ہے اور رنگارنگ تمنائیں سینے میں بساتا ہے وہ اس کی ذات کے مقابلے میں اس کے مال کو زیادہ عزیز رکھتی ہے اور بالعموم یہ تمنا کرتی ہے کہ بڑے میاں کل کی جگہ آج ہی دنیا سے چلے جائیں تاکہ اسے کھل کھیلنے کا موقع ملے۔ اس حکایت میں اولاد کے لیے یہ سبق ہے کہ آج جیسا سلوک وہ اپنے ماں باپ سے کر رہے ہیں، کل ویساہی سلوک ان کی اولاد ان کے ساتھ کرے گی۔
Hikayat e Saadi (R.A) , Bete Ki Khuwahish