I
intelligent086
Guest
حکایت سعدیؒ ۔۔۔۔۔ حاضر دماغی
بیان کیا جاتا ہے کہ ایران کے ایک بادشاہ کا غلام موقع پاکر بھاگ گیا لیکن لوگوں کو فوراً ہی معلوم ہو گیا اور وہ اسے گرفتار کر کے لے آئے۔
بادشاہ کا ایک وزیر کسی وجہ سے اس غلام سے بہت ناراض تھا۔ غلام کے بھاگنے اور گرفتار ہو کر آنے کا حال معلوم ہوا تو اس وزیر نے بادشاہ کو مشورہ دیا کہ اس گستاخ غلام کو فوراً قتل کرا دینا چاہیے۔ اگر اسے سخت سزا نہ دی گئی تو دوسرے غلاموں کا حوصلہ بڑھے گا اور وہ بھاگنا شروع کر دیں گے۔
غلام نے وزیر کی یہ بات سنی تو سمجھ گیا کہ یہ ظالم دشمنی کی وجہ سے مجھے قتل کرانا چاہتا ہے۔ اس نے بہت ادب سے کہا کہ یہ غلام حضور بادشاہ سلامت کا نمک خوار ہے۔ بے شک مجھ سے ایک گناہ ہوا ہے لیکن میرے دل سے حضور کی خیر خواہی اور محبت کم نہیں ہوئی اور محبت اور خیر خواہی کی وجہ سے یہ عرض کرنے پر مجبور ہوں کہ مجھے قتل کرا کے حضور میرا خون ناحق اپنی گردن پر نہ لیں۔ ایسا نہ ہو کہ جب قیامت کے دن میرے قتل کے بارے میں پوچھا جائے تو حضور جواب نہ دے سکیں۔ اگر مجھے قتل ہی کرانا چاہتے ہیں تو پہلے اس کا جواز پیدا کر لیں۔
بادشاہ نے سوال کیا، وہ کیسے ہوسکتا ہے؟ غلام فوراً بولا کہ حضور اجازت دیں تو میں اس وزیر کو قتل کر دوں اور پھر اس گناہ میں حضور مجھے قتل کر دیں۔ غلام کی یہ بات سن کر بادشاہ کو ہنسی آ گئی۔ اس نے وزیر کی طرف دیکھ کر کہا۔ بتا اب تیرا کیا مشورہ ہے؟
وزیر خوف سے کانپتے ہوئے بولا، حضور اس فتنے کو اپنے بزرگوں کے صدقے آزاد ہی کر دیں تو اچھا ہے۔ ایسا نہ ہو یہ سچ مچ مجھے کسی آفت میں پھنسا دے، قصور میرا ہے کہ میں نے عقلمندوں کی یہ بات یاد نہ رکھی۔
گو حقیر آئے نظر پھر بھی حقیر اس کو نہ جان
اپنے دشمن کی طرف ہاتھ بڑھانے والے
تیرے دشمن کے نشانے پہ بھی ہے تیرا سر
خوب یہ بات سمجھ تیر چلانے والے
اس حکایت میں حضرت سعدیؒ نے جرأت اور ہوشمندی کی برکات اور فوائد کی طرف اشارہ کیا ہے اور حاسدوں اور دوسروں کا برا چاہنے والوں کو ان کے انجام سے ڈرایا ہے۔ غلام نے انتہائی خوف کی حالت میں بھی حواس بحال ر کھے تو ایک بڑی مصیبت سر سے ٹل گئی اور وزیر نے اس کا برا چاہا تو ایسا بلند مرتبہ رکھتے ہوئے بھی ذلیل ہو گیا۔
بیان کیا جاتا ہے کہ ایران کے ایک بادشاہ کا غلام موقع پاکر بھاگ گیا لیکن لوگوں کو فوراً ہی معلوم ہو گیا اور وہ اسے گرفتار کر کے لے آئے۔
بادشاہ کا ایک وزیر کسی وجہ سے اس غلام سے بہت ناراض تھا۔ غلام کے بھاگنے اور گرفتار ہو کر آنے کا حال معلوم ہوا تو اس وزیر نے بادشاہ کو مشورہ دیا کہ اس گستاخ غلام کو فوراً قتل کرا دینا چاہیے۔ اگر اسے سخت سزا نہ دی گئی تو دوسرے غلاموں کا حوصلہ بڑھے گا اور وہ بھاگنا شروع کر دیں گے۔
غلام نے وزیر کی یہ بات سنی تو سمجھ گیا کہ یہ ظالم دشمنی کی وجہ سے مجھے قتل کرانا چاہتا ہے۔ اس نے بہت ادب سے کہا کہ یہ غلام حضور بادشاہ سلامت کا نمک خوار ہے۔ بے شک مجھ سے ایک گناہ ہوا ہے لیکن میرے دل سے حضور کی خیر خواہی اور محبت کم نہیں ہوئی اور محبت اور خیر خواہی کی وجہ سے یہ عرض کرنے پر مجبور ہوں کہ مجھے قتل کرا کے حضور میرا خون ناحق اپنی گردن پر نہ لیں۔ ایسا نہ ہو کہ جب قیامت کے دن میرے قتل کے بارے میں پوچھا جائے تو حضور جواب نہ دے سکیں۔ اگر مجھے قتل ہی کرانا چاہتے ہیں تو پہلے اس کا جواز پیدا کر لیں۔
بادشاہ نے سوال کیا، وہ کیسے ہوسکتا ہے؟ غلام فوراً بولا کہ حضور اجازت دیں تو میں اس وزیر کو قتل کر دوں اور پھر اس گناہ میں حضور مجھے قتل کر دیں۔ غلام کی یہ بات سن کر بادشاہ کو ہنسی آ گئی۔ اس نے وزیر کی طرف دیکھ کر کہا۔ بتا اب تیرا کیا مشورہ ہے؟
وزیر خوف سے کانپتے ہوئے بولا، حضور اس فتنے کو اپنے بزرگوں کے صدقے آزاد ہی کر دیں تو اچھا ہے۔ ایسا نہ ہو یہ سچ مچ مجھے کسی آفت میں پھنسا دے، قصور میرا ہے کہ میں نے عقلمندوں کی یہ بات یاد نہ رکھی۔
گو حقیر آئے نظر پھر بھی حقیر اس کو نہ جان
اپنے دشمن کی طرف ہاتھ بڑھانے والے
تیرے دشمن کے نشانے پہ بھی ہے تیرا سر
خوب یہ بات سمجھ تیر چلانے والے
اس حکایت میں حضرت سعدیؒ نے جرأت اور ہوشمندی کی برکات اور فوائد کی طرف اشارہ کیا ہے اور حاسدوں اور دوسروں کا برا چاہنے والوں کو ان کے انجام سے ڈرایا ہے۔ غلام نے انتہائی خوف کی حالت میں بھی حواس بحال ر کھے تو ایک بڑی مصیبت سر سے ٹل گئی اور وزیر نے اس کا برا چاہا تو ایسا بلند مرتبہ رکھتے ہوئے بھی ذلیل ہو گیا۔
Hikayat e Saadi (R.A) , Hazir Dimaghi