I
intelligent086
Guest
حکایت سعدیؒ ۔۔۔۔۔ حسنِ تدبیر
جعفر بن یحییٰ اور (سابق) گورنر مصر کے درمیان عداوت تھی۔ دونوں ایک دوسرے سے بے تعلق سے رہتے تھے۔ ایک شخص نے اسی گورنر مصر کے نام جعفر بن یحییٰ کی طرف سے ایک جعلی خط لکھا جس کا مضمون یہ تھا کہ : ''حامل رقعہ ہذا میرا خاص آدمی ہے۔ یہ دیار مصر کی سیروتفریح کے لئے جارہا ہے، میں چاہتا ہوں آپ اس پر نظر کرم رکھیں‘‘۔ یہ مضمون خوب زوردار الفاظ میں لکھا اور مصر روانہ ہوگیا۔ وہاں پہنچ کر خط والی مصر کے حوالے کردیا۔ والی مصر کو خط پڑھ کر تعجب بھی ہوا اور خوشی بھی۔ مگر خط کے اصلی ہونے میں اسے شک گزرا۔ اس لئے نامہ بر کو بڑے اعزاز کے ساتھ ایک اچھے گھر میں ٹھہرایا اور آرام کا ہرسامان مہیا کردیا ۔ پھر اس سے خط لے کر اپنے ایک وکیل کے پاس بغداد میں بھیجا اور کہلا بھیجا۔ کہ : '' وزیر (جعفر) کا ایک آدمی یہ خط لے کر آیا ہے۔ مجھے اس کے جعلی ہونے کا شبہ ہے۔ تم تحقیق کرکے بتائو کہ آیا یہ خط واقعی وزیر کا ہے یا نہیں ؟‘‘والی مصر نے اپنے خط کے ساتھ وزیر کا خط بھی اپنے بغدادی ایجنٹ کے پاس بھیج دیا۔ یہ ایجنٹ وزیر (جعفر) کے پاس گیا ، واقعہ بیان کرکے خط دکھایا۔ اس وقت بہت سے ہم نشین اور نائبین بھی وہاںبیٹھے تھے۔ جعفر نے ان کی طرف خط پھینکتے ہوئے پوچھا کہ : ''کیا یہ میرا خط ہوسکتا ہے؟ ‘‘ غور کرنے کے بعد سب نے اس کے اصلی ہونے سے انکار کردیا اور برملا کہہ دیا کہ یہ جعلی ہے۔ اس نے سب لوگوں کو صورت حال سے آگاہ کردیا۔
ادھر جعلی خط تیار کرنے والا مصر میں حکمران کے جواب کا منتظر بیٹھا تھا ، حقیقت معلوم کرنے کے لئے بیتاب تھا۔ جعفر نے اپنے ہم نشینوں سے پوچھا کہ : تمہاری کیا رائے ہے اور اس معاملے میں ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ کسی نے کہا کہ: ایسے شخص کو قتل کردینا چاہیے۔ تاکہ آئندہ کوئی شخص اس قسم کی حرکت کرنے کی ہمت نہ کرسکے۔ ایک دوسرا بولا: اس جعلساز نے اپنے جس ہاتھ سے یہ خط لکھا ہے اسے کاٹ دینا چاہیے۔ جس نے سب سے بہتر جواب دیا وہ یہ تھا کہ : اس کی اتنی سزا کافی ہے کہ اسے محرومی ونامرادی حاصل ہوجائے۔ یعنی مصر کے حکمران کو صحیح صورت حال سے آگاہ کردیا جائے تاکہ وہ بھی اسے محروم کردے۔ بس اس کے لئے یہی سزا کافی ہے کہ وہ بغداد سے مصر جائے اور وہاں سے نامراد واپس آجائے۔ جب سب اپنی اپنی کہہ چکے تو جعفر نے کہا : سبحان اللہ ! کیا تم میں کوئی صاحب فہم آدمی نہیں ہے؟ تم جانتے ہو کہ میرے اور مصرکے حکمران کے درمیان عداوت وبے تعلقی ہے اور صلح کا دروازہ کھولنے سے ہم دونوں کو جو چیز روک رہی ہے وہ محض نفسانیت کا پاس ہے۔ اب اللہ نے ہم دونوں کے لئے ایک ایسے آدمی کو پیدا کردیا ہے جس نے دونوں کے درمیان مصالحت اور مراسلت کا دروازہ کھول دیا ہے اور ہماری باہمی عداوتوں کو زائل کردیا ہے۔ بھلا بتائو ایسے شخص کے ساتھ وہ بدسلوکیاں کیسے کی جاسکتی ہیں جن کا تم لوگوں نے ابھی ذکر کیا ہے۔
اس کے بعد جعفر نے قلم اٹھایا اور اسی خط کی پشت پر والیٔ مصر کو جواب دیا کہ : سبحان اللہ! آپ کو میرے خط میں شک کیسے پیدا ہوا؟ یہ میرے ہاتھ کا خط ہے ، اور یہ آدمی میرا عزیز ترین دوست ہے۔ میری خواہش ہے کہ آپ اس کے ساتھ بہترین سلوک کریں اور اسے میرے پاس جلد واپس کردیں۔ میں اس کے لئے بے چین ہوں ، اس کی واپسی کی مجھے ضرورت بھی ہے ۔ جب یہ جواب مصر پہنچا تو والیٔ مصر خوشی سے اچھل پڑا۔ اس شخص کے ساتھ بہترین سلوک کیا اور اسے بڑی رقم اور اعلیٰ تحفے دیئے۔
یہ شخص پوری خوش حالی کے ساتھ بغداد واپس آگیا۔ جعفر کے دربار میں حاضر ہوا۔ سلام کیا اور فرش کو چوم کر رونے لگا۔ جعفر نے پوچھا کہ : تم کون ہو بھائی؟ اس نے کہا کہ : آقائے من ! میں آپ کا پروردہ غلام ہوں۔ جعل ساز، جھوٹا اور بے جا جرأت کرنے والا ہوں۔ جعفر نے اسے پہچان لیا اور بڑی بشاشت کے ساتھ اسے اپنے سامنے بٹھا کر خیریت پوچھی۔ پھر دریافت کیا کہ : تمہیں وہاں سے کیا کچھ ملا ؟ اس نے کہا :ایک لاکھ دینار ۔ جعفر نے کہا : یہ تو بہت کم ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ اسے دوگنا کردیں۔ پھر اسے ایک عرصے تک اپنے ساتھ رکھا اور اس نے اتنا ہی دوسرے موقع پر بھی حاصل کیا ۔
جعفر بن یحییٰ اور (سابق) گورنر مصر کے درمیان عداوت تھی۔ دونوں ایک دوسرے سے بے تعلق سے رہتے تھے۔ ایک شخص نے اسی گورنر مصر کے نام جعفر بن یحییٰ کی طرف سے ایک جعلی خط لکھا جس کا مضمون یہ تھا کہ : ''حامل رقعہ ہذا میرا خاص آدمی ہے۔ یہ دیار مصر کی سیروتفریح کے لئے جارہا ہے، میں چاہتا ہوں آپ اس پر نظر کرم رکھیں‘‘۔ یہ مضمون خوب زوردار الفاظ میں لکھا اور مصر روانہ ہوگیا۔ وہاں پہنچ کر خط والی مصر کے حوالے کردیا۔ والی مصر کو خط پڑھ کر تعجب بھی ہوا اور خوشی بھی۔ مگر خط کے اصلی ہونے میں اسے شک گزرا۔ اس لئے نامہ بر کو بڑے اعزاز کے ساتھ ایک اچھے گھر میں ٹھہرایا اور آرام کا ہرسامان مہیا کردیا ۔ پھر اس سے خط لے کر اپنے ایک وکیل کے پاس بغداد میں بھیجا اور کہلا بھیجا۔ کہ : '' وزیر (جعفر) کا ایک آدمی یہ خط لے کر آیا ہے۔ مجھے اس کے جعلی ہونے کا شبہ ہے۔ تم تحقیق کرکے بتائو کہ آیا یہ خط واقعی وزیر کا ہے یا نہیں ؟‘‘والی مصر نے اپنے خط کے ساتھ وزیر کا خط بھی اپنے بغدادی ایجنٹ کے پاس بھیج دیا۔ یہ ایجنٹ وزیر (جعفر) کے پاس گیا ، واقعہ بیان کرکے خط دکھایا۔ اس وقت بہت سے ہم نشین اور نائبین بھی وہاںبیٹھے تھے۔ جعفر نے ان کی طرف خط پھینکتے ہوئے پوچھا کہ : ''کیا یہ میرا خط ہوسکتا ہے؟ ‘‘ غور کرنے کے بعد سب نے اس کے اصلی ہونے سے انکار کردیا اور برملا کہہ دیا کہ یہ جعلی ہے۔ اس نے سب لوگوں کو صورت حال سے آگاہ کردیا۔
ادھر جعلی خط تیار کرنے والا مصر میں حکمران کے جواب کا منتظر بیٹھا تھا ، حقیقت معلوم کرنے کے لئے بیتاب تھا۔ جعفر نے اپنے ہم نشینوں سے پوچھا کہ : تمہاری کیا رائے ہے اور اس معاملے میں ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ کسی نے کہا کہ: ایسے شخص کو قتل کردینا چاہیے۔ تاکہ آئندہ کوئی شخص اس قسم کی حرکت کرنے کی ہمت نہ کرسکے۔ ایک دوسرا بولا: اس جعلساز نے اپنے جس ہاتھ سے یہ خط لکھا ہے اسے کاٹ دینا چاہیے۔ جس نے سب سے بہتر جواب دیا وہ یہ تھا کہ : اس کی اتنی سزا کافی ہے کہ اسے محرومی ونامرادی حاصل ہوجائے۔ یعنی مصر کے حکمران کو صحیح صورت حال سے آگاہ کردیا جائے تاکہ وہ بھی اسے محروم کردے۔ بس اس کے لئے یہی سزا کافی ہے کہ وہ بغداد سے مصر جائے اور وہاں سے نامراد واپس آجائے۔ جب سب اپنی اپنی کہہ چکے تو جعفر نے کہا : سبحان اللہ ! کیا تم میں کوئی صاحب فہم آدمی نہیں ہے؟ تم جانتے ہو کہ میرے اور مصرکے حکمران کے درمیان عداوت وبے تعلقی ہے اور صلح کا دروازہ کھولنے سے ہم دونوں کو جو چیز روک رہی ہے وہ محض نفسانیت کا پاس ہے۔ اب اللہ نے ہم دونوں کے لئے ایک ایسے آدمی کو پیدا کردیا ہے جس نے دونوں کے درمیان مصالحت اور مراسلت کا دروازہ کھول دیا ہے اور ہماری باہمی عداوتوں کو زائل کردیا ہے۔ بھلا بتائو ایسے شخص کے ساتھ وہ بدسلوکیاں کیسے کی جاسکتی ہیں جن کا تم لوگوں نے ابھی ذکر کیا ہے۔
اس کے بعد جعفر نے قلم اٹھایا اور اسی خط کی پشت پر والیٔ مصر کو جواب دیا کہ : سبحان اللہ! آپ کو میرے خط میں شک کیسے پیدا ہوا؟ یہ میرے ہاتھ کا خط ہے ، اور یہ آدمی میرا عزیز ترین دوست ہے۔ میری خواہش ہے کہ آپ اس کے ساتھ بہترین سلوک کریں اور اسے میرے پاس جلد واپس کردیں۔ میں اس کے لئے بے چین ہوں ، اس کی واپسی کی مجھے ضرورت بھی ہے ۔ جب یہ جواب مصر پہنچا تو والیٔ مصر خوشی سے اچھل پڑا۔ اس شخص کے ساتھ بہترین سلوک کیا اور اسے بڑی رقم اور اعلیٰ تحفے دیئے۔
یہ شخص پوری خوش حالی کے ساتھ بغداد واپس آگیا۔ جعفر کے دربار میں حاضر ہوا۔ سلام کیا اور فرش کو چوم کر رونے لگا۔ جعفر نے پوچھا کہ : تم کون ہو بھائی؟ اس نے کہا کہ : آقائے من ! میں آپ کا پروردہ غلام ہوں۔ جعل ساز، جھوٹا اور بے جا جرأت کرنے والا ہوں۔ جعفر نے اسے پہچان لیا اور بڑی بشاشت کے ساتھ اسے اپنے سامنے بٹھا کر خیریت پوچھی۔ پھر دریافت کیا کہ : تمہیں وہاں سے کیا کچھ ملا ؟ اس نے کہا :ایک لاکھ دینار ۔ جعفر نے کہا : یہ تو بہت کم ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ اسے دوگنا کردیں۔ پھر اسے ایک عرصے تک اپنے ساتھ رکھا اور اس نے اتنا ہی دوسرے موقع پر بھی حاصل کیا ۔