Hikayat e Saadi (R.A) , Jaisa karo ge Wesa Bharo ge

I

intelligent086

Guest
جیسا کرو گے ویسا بھروگے

حکایت شیخ سعدیؒ

ایک راجہ بڑا بے رحم اور ظالم تھا۔ اپنی رعایا پر بہت ظلم اور تعدی روا رکھتا تھا۔ رعایا تنگ آکر ہمیشہ دست بد دعا تھی کہ کسی طرح ان کو ایسے ظالم کے ظلم سے پنا ہ ملے۔
ایک دن کا ذکر ہے کہ راجہ شکار کو گیا۔ جب واپس آیا تو اپنی بادشاہت میں سب جگہ منادی کرا دی کہ آج تک جو ظلم وستم میں اپنی رعایا پر کر چکا ہوں اس کی تلافی کرنا محال ہے لیکن آئندہ میری طر ف سے سب لوگ اطمینان رکھیں کہ ان کی کبھی کوئی حق تلفی نہ ہوگی اور نہ ان پر کبھی ظلم وستم ہونے پائے گا۔ مجھے کئی واقعات سے کافی عبرت مل گئی ہے۔ اب میں ظلم نہ کروں گا‘ اپنی رعایا کے حقوق کا خیال رکھوں گا۔ ان پر کسی طرح آنچ نہ آنے دوں گا اور اپنے کاموں سے ان کے دلوں کو اپنانے کی کوشش کروں گا۔ راجہ کی اس غیر معمولی منادی سے لوگوں میں ہلچل مچ گئی۔ لوگ راجہ کی عادتوں سے بخوبی واقف تھے۔ انہیں یقین نہیں آتا تھا کہ ایک دن میں راجہ کی زندگی ایسا پلٹا کھا جائے گی کہ وہ ظلم سے دستبردار ہو کر رعایا کا بھی خیر خواہ بن جائے؟ مگر راجہ اپنے قول و اقرار پر قائم رہا۔ اس دن سے ملک کی بہبود میں مصروف ہوا کہ سب لوگ امن وآرام سے زندگی بسر کرنے لگے۔ رعایا بھی اسے دل سے چاہنے لگی اور اس کی درازی عمر اور سلطنت کے قیام کے لیے دعائیں مانگنے لگی۔ وزیر ومشیر حیران تھے کہ راجہ میں یک لخت ایسی تبدیلی ہونے کی کیا وجہ ہے؟ ایک دن وزیر نے عرض کی کہ جہاں پناہ! اگر جاں بخشی ہو تو ایک سوال کروں؟ راجہ نے بڑی خوشی سے اجازت دی۔ وزیر نے عرض کی’’ عالی جاہ! ہم حیران ہیں کہ منادی کے دن سے آپ کیونکر ہر ایک برائی سے ہاتھ اٹھا کر لوگوں کی بھلائی میں ہمہ تن کوشاں رہنے لگے۔یہ اسرار ہمارے لیے معمہ ہے جو سمجھ میں نہیں آتا۔ اگر آپ سمجھا دیں تو نوازش شاہانہ سے بعید نہ ہوگا۔‘‘ راجہ نے فرمایا’’ اے وزیر! جس دن کا تم ذکر کرتے ہو میں جنگل میں شکار کھیلنے کے لیے گیا تھا۔ وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک کتا لومڑی کے پیچھے دوڑا چلا جاتا ہے‘ آخر کتے نے لومڑی کی ٹانگ پکڑ لی۔ وہ غریب لومڑی ٹانگ کتے کے منہ میں چھوڑ کر جان بچا کر بھاگی۔ یہ تماشا دیکھ کر میں چند ہی قدم آگے بڑھا ہوں گا کہ ایک شخص نے دل لگی میں ایک پتھر اس طرح گھما کر مارا کہ کتے کا سر پھٹ گیا۔ایک گھوڑا سرپٹ دوڑتا ہوا آتا تھا‘ پتھر مارنے والا اس کے جھپٹ میں آ گیا اور اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔ گھوڑا بھی بہت دور نہ گیا تھا کہ خود اس کی ٹانگ ایک سوراخ میں پھنس کر ٹوٹ گئی۔ یہ ماجرا دیکھ کر میرے دل میں بہت سخت چوٹ لگی اور میری آنکھوں کے سامنے فوراً اپنی برائیوں اور بے رحمیوں کا نقشہ کھنچ گیا۔ میں نے سمجھ لیا کہ اس دنیا میں برے کام کا نتیجہ جلد ہی مل جاتا ہے اور یہ بھی معلوم ہوگیا کہ بدی کا انجام بدی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں اس دن سے دل پر چوٹ کھا کر برائی سے بچتا اور اپنی رعایا کی بہبود کی فکر میں رہتا ہوں۔‘‘ مثل مشہور ہے کہ جیسی کرنی ویسی بھرنی۔
 
Top