I
intelligent086
Guest
حکایت سعدیؒ ۔۔۔۔۔۔ خوشحالی
بیان کیا جاتا ہے کہ ایک شخص اس قدر مفلس اور نادار تھا کہ تن ڈھانپنے کے لیے اس کے پاس پورے کپڑے بھی نہ تھے۔ ایک دن اتفاق سے وقت کے پیغمبر حضرت موسیٰ علیہ السلام اس طرف سے گزرے، اس شخص نے درخواست کی کہ اے پیغمبر، میرے لیے اللہ پاک سے دعا فرمائیے کہ وہ میری غربت دور فرما دے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس پر رحم آگیا۔ آپؑ نے اس کے حق میں دعا فرمائی اور اللہ رب العزت نے چند دنوں ہی میں اس کی غربت کو خوشحالی میں بدل دیا۔
اس واقعے کے کچھ عرصے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام اس طرف گزرے تو آپؑ نے دیکھا کہ اس شخص کو لوگوں نے پکڑ رکھا ہے اور اسے برا بھلا کہہ رہے ہیں۔ حضرت موسیٰؑ فوراً وہاں پہنچے اور لوگوں سے پوچھا کہ تم اسے کیوں ستا رہے ہو، کیا اس نے کوئی خطا کی ہے؟
لوگوں نے جواب دیا، یہ بہت خراب اور آوارہ آدمی ہے۔ پہلے تو مشروب پی کر غل غپاڑا ہی کرتا تھا۔ آج اس نے ایک بے گناہ عورت کو قتل کر دیا ہے۔ اب اسے قاضی کے پاس لے جائیں گے اور وہ اس سنگین جرم کی سزا دے گا۔
لوگوں نے بتایا کہ جب سے خوشحال ہوا ہے، سب کے لیے مصیبت بن گیا ہے۔ اس کی خوشحالی ان کے لیے عذاب ثابت ہوئی۔ کم ظرف کو طاقت حاصل ہوتی ہے تو وہ ایسا ہی کرتا ہے۔ خدا نے سب کی حالت ایک جیسی نہیں رکھی، یہ عین حکمت کے مطابق ہے۔
مل جاتا اگر بلی کو اڑنے کا ہنر تو
اک آن میں کر دیتی وہ چڑیوں کا صفایا
پا لیتا اگر سینگ گدھا گائے کی مانند
پاس اپنے کسی کو وہ پھٹکنے بھی نہ دیتا
اس حکایت میں حضرت سعدیؒ نے اس فرق کی طرف اشارہ کیا ہے جو کم ظرف اور عالی، شریف اور غیر شریف لوگوں کے مابین دیکھا جاتا ہے۔ کسی کے شریف اور غیر شریف بن جانے کے اسباب خواہ کچھ بھی ہوں اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ فرق موجود ہے۔ اسی طرح یہ بھی ناقابل تردید سچائی ہے کہ اگر بد فطرت انسان کسی طرح طاقت حاصل کر لیتا ہے تو وہ دنیا کے لیے عذاب بن جاتا ہے۔
اس سلسلے میں یہ بات خاص طور پر سمجھنے کے قابل ہے کہ اللہ پاک نے اپنی مرضی سے کسی کو شریف اور کسی کو کمین نہیں بنایا بلکہ یہ دونوں حالتیں انسانوں کے اپنے کیے کی بنا پر پیدا ہوتی ہیں۔ ایک بد فطرت شخص شریف بن سکتا ہے، اور بری عادات میں پھنس کر ایک شریف آدمی رذیل بن جاتا ہے۔ بالفاظ دیگر، اگرچہ دنیا کا نظام چلانے کے لیے انسانوں کا مختلف حیثیتوں میں ہونا فطرت کا تقاضا تو ضرور ہے لیکن یہ بات انسانوں کے اپنے اختیار میں ہے کہ وہ زندگی کے سٹیج پر اپنے لیے کون سا کردار پسند کرتے ہیں۔ ان کا یہی اختیار انھیں نباتات، جمادات اور حیوانات سے ممتاز کرتا ہے۔
بیان کیا جاتا ہے کہ ایک شخص اس قدر مفلس اور نادار تھا کہ تن ڈھانپنے کے لیے اس کے پاس پورے کپڑے بھی نہ تھے۔ ایک دن اتفاق سے وقت کے پیغمبر حضرت موسیٰ علیہ السلام اس طرف سے گزرے، اس شخص نے درخواست کی کہ اے پیغمبر، میرے لیے اللہ پاک سے دعا فرمائیے کہ وہ میری غربت دور فرما دے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس پر رحم آگیا۔ آپؑ نے اس کے حق میں دعا فرمائی اور اللہ رب العزت نے چند دنوں ہی میں اس کی غربت کو خوشحالی میں بدل دیا۔
اس واقعے کے کچھ عرصے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام اس طرف گزرے تو آپؑ نے دیکھا کہ اس شخص کو لوگوں نے پکڑ رکھا ہے اور اسے برا بھلا کہہ رہے ہیں۔ حضرت موسیٰؑ فوراً وہاں پہنچے اور لوگوں سے پوچھا کہ تم اسے کیوں ستا رہے ہو، کیا اس نے کوئی خطا کی ہے؟
لوگوں نے جواب دیا، یہ بہت خراب اور آوارہ آدمی ہے۔ پہلے تو مشروب پی کر غل غپاڑا ہی کرتا تھا۔ آج اس نے ایک بے گناہ عورت کو قتل کر دیا ہے۔ اب اسے قاضی کے پاس لے جائیں گے اور وہ اس سنگین جرم کی سزا دے گا۔
لوگوں نے بتایا کہ جب سے خوشحال ہوا ہے، سب کے لیے مصیبت بن گیا ہے۔ اس کی خوشحالی ان کے لیے عذاب ثابت ہوئی۔ کم ظرف کو طاقت حاصل ہوتی ہے تو وہ ایسا ہی کرتا ہے۔ خدا نے سب کی حالت ایک جیسی نہیں رکھی، یہ عین حکمت کے مطابق ہے۔
مل جاتا اگر بلی کو اڑنے کا ہنر تو
اک آن میں کر دیتی وہ چڑیوں کا صفایا
پا لیتا اگر سینگ گدھا گائے کی مانند
پاس اپنے کسی کو وہ پھٹکنے بھی نہ دیتا
اس حکایت میں حضرت سعدیؒ نے اس فرق کی طرف اشارہ کیا ہے جو کم ظرف اور عالی، شریف اور غیر شریف لوگوں کے مابین دیکھا جاتا ہے۔ کسی کے شریف اور غیر شریف بن جانے کے اسباب خواہ کچھ بھی ہوں اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ فرق موجود ہے۔ اسی طرح یہ بھی ناقابل تردید سچائی ہے کہ اگر بد فطرت انسان کسی طرح طاقت حاصل کر لیتا ہے تو وہ دنیا کے لیے عذاب بن جاتا ہے۔
اس سلسلے میں یہ بات خاص طور پر سمجھنے کے قابل ہے کہ اللہ پاک نے اپنی مرضی سے کسی کو شریف اور کسی کو کمین نہیں بنایا بلکہ یہ دونوں حالتیں انسانوں کے اپنے کیے کی بنا پر پیدا ہوتی ہیں۔ ایک بد فطرت شخص شریف بن سکتا ہے، اور بری عادات میں پھنس کر ایک شریف آدمی رذیل بن جاتا ہے۔ بالفاظ دیگر، اگرچہ دنیا کا نظام چلانے کے لیے انسانوں کا مختلف حیثیتوں میں ہونا فطرت کا تقاضا تو ضرور ہے لیکن یہ بات انسانوں کے اپنے اختیار میں ہے کہ وہ زندگی کے سٹیج پر اپنے لیے کون سا کردار پسند کرتے ہیں۔ ان کا یہی اختیار انھیں نباتات، جمادات اور حیوانات سے ممتاز کرتا ہے۔