I
intelligent086
Guest
حکایت سعدی
بیان کیا جاتا ہے کہ ملکِ شام کے رہنے والے ایک بزرگ، جن کا لقب خدا دوست تھا، آبادی سے نکل کر ایک غار میں آباد ہوگئے تھے۔ اللہ کی یاد کے سوا اب انہیں کسی بات سے غرض نہ تھی اور ان کی یہی بے غرضی ان کی مقبولیت کا سبب بن گئی تھی۔ لوگ دور دور سے ان کی زیارت کے لیے آتے تھے اور دعاؤں کے تحفے لے کر لوٹ جاتے تھے۔ اس علاقے کا جاگیردار ایک بہت ہی سنگ دل اور ظالم شخص تھا۔ کسی کے ساتھ اچھا سلوک کرنا تو جیسے اس نے سیکھا ہی نہ تھا۔ غریبوں کو ستانا اور رُلانا گویا اس کا خاص مشغلہ تھا۔ خدا جانے اس کے دل میں کیا خیال آیا کہ ایک دن وہ بھی بزرگ کی زیارت کے لیے پہنچ گیا۔
بزرگ خدا دوست سب سے مروت اور مہربانی کا برتاؤ کرتے تھے۔ لیکن جب اس ظالم جاگیردار کو اپنے قریب پایا تو نفرت سے منہ پھیر لیا۔ اس ظالم نے بھی یہ بات محسوس کی کہ میرے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا گیا۔ وہ قریب بیٹھ گیا اور شکایت بھری آواز میں کہا، کیا بات ہے حضرت نے میری طرف التفات نہیں فرمایا؟ کم از کم میں اس سلوک کا تو مستحق تھا جو جناب دوسروں کے ساتھ کرتے ہیں۔
بزرگ نے فرمایا، اے شخص! تو حسنِ سلوک کا مستحق کس طرح ٹھہر سکتا ہے؟ تُو خدا کی مخلوق کو ستانے اور پریشان کرنے والا ہے اورہمیں مخلوقِ خدا کی پریشانی سے پریشانی ہے۔ تو ہمارے دوستوں کا دشمن ہے۔ پھر ہمارا دوست کیسے بن سکتا ہے؟
ترے ظلم سے دل گرفتہ ہیں لوگ
برستا ہے ہر اک کے چہرے سے سوگ
جنہیں ظلم نے کر دیا سوگوار
ہمیں ہے انہی بے نواؤں سے پیار
رلاتا ہے مخلوق کو اے شقی
سمجھ لے یہ خالق سے ہے دشمنی
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں یہ نکتہ بیان فرمایا ہے کہ مخلوقِ خدا کا دشمن دراصل خدا کا دشمن ہے۔ اس لیے خدا کے دوستوں کا فرض ہے کہ مخلوق کے دشمنوں سے بیر رکھیں۔ انسان کو انسان کے کام آنا چاہیے، اسے حسن سلوک کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ لیکن اگر کوئی ظلم کرے تو اس سے نفرت کا اظہار کر کے اس کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔ اس میں اختیار اور عہدے کا خیال بھی نہیں کرنا چاہیے۔
بیان کیا جاتا ہے کہ ملکِ شام کے رہنے والے ایک بزرگ، جن کا لقب خدا دوست تھا، آبادی سے نکل کر ایک غار میں آباد ہوگئے تھے۔ اللہ کی یاد کے سوا اب انہیں کسی بات سے غرض نہ تھی اور ان کی یہی بے غرضی ان کی مقبولیت کا سبب بن گئی تھی۔ لوگ دور دور سے ان کی زیارت کے لیے آتے تھے اور دعاؤں کے تحفے لے کر لوٹ جاتے تھے۔ اس علاقے کا جاگیردار ایک بہت ہی سنگ دل اور ظالم شخص تھا۔ کسی کے ساتھ اچھا سلوک کرنا تو جیسے اس نے سیکھا ہی نہ تھا۔ غریبوں کو ستانا اور رُلانا گویا اس کا خاص مشغلہ تھا۔ خدا جانے اس کے دل میں کیا خیال آیا کہ ایک دن وہ بھی بزرگ کی زیارت کے لیے پہنچ گیا۔
بزرگ خدا دوست سب سے مروت اور مہربانی کا برتاؤ کرتے تھے۔ لیکن جب اس ظالم جاگیردار کو اپنے قریب پایا تو نفرت سے منہ پھیر لیا۔ اس ظالم نے بھی یہ بات محسوس کی کہ میرے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا گیا۔ وہ قریب بیٹھ گیا اور شکایت بھری آواز میں کہا، کیا بات ہے حضرت نے میری طرف التفات نہیں فرمایا؟ کم از کم میں اس سلوک کا تو مستحق تھا جو جناب دوسروں کے ساتھ کرتے ہیں۔
بزرگ نے فرمایا، اے شخص! تو حسنِ سلوک کا مستحق کس طرح ٹھہر سکتا ہے؟ تُو خدا کی مخلوق کو ستانے اور پریشان کرنے والا ہے اورہمیں مخلوقِ خدا کی پریشانی سے پریشانی ہے۔ تو ہمارے دوستوں کا دشمن ہے۔ پھر ہمارا دوست کیسے بن سکتا ہے؟
ترے ظلم سے دل گرفتہ ہیں لوگ
برستا ہے ہر اک کے چہرے سے سوگ
جنہیں ظلم نے کر دیا سوگوار
ہمیں ہے انہی بے نواؤں سے پیار
رلاتا ہے مخلوق کو اے شقی
سمجھ لے یہ خالق سے ہے دشمنی
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں یہ نکتہ بیان فرمایا ہے کہ مخلوقِ خدا کا دشمن دراصل خدا کا دشمن ہے۔ اس لیے خدا کے دوستوں کا فرض ہے کہ مخلوق کے دشمنوں سے بیر رکھیں۔ انسان کو انسان کے کام آنا چاہیے، اسے حسن سلوک کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ لیکن اگر کوئی ظلم کرے تو اس سے نفرت کا اظہار کر کے اس کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔ اس میں اختیار اور عہدے کا خیال بھی نہیں کرنا چاہیے۔