I
intelligent086
Guest
حکایت سعدیؒ ...... مرد شجاع
بیان کیا جاتا ہے کہ ایک مرد شجاع تاتاریوں کے ساتھ لڑتے ہوئے زخمی ہو گیا۔ زخم کاری تھا۔ معمولی علاج سے افاقہ نہ ہوا تو اس کے ایک دوست نے کہا کہ فلاں سوداگر کے پاس نوش دارو (اکسیر اعظم) ہے، مناسب ہے اس سے سوال کر، یہ دوا مل گئی تو امید ہے تو جلد شفا یاب ہو جائے گا۔
جس سوداگر کے پاس نوش دارو تھی وہ بہت کنجوس تھا۔ اس کا یہ حال تھا کہ آفتاب ایک روٹی ہوتا اور اس کے دستر خوان پر رکھ دیا جاتا تو دنیا قیامت تک روشنی کو ترستی رہتی۔ زخمی سپاہی نے اپنے دوست سے کہا کہ بھائی اگر میں اس کنجوس مکھی چوس سے سوال کروں تو معلوم نہیں وہ نوش دارو دے گا بھی یا نہیں اور اگر دے بھی دے گا تو معلوم نہیں کہ مجھے شفا بھی ہو گی یا نہیں۔ میں تو خیال کرتا ہوں کہ بدخصلت شخص کے سامنے ہاتھ پھیلانا بہت بڑی ذلت ہے۔
کمینے سے نہ رکھ امید ہرگز چارہ سازی کی
ترے حصے میں آئے گا نہ ہرگز التفات اس کا
اگر کچھ مل بھی جائے پھر بھی رسوائی کا ساماں ہے
تری جاں کا زیاں ہے تحفہ قند و نبات اس کا
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں سوال کرنے کو ایک بڑی کمزوری ثابت کیا ہے۔ ان کی یہ بات دراصل اسلامی فلسفہ اخلاق کی تشریح ہے جس میں سوال کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ حضرت سعدیؒ فرماتے ہیں کہ سوال کرنا یوں بھی غلط ہے اور بدخصلت یا کمینے کے آگے ہاتھ پھیلانا تو بہت ہی بڑی ذلت ہے۔ یہاں یہ بات سمجھنے کے قابل ہے کہ اسلامی فلسفہ اخلاق میں بدخصلت اور شریف کا وہ تصور ہر گز نہیں ہے جو بعض دیگر اقوام بالخصوص ہندوؤں میں ہے کہ ایک طبقہ نسلی اور خلقی طور پر شریف اور دوسرا طبقہ کمین ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے تخصیص انسانوں کے اعمال و افعال کی بنیاد پر پیدا ہوتی ہے، سود اگر کو اس کے کنجوس ہونے کی بنا پر ایسا کہا گیا ہے۔
بیان کیا جاتا ہے کہ ایک مرد شجاع تاتاریوں کے ساتھ لڑتے ہوئے زخمی ہو گیا۔ زخم کاری تھا۔ معمولی علاج سے افاقہ نہ ہوا تو اس کے ایک دوست نے کہا کہ فلاں سوداگر کے پاس نوش دارو (اکسیر اعظم) ہے، مناسب ہے اس سے سوال کر، یہ دوا مل گئی تو امید ہے تو جلد شفا یاب ہو جائے گا۔
جس سوداگر کے پاس نوش دارو تھی وہ بہت کنجوس تھا۔ اس کا یہ حال تھا کہ آفتاب ایک روٹی ہوتا اور اس کے دستر خوان پر رکھ دیا جاتا تو دنیا قیامت تک روشنی کو ترستی رہتی۔ زخمی سپاہی نے اپنے دوست سے کہا کہ بھائی اگر میں اس کنجوس مکھی چوس سے سوال کروں تو معلوم نہیں وہ نوش دارو دے گا بھی یا نہیں اور اگر دے بھی دے گا تو معلوم نہیں کہ مجھے شفا بھی ہو گی یا نہیں۔ میں تو خیال کرتا ہوں کہ بدخصلت شخص کے سامنے ہاتھ پھیلانا بہت بڑی ذلت ہے۔
کمینے سے نہ رکھ امید ہرگز چارہ سازی کی
ترے حصے میں آئے گا نہ ہرگز التفات اس کا
اگر کچھ مل بھی جائے پھر بھی رسوائی کا ساماں ہے
تری جاں کا زیاں ہے تحفہ قند و نبات اس کا
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں سوال کرنے کو ایک بڑی کمزوری ثابت کیا ہے۔ ان کی یہ بات دراصل اسلامی فلسفہ اخلاق کی تشریح ہے جس میں سوال کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ حضرت سعدیؒ فرماتے ہیں کہ سوال کرنا یوں بھی غلط ہے اور بدخصلت یا کمینے کے آگے ہاتھ پھیلانا تو بہت ہی بڑی ذلت ہے۔ یہاں یہ بات سمجھنے کے قابل ہے کہ اسلامی فلسفہ اخلاق میں بدخصلت اور شریف کا وہ تصور ہر گز نہیں ہے جو بعض دیگر اقوام بالخصوص ہندوؤں میں ہے کہ ایک طبقہ نسلی اور خلقی طور پر شریف اور دوسرا طبقہ کمین ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے تخصیص انسانوں کے اعمال و افعال کی بنیاد پر پیدا ہوتی ہے، سود اگر کو اس کے کنجوس ہونے کی بنا پر ایسا کہا گیا ہے۔
Hikayat e Saadi (R.A) ,Mard e Shuja